اسحار ڈار کی واپسی اور معاشی میدان سے اچھی خبریں

October 09, 2022

اسحاق ڈار کئی برس بعد لندن سے وطن واپس آکر وزیرِ خزانہ کا عُہدہ سنبھال چُکے ہیں۔ وہ پانچ ماہ میں نون لیگ اور اتحادیوں کے دوسرے وزیرِ خزانہ ہیں۔اسحاق ڈار پہلے بھی دو مرتبہ وزیرِ خزانہ رہ چُکے ہیں اور جب2017 ء میں اُنہیں یہ عُہدہ چھوڑنا پڑا، تو اُس وقت مُلکی گروتھ ریٹ5.9 فی صد تھا اور توقّع کی جارہی تھی کہ یہ آئندہ سال سات کے قریب پہنچ جائے گا۔ اُن دنوں اردگرد کے ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہے تھے۔ڈار صاحب کے زمانے میں ڈالر104 روپے کا تھا، جسے پاکستانی اب تک یاد کرتے ہیں۔

گو کہ اُن کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ایسا مصنوعی انتظامات کے تحت تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی، جسے معیشت کا بس اِتنا ہی پتا ہوتا ہے کہ کیا چیز منہگی اور کیا چیز سستی ہے، مطمئن ہی نہیں، بہت خوش بھی تھا۔ڈار صاحب سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں مالیاتی مینجمنٹ کے فن پر عبور حاصل ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح تمام شعبے رواں رکھنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔وہ دو جمع دو کے فن سے بخوبی واقف ہیں اور اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔خوش آیند امر یہ ہے کہ ان کے آتے ہی ڈالر کی گراوٹ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے،جب کہ اسٹاک ایکسچینج سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔

یہ اچھی خبر اِس لیے بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے اور دوست ممالک کے قرضے مؤخر ہونے کے باوجود منہگائی، ڈالر کی قدر میں اضافے اور اسٹاک ایکسچینج میں عدم استحکام نے عوام اور ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ان حالات میں اتحادی حکومت، بالخصوص نون لیگ کے امیج پر منفی اثرات مرتّب ہو رہے تھے، جو مُلک میں عمومی اور پنجاب میں خاص طور پر معاشی ریلیف اور بڑے عوامی منصوبوں کی شہرت رکھتی ہے۔

موٹر وے، اورنج ٹرین جیسے منصوبے اسی کے کریڈٹ پر ہیں۔جب منہگائی نے سَر اٹھایا، تو عمران خان نے اسے بنیاد بناتے ہوئے نون لیگ کو نشانے پر رکھ لیا۔نئے وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ’’ پہلے روپے کو یرغمال بننے دیا اور نہ اب ایسا ہونے دیں گے۔‘‘انہوں نے روپے کی قدر میں گراوٹ کو مصنوعی قرار دیا۔نیز، انہوں نے بڑھتی منہگائی کا بھی اعتراف کیا، لیکن یہ نہیں کہا کہ ایسا عالمی اثرات کے سبب ہو رہا ہے، بلکہ عوام کو یقین دلایا کہ وہ منہگائی کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

سبک دوش ہونے والے وزیرِ خزانہ، مفتاح اسماعیل نے بہت ہی مشکل حالات میں خزانے کی دیکھ بھال کی اور خُوب کی۔ اُنھوں نے مناسب بجٹ پیش کیا۔اُن پر منہگائی، تیل، گیس،بجلی کی قیمتوں اور مختلف ٹیکسز کے حوالے سے شدید تنقید ہوئی، لیکن یہی وہ مشکل فیصلے تھے، جن کا معاشی ماہرین، اینکرز اور تجزیہ کار ذکر تو بہت کرتے ہیں، لیکن جب ایسے اقدامات کیے جائیں، تو وہ بھی عوام کے ساتھ مل کر حکومت پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہ اِن ماہرین اور تجزیہ کاروں کی معاشی اور نمائشی اپروچ کے پیمانے کیا ہیں۔

وہ عوام کو سمجھانے اور حکومت کو درست راستے پر رکھنے کی بجائے جذباتی لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جادو کی چَھڑی تو کسی کے پاس بھی نہیں ۔اصل کام معیشت کو درست ٹریک پر ڈالنا ہے تاکہ یہ آگے بڑھ سکے اور سرمایہ رواں رہے۔ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے بہت ہی ناگفتہ بہ حالات میں معاہدہ کیا، جس کی شروعات سابق وزیرِ اعظم، عمران خان کے دَور میں ہوئی، لیکن وہ اسے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے گئے۔ بلاشبہ، مفتاح اسماعیل نے مُلک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ایف اے ٹی ایف سے معاہدہ اب تکمیل کے قریب ہے۔ اسٹیٹ بینک کو غیر متنازع بنایا۔ ان پر تنقید تو ہوتی رہے گی، لیکن اُن کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آج پاکستان، پاکستان ہے، سری لنکا نہیں۔

عمران خان کہتے تھے کہ چند دنوں میں مُلک دیوالیہ ہوجائے گا، یہاں خانہ جنگی ہوگی، لوگ بھوکے مریں گے، لیکن اللہ کا شُکر ہے کہ ایسا کچھ نہیںہوا۔منہگائی اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے، مگر مُلکی ساکھ بہرحال قائم ہے۔وزیرِ خزانہ کی تبدیلی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نون لیگ کے پاس ایک مضبوط، مربوط اور ماہر اقتصادی ٹیم موجود ہے۔انہیں اِدھر اُدھر سے، مختلف جماعتوں سے مانگے تانگے کے وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر مستعار نہیں لینے پڑتے، نہ ہی انہیں باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نون لیگ کا ویژن اقتصادی ہے اور وہ معاشی ترقّی کو اولیت دیتی ہے۔2013 ء میں بھی اس کا منشور یہی تھا اور نواز شریف اسی کے تحت بھارت سے تعلقات معمول کی طرف لانا چاہتے تھے،لیکن افسوس کہ نادانوں، معیشت سے ناواقفوں اور جذباتی ماہرین نے غدّار غدّار کا ڈراما شروع کردیا،جس کے سبب سب ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ وزیرِ اعظم، شہباز شریف کا کہنا ہے کہ’’ اگر مُلک کے لیے سو بار بھی بھیک مانگنی پڑی، تو مانگوں گا۔‘‘ مگر اصل بات یہ ہے کہ مانگا ہوا سرمایہ خرچ کہاں ہوتا ہے۔بڑے منصوبوں پر یا صرف دِکھاوے کے کاموں پر۔ہمیں روپیا مستحکم کرنے کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور سب سے بڑھ کر منہگائی کم کرنی ہے۔

نیز، سیلاب متاثرین کی بحالی بھی ایک بڑا امتحان ہے۔تیل کا درآمدی بِل بہت زیادہ ہے،جس کی وجہ سے ایکسپورٹ، امپورٹ کا توازن بگڑ جاتا ہے اور مالی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے،جس کے سبب ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں۔ عوام ہی نہیں، پڑھے لکھے لوگوں ،خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ کو بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ ہماری برآمدات کا زیادہ تر حصّہ امریکا اور یورپ کو جاتا ہے۔ وہیں سے ہم کماتے ہیں، باقی ممالک سے تو ہم خام مال درآمد کر کے پیسا ادا کرتے ہیں۔ کیا یوکرین کی جنگ سے پہلے پاکستان کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ پتا تھا کہ وہ ہمیں گندم اور کھانے کا تیل فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں، اس نے ہمیں فوجی ٹینکس بھی فروخت کیے، جن کی تعداد دوسو بتائی جاتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی مُلک ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم یوکرین سے اربوں ڈالرز کا گندم اور کھانے کا تیل منگواتے ہیں؟ہماری زراعت کے وہ کون سے مسائل ہیں کہ کاشت کار مجموعی مُلکی آبادی کا پچاس فی صد ہونے کے باوجود باقی شہریوں کی ضروریات پوری نہیں کرپاتے۔ یہ بات بھی بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قدرتی وسائل75 سال بعد بھی ہمیں خوش حال کیوں نہ کر سکے۔ گیس، جسے ہم دن رات چولھوں میں پُھونکتے ہیں، اب کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔

گیس کے ذخائر ہونے کے باوجود ایل این جی منگوانے پر اربوں روپے کیوں خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پانی کا یہ حال کہ آدھا مُلک ڈوب گیا اور اب یہ پانی سمندر بُرد ہو رہا ہے، لیکن ڈیمز بن کر نہیں دیتے۔سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ، جناب ثاقب نثار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دیامر بھاشا ڈیم بنوائیں گے، اِس کے لیے چندہ بھی اکھٹا کیا گیا، انھوں نے اس منصوبے کی چوکیداری کرنے کا بھی اعلان کیا تھا،مگر آج تک اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔

یورپ کے ایک اور اہم مُلک، اٹلی میں قوم پرست جماعت اقتدار میں آگئی ہے۔چند روز قبل ہونے والے انتخابات میں جارجیا میلونی کی برادرز پا رٹی 26 فی صد ووٹ لے کر سب پر سبقت لے گئی۔ برادرز پارٹی انتہائی بائیں بازو کی جماعت ہے اور اپنے قوم پرستانہ خیالات کی وجہ سے مشہور ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس نے صرف چار فی صد ووٹ لیے تھے۔برادرز پارٹی تارکینِ وطن، خاص طور پر مسلمانوں کی سخت مخالف ہے۔

میلونی اٹلی کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم ہوں گی۔یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلا موقع ہے کہ بائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی اٹلی میں برسرِ اقتدار آئی ہے۔گو کہ میلونی نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ وہ پورے مُلک کے لیے قابلِ قبول حکومت بنائیں گی۔تاہم، انہوں نے یہ بھی یاد دلانا ضروری سمجھا کہ اٹلی نے واضح طور پر بائیں بازو کو اقتدار دیا ہے۔

اٹلی، یورپ کا تیسرا بڑا مُلک ہے اور روم اس کا دارالحکومت ہے۔ جرمنی اور فرانس کے بعد وہ سب سے مضبوط معیشت ہے۔ عیسائیوں کا روحانی مرکز، ویٹیکن سٹی بھی یہیں ہے۔اسے یورپ کی تہذیب کا گڑھ کہا جاتا ہے۔تاریخ میں جمہوریت کے لیے روم کی سینیٹ کے حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے اس کے سینیٹرز بادشاہ نام زد کیا کرتے تھے۔اٹلی کی آبادی 6 کروڑ ہے۔اس کی یورپ میں ایک خاص جغرافیائی اہمیت بھی ہے کہ یہ تقریباً اُس کے درمیان میں واقع ہے۔

یہ ایک طرف، یعنی شمال کے علاوہ باقی تمام اطراف سے سمندر سے گِھرا ہوا ہے اور اس کی یورپیئنز کے لیے زبردست تاریخی اہمیت ہے۔متعدد نام وَر فلسفی، ادیب اور سائنس دان یہیں سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں لیونارڈو ڈا ونچی بھی شامل ہیں،جن کی بنائی گئی پینٹنگز کا کوئی ثانی نہیں۔ جب تُرکوں نے بازنطینی بادشاہت کا خاتمہ کیا، تو اس کا پورے یورپ میں سوگ منایا گیا اور آج بھی اُس کی یاد میں اُس روز شام کو روشنیاں گُل کر دی جاتی ہیں۔بازنطینی ادب میں جو کام ہوا، وہ اس شکست کے بعد پادریوں کے ذریعے اٹلی پہنچا۔ اسی کلچر اور ادب سے نئے اٹلی اور پھر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد رکھی گئی۔

جدید اٹلی نے اُس وقت شہرت اختیار کی، جب مسولینی جیسے آمر نے دوسری عالمی جنگ میں یہاں کا اقتدار سنبھالا۔ ہٹلر اور مسولینی ایک ہی طرح کے آمر تھے۔ اُن کا ظلم، پھیلائی گئی تباہی اور انجام اب تاریخ کا حصّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میلونی کی جماعت کے بنیادی تصوّرات مسولینی کے نظریات سے لیے گئے ہیں، لیکن میلونی اور دیگر پارٹی رہنما اس کی نفی کرتے ہیں۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج، فرانس میں بائیں بازو کی مقبولیت، جرمنی میں تارکینِ وطن کی مخالف جماعتوں کا اقتدار میں آنا اور دیگر کئی یورپی ممالک میں قوم پرست رہنماؤں کی انتخابات میں کام یابیوں سے واضح طور پر اشارے مل رہے ہیں کہ یورپ میں قوم پرستی نہ صرف سرایت کرچکی ہے، بلکہ اب انتخابات جیت کر اقتدار بھی حاصل کر رہی ہے۔

میلونی کی پارٹی کا ایک بنیادی ایجنڈا یورپی یونین کو کم زور کرنا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ برسلز بہت زیادہ ڈکٹیشن دیتا ہے، جب کہ باقی دو نکات کا تعلق مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان تارکینِ وطن سے ہے،جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ میلونی کے لیے تارکینِ وطن قابلِ قبول ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کا کلچر یا مذہب، جس کا وہ کُھلے عام اظہار کرتے ہیں۔ میلونی نے تارکینِ وطن کے معاملے پر لیبیا کے بلاکیڈ کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ فرانس میں بھی،جسے آزاد خیال مُلک تصور کیا جاتا تھا، کچھ اِسی طرح کے حالات ہیں، جہاں حجاب کو کسی صُورت قبول نہیں کیا جا رہا۔

ان قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی چیز کو مذہب سے جوڑ کر کلچر کا نام دے کر رائج کرنا اُن کے لیے قابلِ قبول نہیں، کیوں کہ اُن کے مطابق، اس سے ان کے معاشرتی نظام کا توازن بگڑتا ہے۔ وہ یہ بات تک ماننے پر تیار نہیں کہ ہر مذہب اور مُلک کے تارکینِ وطن کو اپنی شناخت برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ وہ واضح پیغام دے رہی ہیں کہ اٹلی میں رہنا ہے، تو اٹالین بن کر رہنا ہوگا، اسی کا کلچر اور طور طریقے اپنانے ہوں گے، مذہب گھریلو اور ذاتی معاملہ ہے، جسے کسی صُورت عوامی مقامات پر نمایاں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

تارکینِ وطن،خاص طور پر مسلمانوں کو واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد والا یورپ نہیں، جہاں روا داری اور برداشت تھی۔اب قوم پرستی کا راج ہوگا اور اسی بنیاد پر قوانین بنیں گے۔ یقیناً مسلمان تارکینِ وطن کے لیے یہ صُورتِ حال کسی شاک سے کم نہیں، انہیں جس قدر جلد اس کا اداراک ہو جائے، اتنا ہی اُن کے لیے اچھا ہوگا۔ برطانیہ میں بارہ لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی ہیں، لندن کے میئر کا بھی اسی کمیونٹی سے تعلق ہے، لیکن اب معاشرے میں ان کے لیے کتنی اسپیس ہے، اس پر انہیں فوراً سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ وہ ساڑھے چھے کروڑ آبادی کا چھوٹا سا حصّہ ہیں، دوسری بڑی اور طاقت ور کمیونیٹیز ان کی مدِمقابل ہیں۔

حال ہی میں وزیرِ اطلاعات، مریم اورنگزیب کے ساتھ لندن میں جو شرم ناک واقعہ پیش آیا، جس میں پی ٹی آئی کے ارکان ہراسانی میں ملوّث پائے گئے،تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا اِس طرح کے واقعات وہاں کے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ پائیں گے۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ یہ لوگ معمولی سیاسی اختلافات پر اپنے ہم وطنوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں، تو ہمارے لبرل معاشرے کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اِسی طرح مدینہ منوّرہ کے واقعے میں بھی برطانیہ سے گئے کئی افراد کا نام لیا گیا۔ ایسی بارہ لاکھ کی پس ماندہ کمیونٹی، جس کا مقابلہ کئی قوّتوں سے ہو، اُسے ہلڑ بازی کا رویّہ ترک کرکے پہلے خود کو مستحکم کرنا چاہیے۔

اٹلی میں بائیں بازو کی جماعت کے اقتدار میں آنے پر خود یورپی یونین کے کئی ممالک میں الارم بج گیا ہے۔گو کہ میلونی نے یوکرین جنگ میں یورپی یونین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے اور روس کی مذمّت بھی کی ہے، تاہم تشویش اپنی جگہ برقرار ہے۔ روس اور ہنگری نے میلونی کی حکومت کو خوش آمدید کہا ہے، جب کہ چین نے کہا ہے کہ اٹلی سے تعلقات جاری رہیں گے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اٹلی میں اِس تبدیلی سے یورپی یونین میں اختلافات مزید بڑھیں گے۔