بھارتی انتخابات: نریندر مودی کی تیز دوڑ، اپوزیشن کے الزامات

May 05, 2024

بھارت میں عام انتخابات کا آغاز ہوچُکا ہے۔ 29ریاستوں کے ووٹرز سات مراحل میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ 4 جون کو، یعنی ڈیڑھ ماہ بعد، انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ وزیرِ اعظم، نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم کے عُہدے کے اُمیدوار ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں کانگریس اور اُس کے اتحادی ہیں، جنہوں نے اپنے انتخابی اتحاد کا نام’’انڈیا‘‘ رکھا ہے، جو’’ انڈین نیشنل ڈیویلپمینٹل انکلوسیو الائنس‘‘ کا مخفّف ہے۔ راہول گاندھی اِس اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں، جو گاندھی خاندان کے وارث اور جواہر لال نہرو کے پڑپوتے ہیں۔اِس اتحاد میں دو درجن سے زاید چھوٹی، بڑی جماعتیں شامل ہیں، جن میں زیادہ تر صوبائی سطح کی جماعتیں ہیں۔

کیا یہ الیکشنز فیئر اینڈ فِری ہیں؟ اپوزیشن اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔وہ الزام لگاتی ہے کہ حُکم ران بھارتیہ جنتا پارٹی اُسے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کر رہی۔ یاد رہے، ایسا ہی الزام ہمارے ہاں بھی حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے لگایا گیا تھا۔ بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اُسے انتخابی مقابلے میں برابری کے مواقع نہیں مل رہے اور وہ بُرے حالات میں انتخابات میں حصّہ لے رہی ہے۔ اگر بی جے پی الیکشن جیت جاتی ہے، تو وہ مسلسل تیسری بار اقتدار میں آئے گی اور اب تک کے عوامی سرویز کے مطابق وہ اپوزیشن سے بہت آگے ہے۔

اپوزیشن اتحاد، ’’انڈیا ‘‘گزشتہ سال جولائی میں قائم کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک وہ کوئی قابلِ ذکر کام یابی حاصل نہیں کرسکا، جب کہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے جیتے گی۔ مودی نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں بھارتی معیشت پر بہت زور دیا اور وہ اس میں کام یاب بھی رہے، اِسی لیے ان کا بنیادی منشور معیشت کی مضبوطی اور عام آدمی کی فلاح ہے، جو اُن کے مطابق بی جے پی کے اقتدار کے تسلسل ہی سے ممکن ہے، جب کہ اپوزیشن کا بنیادی بیانیہ یا منشور بھارت کی سیکیولر شناخت کی بحالی ہے، جو اُس کے مطابق مودی کی جنتا پارٹی نے بُری طرح تباہ کردیا ہے۔بی جے پی کے دَور میں ہندتوا کو فروغ ملا اور ہندو مذہبی جذبات کو تشدّد کی حد تک بڑھاوا دیا گیا، جس کی وجہ سے بھارت کی اقلیتیں، بالخصوص 25 کروڑ مسلمان، شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔

بھارت، دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا مُلک ہے، جو تقریباً ایک ارب 30کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔یہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مُلک ہے، جس کے29 صوبے ہیں۔مودی حکومت نے کشمیر کو، جسے اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے تحت خصوصی خود مختاری حاصل تھی، تین سال پہلے زبردستی بھارت میں شامل کردیا۔تاہم، بھارت کا یہ اقدام بین الاقوامی سطح پر متنازع ہی رہا۔ بھارت کی سرحدیں چین، پاکستان، بنگلا دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور برما سے ملتی ہیں۔پاکستان سے اس کے تعلقات دشمنی کی حد تک خراب ہیں، جس کی بنیادی وجہ کشمیر کا تنازع ہے، جس پر چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔

اِس کے علاوہ بنگلا دیش کے قیام میں بھی اس کا کردار پاکستانی اب تک نہیں بھولے۔ اس کا چین کے ساتھ ہمالیائی سرحد پر تنازع بہت پرانا ہے اور اکثر جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، اس کا نظام پارلیمانی ہے، جو دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔لوک سبھا، ایوانِ زیریں ہے، جس کی543 نشستوں کے لیے اِس وقت مقابلہ ہو رہا ہے۔بھارت میں کُل ووٹرز کی تعداد97 کروڑ ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے ضمن میں اپوزیشن، حُکم ران جنتا پارٹی پر دو بڑے الزامات عاید کرتی ہے۔ایک تو یہ کہ اِس کے بڑے رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اُنہیں انتخاب میں بھی حصّہ نہیں لینے دیا جا رہا۔

ان میں راہول گاندھی بھی شامل تھے، جنہیں ایک مقدمے میں نا اہل قرار دیا گیا، تاہم اُنھیں ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا۔دارلحکومت دہلی کے وزیرِ اعلیٰ، کجریوال بھی کرپشن کیس میں گرفتار ہیں۔ وہ مودی حکومت کے بڑے نقّاد ہیں اور ان کی گرفتاری سے اپوزیشن ایک اہم اور مقبول کرائوڈ پُلر لیڈر سے محروم ہوگئی۔ دیگر اہم رہنما بھی کرپشن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، جن کے متعلق اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ جعلی اور بے بنیاد مقدمات ہیں۔دراصل، ترقّی پذیر جمہوریتوں میں اپوزیشن کو دبانے کے لیے کرپشن ایک مقبول نعرے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

ہمارے ہاں بھی2018 ء میں اس کا بے رحمی سے استعمال کیا گیا اور کئی رہنما عدالتوں کے ذریعے نا اہل قرار پائے، جن میں میاں محمّد نواز شریف بھی شامل تھے۔ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے غریب عوام اِس طرح کے نعروں کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کو اِس قدر بدنام کر دیا جاتا ہے کہ یہ داغ دھونے میں اُن کا وقت اور توانائی کا بڑا حصّہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی مثال تھائی لینڈ کے تھاکسن شنواترا کی ہے، جو جنوبی ایشیا کے اہم معاشی ریفارمرز میں شمار ہوتے ہیں۔

عوام کرپشن میں اپنی محرومیوں کا جواز تلاش کرتے ہیں، جب کہ حکومتوں کی خراب معاشی کارکردگی اور بیڈ گورنینس کو اِس نعرے میں پناہ مل جاتی ہے۔ جب کہ میڈیا کے لیے یہ مقبول موضوع اور پروگرام کا مسالا بن جاتا ہے۔بہرحال، بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے پاس مودی حکومت کی کارکردگی کے مقابلے میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے، اِس لیے وہ بہانے بازی کر رہی ہے۔

اِس وقت تین ریاستوں میں کانگریس حُکم ران ہے، جب کہ گیارہ میں بی جے پی اور باقی میں علاقائی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں۔اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ حُکم ران جماعت اس کے رہنماؤں کے خلاف حکومتی ایجینسیز، خاص طور پر ٹیکس فیڈرل ایجنسیز کا کُھلے عام استعمال کر رہی ہے۔اُس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیئے ہیں تاکہ اُسے الیکشن فنڈنگ میں دشواریوں کا سامنا ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اپوزیشن پر کریک ڈائون غیرمعمولی ہے۔

الزامات اپنی جگہ، لیکن انتخابی میدان میں اپوزیشن کی کم زوریاں بھی واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس، مُلک کی بانی جماعت ہے اور اس نے جواہر لال نہرو سے لے کر مَن موہن سنگھ تک مسلسل حکومت کی ہے۔نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور مَن موہن سنگھ مُلکی تاریخ کے ستّر فی صد عرصے میں وزیرِ اعظم رہے۔ بی جے پی اپنی معاشی کارکردگی پر بہت فخر کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی معاشی سمت کا تعیّن کانگریس کے وزیرِ خزانہ، مَن موہن سنگھ کے زمانے میں ہوا اور اس میں تیزی اُن کی وزارتِ عظمٰی کے دَور میں آئی۔

کانگریس اپنے عروج کے زمانے میں چالیس فی صد تک ووٹ حاصل کرتی رہی، مگر2014 ء میں20 فی صد پر آگئی،یہاں تک کہ اس کے بڑے بڑے لیڈر بھی اپنی نشستیں ہارنے لگے۔اپوزیشن کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کے پاس کوئی کرشماتی لیڈر نہیں۔ راہول گاندھی یہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں اور نہرو خاندان لیڈرشپ کسی اور کو دینا بھی نہیں چاہتا اور اگر وہ کسی کو آگے لانا بھی چاہیں، تو بھی کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا، جو بی جے پی کو ٹف ٹائم دے سکے۔ اس کے مقابلے میں نریندر مودی مسلسل اور بھرپور الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔اُنھوں نے پورے مُلک کے طوفانی دورے کرکے بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا، جن میں وہ اپنی معاشی کام یابیوں اور خارجہ پیش قدمی کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔

اُنھوں نے ہندتوا کے ذریعے عوامی جذبات اُبھار کر ایک کلٹ کی سی صُورت اختیار کر لی ہے۔وہ اربوں ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں، جس سے اُن کی مقبولیت مزید بڑھ رہی ہے۔ وہ بیرونِ ممالک سے بھاری سرمایہ کاری لانے بھی کام یاب رہے۔ نرسمہا راؤ اور پھر مودی کے دس برسوں میں اپوزیشن مسلسل تنزّلی کا شکار رہی۔

وہ کوئی متبادل لیڈرشپ پیش کرسکی اور نہ ہی کوئی معاشی منشور، جو حُکم ران جماعت کا توڑ کرسکے۔ اپوزیشن کی کم زوری نے بھارت میں جمہوریت اور سیکیولر ازم کو بھی کم زور کیا۔ بھارت نے گزشتہ سالوں میں بہت تیز رفتار معاشی ترقّی کی اور اِس وقت وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے 80 کروڑ سے زیادہ باسی اب تک غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

نوجوانوں کی تعداد60 فی صد ہے، جسے معاشی کام یابی کا انجن بنانے میں مودی سرکار نے بخوبی استعمال کیا، لیکن وہاں بے روزگاری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت بڑی آبادی پر مشتمل مُلک ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مال برآمد کرنے والوں کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تنازعات کے باوجود دوطرفہ تجارت ایک سو بلین ڈالرز سے زاید ہے۔

یورپ، بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کا شدید ناقد ہے، لیکن وہ اِس کی منڈیوں کو بھی نہیں کھونا چاہتا۔ امریکا اسے قابلِ اعتماد دوست بنانا چاہتا ہے۔اِسی طرح مسلم ممالک بھارت کی مذہبی انتہاپسندی اور مسلم دشمنی سے نالاں ہیں، لیکن وہ بھی معاشی تعلقات کو اوّلیت دینے پر مجبور ہیں۔

نریندر مودی کے دَورِ اقتدار میں اقلیتوں کو بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ تشدّد کے نت نئے واقعات سامنے آتے رہے۔ مسلمان، جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں،مختلف ادوار میں مُلکی ترقّی میں اہم کردار ادا کرتے رہے، مگر اب مکمل طور پر کارنر کردیئے گئے ہیں۔مودی کابینہ میں کوئی بھی مسلمان وزیر نہیں۔انھیں کسی بھی شعبے میں اہمیت نہیں دی جاتی، وقتاً فوقتاً غدّاری کے الزامات لگتے ہیں اور اُن کے گھر بار جلا دیئے جاتے ہیں۔کشمیر کو جس طرح ہڑپ کرنے کی کوشش کی گئی، وہ اِسی جارحانہ پالیسی کا تسلسل ہے۔تاہم، اگر مودی اِس مرتبہ بھی کام یاب ہو جاتے ہیں، تو وہ2029 ء تک بھارت کے حُکم ران ہوں گے۔

دنیا کے باقی طاقت وَر رہنماؤں پر نظر ڈالی جائے، تو پیوٹن، شی جن پنگ، ٹرمپ، موجودہ برطانوی وزیرِ اعظم اور زیادہ تر موجودہ یورپی لیڈر اِس عرصے میں حکومت کر رہے ہوں گے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتیں ہوں یا فوجی حُکم ران، مودی کے سب سے اچھے تعلقات ہیں اور وہ بھارت کے وزن کے حساب سے اُنہیں استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔اندرونی طور پر بی جے پی کا نظریہ اور مودی، ہندو اکثریت کے لیے ایک کلٹ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

تمام تر جابرانہ اقدامات کے باوجود انہیں پولنگ اسٹیشنز پر سبقت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی حکومتوں کو انہی سے معاملات طے کرنا ہوں گے اور اس میں پڑوسی ممالک، بشمول پاکستان، بھی شامل ہیں، کیوں کہ یہی بھارتی عوام کا مینڈیٹ ہے۔

ہمارے ہاں جو لوگ مودی کے جارحانہ اور بی جے پی کے جابرانہ اقدامات کی مذمّت کرتے ہیں، اُنہیں اِس امر کا بخوبی ادراک ہوجانا چاہیے کہ کلٹ کی سیاست کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ تنقید، واویلا یا مذمتیں کرنا اس کا زبانی جواب تو ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اصل توڑ یہی ہے کہ اپنے مُلک میں جمہوری روایات مضبوط کی جائیں۔

نیز، ہمیں ہر صُورت اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا کہ چھوٹے مُلک، معاشی مضبوطی کے سہارے ہی بڑے ممالک کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اِس طرح کی مثالیں مشرقِ بعید میں بھی ہے، مشرقِ وسطیٰ میں اور یورپ میں بھی۔اب ہماری لیڈرشپ اور عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے مفاد اور عوام کی خوش حالی کے لیے کہاں تک جانے کو تیار ہیں، کیوں کہ بظاہر تو بھارتی انتخابات کے نتائج نریندر مودی کے حق میں جا رہے ہیں۔