فضلِ ربانی

April 09, 2023

ہر طرف سے ہم پہ قدرت کی عطا

نعمتوں کا سلسلہ در سلسلہ

بحر کی لہروں میں دیکھی سرکشی

کیا سمندر ہے عجب وہ حُسن کا

قدرتی جھرنوں میں پائی زندگی

آب شاروں کا ترنّم مرحبا

بہتے دریاؤں پہ ڈالی جب نظر

دل یکایک بس خوشی سے کِھل اٹھا

دیکھ ڈالے ہم نے ریگستان بھی

جن پہ قبضہ ہے مکمّل دھوپ کا

دیکھ لیجے ہاں جو نخلستان ہیں

وہ شجر سے آب سے ہیں پُرفضا

اِک طرف میدان ہی میدان ہیں

خوش نما سبزے کہیں وہ جا بجا

ہاں یہاں جاری ہیں چشمے مستقل

اور وہ بھی دل فریب و دل رُبا

کوہ ایسے جو فلک سے جا ملیں

خود بلندی کا جہاں سر جھک گیا

چار موسم، سبزیاں، سارے ثمر

خُلد کی گویا ہے سب آب و ہوا

ڈالیاں پھولوں سے دیکھی ہیں لدی

نعمتیں از ابتدا تا انتہا

پھر بھی ہم محروم ہیں مقروض ہیں

یاالٰہی! کیا ہے آخر ماجرا؟

پھر بھی ہم رنجور ہیں مایوس ہیں

مل رہی ہے کس لیے پیہم سزا؟

چار سُو بحران ہی بحران ہیں

جس کو دیکھو کہہ رہا ہے برملا

بحر کی لہریں تموّج سے ہیں پُر

لو بھنور میں وہ سفینہ آچلا

سمت ہے شاید، نہ اب منزل کوئی

اب نہ رہبر ہیں، نہ ہیں اب رہنما

جو دیا رب نے قمرؔ بس شُکر ہے

نعمتوں کا ذکر ہے اور مرثیہ