چلو انشا جی کے پاس چلیں

January 09, 2022

مصنّف: ڈاکٹر ریاض احمد ریاض

صفحات: 359، قیمت: 700 روپے

ناشر: بُک کارنر، جہلم۔

یہ مصنّف کے اُس مقالے کا پہلا حصّہ ہے، جو 1982ء میں’’ ابنِ انشا، احوال و آثار‘‘ کے عنوان سے پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا گیا تھا۔اسے پہلی بار 1988ء میں انجمن ترقیٔ اردو پاکستان، کراچی نے شایع کیا، بعدازاں، اس کے مزید ایڈیشنز بھی شایع ہوئے اور اب بُک کارنر، جہلم نے اسے اپنے روایتی ذوق کے مطابق قارئین تک پہنچایا ہے۔ابنِ انشا کے منفرد اور دِل چسپ خطوط کا پہلا مجموعہ’’ خط انشا جی کے‘‘ بھی ڈاکٹر ریاض احمد ہی نے ترتیب دیا تھا، جو پہلی بار 1985ء میں منظرِ عام پر آیا۔ زیرِ تبصرہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔

پہلے حصّے میں ابنِ انشا کی پیدائش( 1927ء) سے قیامِ پاکستان تک کے واقعات کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں لاہور سے کراچی تک یعنی 1947ء سے 1955ء تک کا احوال ہے۔ تیسرے باب میں ’’ چاند نگر‘‘ کی اشاعت سے لے کر پاکستان نیشنل بُک سینٹر کی سربراہی تک کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ جو 1955ء سے 1962ء پر محیط ہیں۔ چوتھے باب میں ابنِ انشا کی سیرو سیّاحت اور سفرِ آخرت(1978ء) کا ذکر ہے۔16 صفحات پر مشتمل آخری باب میں اُن کی شخصیت کا ایک مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

جمیل الدّین عالی کا’’ حرفے چند‘‘ کے عنوان سے اردو کے نام وَر ادیب، کالم نگار اور مصنّف، ابنِ انشا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں، خاص طور پر اُن کی نجی زندگی کے بارے میں تفصیلی مضمون بھی کتاب میں شامل ہے، جس کے مطالعے سے ابنِ انشا کی پیچیدہ اور آزمائشوں سے بَھری زندگی کے تجزیے میں مدد ملتی ہے۔اُنھوں نے مصنّف کی محنت اور کام کے معیارکی بھی ستائش کی ہے۔