ہم پر الزام ہے یہ ہیں کراچی والے، کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے

February 21, 2022

کراچی میں رہتے پوری زندگی گزر گئی ۔ جب بھی کراچی سے باہر نکلے ، کراچی والوں کی صفائیاں ہی دیتے رہے ۔ پہلا الزام تو یہی رہا کہ کراچی والے مہمان نواز نہیں ۔ وقت نہیں دیتے ۔ پہچانتے نہیں ۔ گھر جاو تو پہلے یہ پوچھتے کب تک رکنے کا ارادہ ہے ؟ اور اگر رات قیام نہ کروانے کا ارادہ نہ ہو تو کہتے ہیں " کھانا کھا کر جانا "۔

ایک مرتبہ ملتان سے بذریعہ بس کراچی آرہا تھا ۔ رات کے وقت روانگی ہوئی۔ یونیورسٹی کے دو شستہ و مہذب طالب علم ساتھ والی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ تعارف ہوا اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں کراچی والا ہوں ( ویسے یہ میرا تجربہ رہا ہے کہ آپ کہیں چلے جائیں کراچی والے پہچان میں آجاتے ہیں ) تو راستے بھر کراچی والوں سے متعلق پوچھتے رہے ۔ سہراب گوٹھ آ گیا اور میں نے آنکھ تک نہ جھپکی ۔ ان کی ایک ایک بات کا خندہ پیشانی سے جواب دیتا رہا۔

میں جانتا تھا کہ وہ میرے جوابات سے بہت زیادہ مطمئن نہ ہوں گے پھر بھی اپنے طور پر انہیں صفائی دینے کے بجائے بڑے شہر کی مصروفیات ، ضروریات، فاصلوں اور اوقات کار کا بتاتا رہا ۔ چھوٹے شہروں میں وقت گھڑی کی صورت ہاتھ میں بندھا ہوتا ہے ۔ بڑے شہروں میں انسانوں کی باگیں وقت کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ میں نے کہا کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ گنجان آباد ہے ، کئی کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اس لیے زندگی ایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل کے تحت گزرتی ہے ۔ آپ دبئی کی مثال لے لیں ۔ گو کہ چھوٹا سی جگہ ہے لیکن اس کی زندگی کراچی سے بھی تیز تر ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے ترقی یافتہ شہر اسی صورت حال سے اور بھی زیادہ دوچار ہیں۔

میں نے انہیں بتایا کہ بڑے شہروں میں محبت ، خلوص، پیار اور مہمان نوازی کم نہیں ہوتی ۔ وقت کی قلت پڑ جاتی ہے ۔ چھوٹے شہروں میں فاصلے کم اور وقت زیادہ ہوتا ہے ۔ میل ملاپ اور روز کی بیٹھکیں عام ہوتی ہیں ۔ مہمان آجائے تو اس کی خاطر و مدارات میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا جاتا۔

اتفاق دیکھئے جو لڑکے مجھے ملتان سے کراچی آتے ہوئے ملے ۔ سالوں بعد ان میں سے ایک مجھے مل گیا۔ میں تو اسے نہ پہچان سکا لیکن وہ مجھے پہچان گیا ۔ اپنا تعارف کرایا اور بہت سادگی سے اس دن کے سوالوں پر معذرت کرنے لگا : اس دن ہم نے آپ سے بہت تلخ سوالات کیے تھے لیکن آپ نے جس تحمل اور دلیل سے جواب دیے۔ ہمیں احساس تو ہو گیا تھا کہ جو کچھ ہم سوچتے اور سمجھتے ہیں۔

سب کچھ ایسا نہیں۔ کافی کچھ پروپیگنڈا اور ہمارے ذہن کی اختراع بھی ہے۔ اس دن اس کے اردو بولنے میں مقامی رنگ نمایاں تھا جس میں ایک الگ مزا تھا مگر آج اس کی اردو کراچی والی تھی ماسوائے چند الفاظ کے۔ میں کہا تمھاری اردو بہت صاف ہو گئی ہے۔ کراچی والی حس مزاح بھی اس میں آگئی تھی، بولا : دل جو صاف ہو گیا ہے۔ مجھے اس کا یہ جملہ بہت اچھا لگا ۔

کہنے لگے مجھے کراچی آئے چار سال ہو گئے ہیں۔ یہاں ملازمت کرتا ہوں ۔ یقین جانیں گھر سے آفس اور آفس سے آنے جانے میں جان نکل جاتی ہے ۔ گھر آنے کے بعد اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی کے ہاں جایا جائے۔ بس صبح آفس جانے کی فکر ہوتی ہے ۔ میں نے کہا تو پھر کوئی مہمان آجائے تمھارے شہر سے تو ؟ نظریں جھکا کر کہنے لگا : سر جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ بس ایک کوشش ہوتی ہے کہ اس کی بہترین مہمان نوازی کروں مگر دو تین گھنٹے سے زیادہ کی سکت نہیں ہوتی ۔ سارا معاملہ وقت کا ہے ۔ دل تو رات گئے تک بیٹھنے کو چاھتا ہے مگر ذہن گھڑی کی ٹھک ٹھک پیغام رہتا ہے۔

میں نے کہا تو اب وہ وضاحتیں جو میں نے دی تھیں ۔ اب وہ آپ کرتے ہیں۔ بولا: آپ سے کہیں زیادہ کرنی پڑتی ہیں لیکن وہ مانتے نہیں کہتے ہیں تجھے کراچی کی ہوا لگ گئی ہے ۔ یہاں کا پانی جو منہ لگ گیا ہے۔ میں نے کہا : اب بتاو ، کوئی حل ہے ۔ کہنے لگا : ایک بات کہوں میں آپ سے۔ میں نے ہاں میں سر ہلادیا۔ آپ لوگ بڑے کشادہ دل ہوتے ہیں ۔ تصنع و بناوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اب تو میں بھی کراچی والوں کی فہرست میں آ گیا ہوں ۔

میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا : بڑے شہروں کے لوگ بڑے کشادہ و سادہ دل ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہر الزام کا جواب بہت اطمینان و دلیل سے دیتے ہیں۔ مگر دوسرے شہر والے اسے بہانے بازی اور شہری ہوشیاری کے خانے میں رکھ کر کسی جواب سے مطمئن نہیں ہوتے ۔ کسی طرح کراچی والوں کو الزامات کے کٹہرے سے باہر نہیں نکالتے۔ میں نے کہا گھر جانا ہوتا ہے ؟ ۔کہنے لگا : عید تہوار پر تو ضرور جاتا ہوں مگر تیسرے روز کی صبح سے ہی نکلنے کی سوچتا ہوں ۔ گھر والے بہت روکتے ہیں مگر میری ملازمت تو پرائیوٹ ہے مجھے تو پہنچنا ہوتا ہے ۔ اکثر شادی و فوتگی میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔

میں نے اسے بتایا کہ جس رات تم مجھے ملے تھے ۔ تمھیں معلوم ہے ۔ میں اسی صبح ایک تدفین میں شرکت کے لیے ملتان پہنچا تھا ۔ رات بھر کا جاگا تھا اور رات کو پھر بس میں سوار ہو گیا اور پوری رات کتنی دلجمعی اور اطمینان سے تمھارا ہر الزام سنتا رہا ۔ کسی مرحلے پر تمھیں لگا کہ میں اکتا گیا ہوں۔ چاھتا تو آنکھیں موندھ کر سو جاتا۔ بس ایک بات یاد رکھنا بڑے شہر میں رہو تو دل بھی بڑا رکھو ورنہ تمھیں یہ سننے کو بھی ملے گا کہ کراچی والے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے ۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔

میں نے اسے بتایا کہ باتیں تو ہم بھی بہت محسوس کرتے ہیں مگر کبھی کہتے نہیں۔ کراچی والے کبھی دوسرے شہر کے لوگوں پر الزام نہیں لگاتے۔ میں نے اسے بتایا کی جس انتقال میں ، میں گیا تھا۔ وہاں نماز جنازہ میں لوگوں کی شرکت دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ کراچی والے اتنا شادی میں بن سنور کر نہیں جاتے جس طرح وہ سفید کڑک شلوار سوٹ میں تازہ تازہ شیو کر کے آئے تھے۔

کار والوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جنازے سے آگے اپنی شاندار کاریں کھڑی کردیں تاکہ ایک ایک شخص میت کے ساتھ ساتھ کاروں کو بھی دیکھ لیں۔ میں نے اسے بتایا کہ جو جینز کی پینٹ پہن کر میں کراچی سے چلا تھا۔ بس اس پر ٹی شرٹ ضرور تبدیل کی تھی اور اسی ٹی شرٹ اور جینز کی پینٹ کے ساتھ تمھیں ملا تھا۔ تصنع اور بناوٹ کی کھوٹ کراچی والوں میں مشکل سے ملے گی کیونکہ اس کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے ۔

میں نے جو خاص بات وہاں نوٹ کی وہ کراچی والوں کے عمومی مزاج کے بالکل خلاف تھی۔ وہاں سرکاری افسران اور زمینداروں کو اضافی و غیر ضروری اہمیت و عزت دی جارہی تھی۔ کراچی والے اس عادت سے بہت دور ہیں۔ یہاں بڑے سے بڑے طرم خان آ جائے۔ کراچی والے اگر جاننے والا ہے تو عزت سے ضرور پیش آتے ہیں ورنہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ میں نے اس سے ہوچھا کہ یہاں آ کر تم میں کیا تبدیلی آئی ؟ ہنسا : اپنے کام میں اتنا مصروف رہتے پیں کہ کہیں اور دھیان جاتا ہی نہیں۔ میں نے کہا : کیا بے حس ہو گئے ہو ؟ بولا : ایسا بالکل بھی نہیں ۔جب ضرورت ہو تو محلے اور رشتے داروں سے رابطہ اور ملاقات لازمی ہے ۔

میں نے کہا : تم نے کبھی دیکھا اگر روڈ پر کوئی معمولی سا بھی حادثہ ہو جائے تو ذرا سی دیر میں کتنے موٹرسائیکل اور کاروں والے رک جاتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر الزام ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ فلاحی ادارے موجود ہیں جو کسی سے کچھ نہیں پوچھتے اور سب کے لیے دست تعاون دراز کرتے ہیں۔

اس کے بعد وہ چلا گیا اور کراچی کی بھیڑ میں کہیں گم ہو گیا ۔ اب پتہ نہیں کہ وہ دوبارہ ملے کہ نہیں۔ کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے جہاں آبادی کا ایک سمندر ہے۔ اگر کراچی والوں کو سمجھنا ہے تو پھر آپ کو اس آبادی کے سمندر میں اترنا ہوگا۔ گہرائی میں اتریں گئے تو معلوم ہوگا کہ دور سے ٹھاٹھے مارتا یہ سمندر کتنا سادہ مزاج ، وسیع الذہن اور کشادہ دل ہے۔