مداخلت

January 30, 2024

ارادہ تھا ، ارا دہ اب بھی ہے کہ میںکچھ روز تک کراچی کے قصے ، کراچی کی کہانیاں لکھوں گا۔ کراچی میرا شہر نہیں، کراچی میراملک ہے۔ ٹھیک سنا ہے آپ نے کراچی میرا ملک ہے ۔ کراچی میرا وطن ہے اس کی اپنی تہذیب ہے ، تمدن ہے، ثقافت ہے ۔ میرے ملک کی اپنی زبان ہے۔ بٹوارے سے پہلے میرے ملک کی زبان اردو، ہندی ، سندھی ، گجراتی ، کچھی ، مارواڑی ، بلوچی اور انگریزی الفاظ پر مشتمل تھی ۔ سنی سنائی بات میں آپ کو نہیں سنا رہا۔ میںاس دور میں زندہ رہا ہوں۔ یہی بولی بٹوارہ ہونے تک کراچی میں بولتا رہاہوں۔’’توبو مبڑی کا ہے کو مارتا ہے۔‘‘یعنی ’’تم چلاتے کیوں ہو‘‘۔بٹوار ے سے پہلے ایسی ہوتی تھی میرے ملک کی بولی ۔ میرے وطن کی بولی ۔ میںآپ کو اپنے وطن کی کہانیاں سنانا چاہتا ہوں۔ مگر ہم جو کہنا چاہتے ہیں ، کہہ نہیںسکتے ۔ کسی ملک اور معاشرے میں آپ تنہا نہیںرہتے ۔ ایک دنیا آباد ہوتی ہے آپ کے اطراف ۔ آپ اُن کو نظر انداز نہیںکرسکتے ۔ انکی آنکھیں اور کان کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیںہوتے ۔ ان کے پیرزنجیروں میںجکڑے ہوے نہیںہوتے۔ وہ روسکتے ہیں ، وہ ہنس سکتے ہیں ، وہ گاسکتے ہیں۔وہ ناچ سکتے ہیں،کود سکتے ہیں۔ آپ ایک شور میں رچ بس جاتے ہیں۔شور میںکمی بیشی آپ کی توجہ متزلزل کردیتی ہے۔ آپ اپنا کام کاج چھوڑ کر اضطراب کا مداوا کرناچا ہتے ہیں۔ اس سے ہوتا تو کچھ خاص نہیں ہے ، آپ سوال و جواب کے کٹہرے میںخود کو کھڑا کردیتے ہیں۔

میڈیا کی مشینوں نے ، خاص طورپر کیمرئوں نے اچھے خاصے ، دیکھے بھالے لوگوں کی مت ماردی ہے۔ اُن کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ایسے متاثرین میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان صاحبان خاص طور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ میڈیا سے روزی روٹی کمانے والے پیشہ وروں کی طرحفقرے بازی کرتے ہیں ، لوگوں کو ہنسانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔نئے پرانے لطیفے گھڑ کے لے آتے ہیں۔بھونڈا لطیفہ سنانے کے بعد خود ہی کھل کھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔اس وقت تک ہنستے رہتے ہیںجب تک لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجانے کا سیشن شروع نہ کردیں۔ اس سلسلہ میں مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں ، اور اس کے بعد کراچی کی کہانیوں کا سلسلہ جاری رکھوں گا ۔ مداخلت کے لئے معافی کا طلبگار ہوں۔

ایک اکیلے عمران خان نے پورے ملک کے سیاستدانوں کو حیران اور پریشان کردیا ہے ، بلکہ زچ کردیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی پریشانی کا ایک بنیادی سبب ہے۔ وہ سچ مچ عمران خان کو سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ یہی بات عمران خان کے مخالف اداروں اور اداروں کے جیدہ جیدہ لوگوں کی سمجھ میںنہیںآرہی ۔ ان لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ تائب ہو نا چاہئے جو ایک سپر اسٹار اسپورٹس مین کو کھیل کے میدانوں سے اٹھا کر لے آئے اور اسے پاکستان کی سیاست میںدھکیل دیا۔ عمران خان مخالف سیاستدانوں اور اداروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اُن کا مقابلہ عمران خان سیاستدان سے نہیں ہے۔ ان کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ان کا مقابلہ ایک بین الاقوامی شہرت اور عزت اوراحترام رکھنے والے کھلاڑی کی غیر معمولی شہرت سے ہے۔ عمران خان کو نیچا دکھانے کی کوششیںکرنے والوں کو یادرکھنا چاہیے کہ ان کا مقابلہ ایک سیاستدان سے نہیں ، بلکہ ایک سپرکھلاڑی سے ہے۔عمران خان سے مقابلہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ارجنٹینا کے سیاستدان اور ادارے میرا ڈونا سے مقابلہ پر اترآئیں۔ ہم مانیں ، نامانیں ، قسمت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ اٹھارہ برس ورلڈچیمپئن رہنے والے جہانگیر خان کو وہ شہرت نہیںملی جو شہرت عمران خان کے حصہ میں آئی عمران خان دس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں اتر تے تھے۔ جہانگیر خان تن تنہا اسکواش کورٹ میںاتر تے تھے۔ کرکٹ دس پندرہ ممالک میںکھیلا جانے والا کھیل ہے۔ اسکواش ستر اسی ممالک میںکھیلا جانے والا کھیل ہے۔ وائے قسمت !کیاکیا جائے کہ جوبین الاقوامی پذیرائی عمران خان کے حصے میں آئی وہ شہرت اور پذیرائی جہانگیر خان کے حصے میں نہیںآئی ۔ شہرت اور پذیرائی نامور کھلاڑیوں کو مل جاتی ہیں، مگر کیرزما، مقنا طیسی کشش کسی کسی کھلاڑی کے حصے میںآتی ہے۔ دنیا کا کوئی سیاست دان کارزماں اور مقنا طیسی کشش میںمیرا ڈونا اور میسی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اگر ہندوستانی سیاستدانوں کی مت ماری جائے اور وہ ٹنڈولکر اور شاہ رخ خان سے مقابلے کی ٹھان لیں تو اُن کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔ کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کے درمیان ہمسری کی بات میںسیاست کے حوالے سے کررہاہوں۔ کھلاڑی ہوں یا سیاستدان ، ان سب کا دائرہ عمل اپنےاپنے ہنر سے وابستہ ہوتا ہے۔ جس طرح اولمپک کھیلوں میںپہلوانوں کا مقابلہ پہلوانوں سے طے ہوتا ہے۔ پہلوانوں کو سو میٹر کی دوڑ میںاوسان بولٹ سے مقابلہ نہیںکروایا جاتا ۔ برسوں سے سیاست کی بھول بھلیوں میںبھٹکنے والے سیاست دانوں کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میںآجانی چاہیے ۔ اول تو وہ شخص یا وہ لوگ غلط تھے جو عمران خان کو کھیل کے میدان سے اٹھا کرلے آئے تھے۔ اور دوئم یہ کہ سیاستدان سپراسپورٹس مین کو سیاستدان جان کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ اور خدا بھلاکر ے ہمارے فاسٹ بالر کا کہ وہ بھی سچ مچ اپنے آپ کو سیاستدان سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کوئی تو مرد مومن عمران خان کو سمجھائے کہ سیاست آپ کے بس کا روگ نہیںہے۔ آپ سوشل ریفارمر ہیں اور وہ کام آپ سیاست میں آنے سے پہلے بھی کررہے تھے۔ آپ اسپتال بنوائیں۔ یونیورسٹیاں بنوائیں۔ پاکستانیوں کو پڑھائیں، پاکستانیوں کو صحتمند بنائیں۔