نیت ہی نہیں

January 24, 2022

لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں سچائی تک رسائی بہت مشکل ہے ۔ وزیرِ اعظم، آرمی چیف ، چیف جسٹس اور اداروں کے درمیان بند کمروں میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں جانتے ۔ گوگل، مائیکروسافٹ ، فیس بک او ر بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیاں جو ہمارے موجودہ طرزِ زندگی کی بنیاد ہیں ،عوام سے معاملات چھپاتی ہیں ۔ سپرپاورز دنیا کو دھوکے دیتی ہیں، امریکہ کبھی چاند پر نہیں اترا ۔ ادویات بنانے والی کمپنیاں میڈیکل سسٹم کو ہائی جیک کر لیتی ہیں ۔ فاسلز اور فلکیات سمیت ہر جگہ عوام سے جھوٹ بولا جاتا ہے ۔ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا قتل ایک جھوٹ ہے ۔ میں ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ اس لیے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بے وقوف بنانا ممکن نہیں ۔ وقت بہت سی چیزوں کو آشکار کر دیتا ہے ۔ ہر چیز کے ماہر ہوتے ہیں‘ جنہیں دھوکہ دینا ممکن نہیں ۔ جس وقتEventsرونما ہو رہے ہوتے ہیں‘ اس وقت انسان اتنی طویل منصوبہ بندی نہیں کر سکتا ۔ پھر ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سی چیزیں ریکارڈ پر آجاتی ہیں۔ وکی لیکس‘ پانامہ لیکس اور ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کیا تھے‘ جنہوں نے کرّہ ء ارض کو ہلا کے رکھ دیا، بڑی طاقتیں تو ان چیزوں کو چھپانا چاہتی تھیں۔ ہر واقعہ اپنے پیچھے ثبوت اور شواہد چھو ڑجاتاہے ،جیسے اسامہ بن لادن بیوائیں اوربچے چھوڑ کے مرا، جو عدالتوں میں پیش ہوئے ۔

آپ اگرایک گاڑی میں دوسری کے پرزے نصب کر دیں تو کیا مکینک کو دھوکہ دیا جا سکتاہے ؟ آپ کسی تھرڈ کلاس شاعر کی پھڑکتی ہوئی غزلوں پہ اقبالؔ کا ٹائٹل لگا کر چھاپ لیں تو کیا شاعروں کو دھوکہ دیاجا سکتا ہے ؟ جو اقبالؔ کو جانتاہے‘ وہ تو یہ دیوان اٹھا کر آپ کے منہ پر دے مارے گا۔اسے نہیں پتہ کہ پروین شاکر کا شعر کون سا ہے اور فیض احمد فیض ؔ کا کون سا۔آپ یقین کریں ، آج بھی بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کو کوئی جہاز کسی عمارت سے ٹکرایا ہی نہیں ۔ مجھے ایک دفعہ ایک بینکر نے کہا کہ پاکستان میں کبھی کوئی خودکش حملہ ہوا اور نہ طالبان نامی کوئی مخلوق پائی جاتی ہے بلکہ یہ میڈیا والے ہیں ، جو اپنا چورن بیچنے کے لیے افسانے گھڑتے ہیں ۔ پاکستانی عوام اور میڈیا ’’انجینئر ‘‘ آغا وقار کا یہ دعویٰ تسلیم کرچکے تھے کہ وہ پانی سے انجن چلاتا ہے ۔ ڈاکٹر ثمر مبارک منداور ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے اس دعوے کے چیتھڑے اڑا دیے ۔سچ ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ اس کے باوجود شاید ایک فیصد لوگ بھی اس تک نہیں پہنچ پاتے۔ وجہ؟ ہر شخص کے ذہن میں کچھ تعصبات ہیں۔ بچپن میں اپنے فرقے کے درست ہونے سمیت جو نظریات ذہن میں اتار دیے جائیں ، اکثر وہ قبر تک ساتھ جاتے ہیں ۔ انبیا کرامؑ کو لوگ یہی کہتے تھے کہ بھلا ہم اپنے آبائو اجداد کی پیروی نہ کریں ؟خدا اس پہ تبصرہ کرتا ہے اور اگرچہ ان کے آبائو اجداد گمراہ ہی ہوں! ہر فرقہ اپنے سواباقیوں کو گمراہ قرار دیتا ہے ۔ سیکولر حضرات سرے سے مذہب کو ہی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ہرقسم کی آزادی چاہتے ہیں ۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بظاہر جو لوگ مذہبی تھے‘ انہوں نے انتہائی خوفناک قسم کے نمونے پیش کیے۔ دو بڑے فرقے تھے۔ ایک نے بازاروں،سکولوںاور مزاروں کو بم سے اڑانا شروع کر دیا؛حتیٰ کہ فوج نے ہزاروں خارجیوں کو قتل کر کے امن قائم کیا۔ دوسرے چند سال پہلے ممتاز قادری کی بر سی پہ پارلیمنٹ کے سامنے اکٹھے ہوئے تو فوجی قیادت اور عدالتوں کے بارے میں ایسے ایسے ارشاد جاری کیے کہ ملک میں فساد پھیل جاتا۔ ان کے مرحوم لیڈر نے اس وقت یہ ارشاد کیا : جو پاکستان سے قرضہ واپس مانگے، اس پہ غوری دے مارو۔ جواب میں انہوں نے بین البراعظمی میزائل دے مارا تو؟ انسان تعصب کے زیر اثر ہو تو پھر عقل کی ساری توانائی اس بات کو سچ ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ ایسی ایسی دلیل انسان پیش کرتاہے‘جسے کسی طرح بھی غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی عقل اپنے آپ کو دھوکہ دینے لگتی ہے۔ اس دوران سچائی کا قتل ِ عام ہو تا ہے۔ جیسے میں عمران خان کے سحر میں مبتلا ہوں تو حکومت کے ہر غلط اقدام کے حق میں ایسے ایسے جواز پیش کروں گا ، جو کپتان کے اپنے دماغ میں بھی نہ ہوں۔یہی کام کوئی اورلیڈر کرتا تو میں ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔یہ کیا ماجرا ہے کہ آپ کو خیالات کا ایک سیٹ دے دیا جاتاہے اور کہا جاتاہے کہ تم رائٹسٹ ہو یا لیفٹسٹ ۔ باقی زندگی آپ نے اس کا دفاع کرنا ہے ۔ ہر گروہ یہی تو کرتا ہے‘ خواہ وہ سیکولر ہو یا طالبان۔ کیا انسان کے اندر کوئی خواہش نہیں ہونی چاہیے کہ سچ تک پہنچے۔جو لوگ ارتقا کو نہیں مانتے ، انہیں فاسلز کے بارے میں ایک لفظ بھی معلوم نہیں ۔ اب میرے کالموں کے بعد شاید کسی نے پڑھنا شروع کیا ہو۔ ان کے اندرخوف ہے کہ ہمارے مذہبی عقائد غلط ثابت نہ ہو جائیں ۔ جو لوگ جدید میڈیکل سائنس کے خلاف ہیں ، انہیں معلوم ہی نہیں کہ پولیو جیسی وبائوں کو ویکسی نیشن ہی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دنیا کی آبادی 7.8ارب ہو گئی ۔ مغرب والے گمراہ سہی کہ اخلاقی اقدار کے خلاف قوانین بنائے۔ اس کے باوجود ریسرچ کرتے ہوئے وہ مکمل ایمانداری سے کام لیتے ہیں ۔یہی ان کا مذہب ہے ۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے کسی بھی میٹریل کی عمر کا اندازہ لگانا‘ جینز کا مطالعہ اور زمین کے مدار میں اڑتی ہوئی دوربینیں۔ ان چیزوں میں ملاوٹ ممکن ہی نہیں ۔ہم ریسرچ کر نہیں سکتے تو کیا کھلے دماغ کے ساتھ ان کی تحقیق کا مطالعہ بھی ممکن نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر سچ تک ہم پہنچنا چاہتے ہی نہیں!