کوئی حکمران دیانت دار، غیر جانب دار پولیس نہیں چاہتا

April 28, 2024

ذوالفقار احمد چیمہ، پاکستان پولیس سروس کے ایک زیرک، مستعد، نام وَر ’’رول مڈل‘‘ افسر ہیں، جنہیں جرائم پر قابو پانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے حوالے سے لیجنڈری پولیس آفیسر کی شہرت حاصل ہے۔ 1983ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد محکمۂ پولیس جوائن کیا اور آئی جی کے عُہدے تک پہنچے۔

نیز، اُنھیں دیگر کئی اہم سرکاری اداروں میں بھی کلیدی عُہدوں پر کام کرنے کا موقع ملا، جن میں آئی جی نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر ویز، ڈائریکٹر ٹریننگ نیشنل پولیس اکیڈمی، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن پاکستان، ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔

پنجاب کے کئی شہروں میں، جنہیں پولیس کے لیے نوگوایریا سمجھا جاتا تھا، امن قائم کرکے بہت نام کمایا، جب کہ حکومت نے چھے مختلف مواقع پر اُنھیں خصوصی ٹاسکس دئیے اور وہ تمام میں کام یاب رہے۔ کالم نگار اور چار کتب کے مصنّف ہیں، مختلف اداروں میں لیکچرز بھی دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں اُن سے خصوصی بات چیت ہوئی، جس میں اُنہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کا تفصیل سے ذکر کیا۔یہ دل چسپ اور فکر انگیز گفتگو’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کے لیے پیش ہے۔

س: کہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ج: میرا تعلق وزیر آباد کے قریب ایک گائوں کٹھوڑ سے ہے۔ پرائمری تعلیم اپنے برابر والے گائوں، منصور والی سے حاصل کی، پھر ہائی اسکول وزیر آباد میں داخلہ لیا۔ آٹھویں جماعت میں کیڈٹ کالج، حسن ابدال چلا گیا۔ بی اے گورنمنٹ کالج، لاہور سے کیا اور لاء کی ڈگری پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج سے حاصل کی، جہاں اعلیٰ پائے کے وکلاء ہمیں پڑھاتے تھے، جو تقریباً ہی بعدازاں ہائی کورٹ کے ججز بنے۔

س: آپ شرارتی طالبِ علم تھے یا سنجیدہ اور آپ کا آئیڈیل کون تھا؟

ج: مَیں ایک سنجیدہ طالبِ علم تھا اور اچھے نمبرز لیا کرتا تھا۔ میرے والد لاہور سے گریجویشن کے بعد گائوں آگئے تھے، جب کہ والدہ بھی پڑھی لکھی تھیں۔ مختلف اخبارات و رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، والدین نے بیٹوں کے ساتھ دونوں بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی، مگر ہم دونوں چھوٹے بھائیوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے میں ہمارے بڑے بھائی، ریٹائرڈ جسٹس افتخار احمد چیمہ کا کردار بہت اہم ہے۔

اُنہوں نے بچپن ہی میں ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہماری کاپیوں پر لکھ دیا تھا کہ بھائی نثار احمد ڈاکٹر بنیں گے اور مَیں سی ایس ایس کروں گا۔ اُن کے علاوہ، ہماری ابتدائی زندگی پر دو اور شخصیات، ہمارے والد،چوہدری محمّد اسلم چیمہ اور ماموں جان، ریٹائرڈ جسٹس محمّد افضل چیمہ کی گہری چھاپ ہے۔ اِس لیے اُس وقت تو وہی دونوں میرے آئیڈیل تھے۔ بعدازاں، مطالعہ اور ذہنی کینوس وسیع ہوا، تو دیگر شخصیات بھی آئیڈیل بنیں۔

س: زندگی کے ابتدائی سال شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، تو آپ کے اردگرد کا ماحول کیسا تھا؟

ج: مَیں نے اپنے والد صاحب جیسا کوئی دیہاتی زمین دار نہیں دیکھا، وہ انتہائی اعلیٰ کردار کے حامل تھے اور قناعت و حوصلے کا تو کوہِ ہمالیہ تھے۔وہ گائوں کے بڑے تھے، مگر غرباء، مزارعین اور ملازمین کے ساتھ بے حد پیار، ہم دردی اور عزّت سے پیش آتے۔ انسانوں کا احترام اور ہم دردی ہم نے اُنہی سے سیکھی۔ ماموں جان اعلیٰ ترین عُہدوں پر فائز رہے، مگر وہ ہر قسم کے complexes سے بلند تھے۔ ہم نے والد صاحب اور ماموں جان کو کبھی جھوٹ بولتے یا کسی کی بُرائی کرتے نہیں دیکھا۔ وہ’’ malice for none ‘‘کا مرقّع تھے۔

والد صاحب غیر محسوس طریقے سے ہماری تربیت کرتے، ہمارے دِلوں میں سچّائی اور رزقِ حلال کی محبّت ڈالتے، جب کہ حرام، بددیانتی اور بے اصولی سے نفرت پیدا کرتے تھے۔ ہم سب والدین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کے بعد والد اور والدہ ہمیں اسلامی مشاہیر کی کہانیاں سُناتے، جنہیں سُن کر ہمارے اندر اُنہی کی طرح کے عظیم اور باکردار انسان بننے کا شوق اور جذبہ پیدا ہوتا۔ یہ اُسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ میرے بھائی، ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے8 فروری کے الیکشن کے بعد دھاندلی زدہ ایم این اے شپ لینے سے انکار کردیا۔

س: سی ایس ایس کی منزل کیسے طے ہوئی؟

ج: مَیں نے انٹر میڈیٹ کیڈٹ کالج، حسن ابدال سے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں کی ادبی اور دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ انٹر کالجئیٹ ڈیبیٹس میں بارہا اپنے کالج کی نمائندگی کی اور بہت سی ٹرافیاں اور میڈل جیتے،یہاں تک کہ مجھے رول آف آنر حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔گریجویشن کے بعد پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا، تو وہاں ہمیں اعجاز بٹالوی، وسیم سجاد، عامر رضا اور سب سے بڑھ کر شیخ امتیاز علی جیسے بے مثال اساتذہ سے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ہمیں اسلامی قانون پڑھاتے تھے۔

مَیں نے وہاں اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑا اور صدر منتخب ہوا۔ ہم نے اسٹوڈنٹس یونین کے زیرِ اہتمام اعلیٰ پائے کی تقریبات اور لاء مُوٹس منعقد کروائے، جن میں جسٹس اے آر کارنیلیس، جسٹس حمود الرّحمٰن اور اے- کے بروہی جیسی شخصیات کو بُلایا تاکہ طلبہ ان کے علم و دانش سے مستفید ہوں۔ بروہی صاحب، جنرل ضیاء الحق کے دَور میں وزیرِ قانون تھے۔ اُن کے ساتھ ہماری نیو کیمپس عمارت میں پہلی تقریب تھی۔ میری تقریر میں چند جملے سخت ادا ہوگئے، جس سے وہ ناراض ہوئے، مگر میری تقریر کی حمایت میں قومی اخبارات نے ایڈیٹوریل لکھ دیئے۔

میرے چار، پانچ کلاس فیلوز سپریم کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس آصف کھوسہ ہمارے ساتھ نیو ہاسٹل میں تھے اور ثاقب نثار جی سی میں اور پھر لاء کالج میں بھی میرے کلاس فیلو تھے۔ میرے بڑے بھائی، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ ایک ہی روز ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔ میری فیملی کا خیال تھا کہ مَیں قانون کی تعلیم مکمل کرکے پریکٹس کروں۔

لہٰذا، مَیں نے معروف قانون دان، خواجہ سلطان (سابق ایڈووکیٹ جنرل خواجہ حارث کے والد) کا چیمبر جوائن کرلیا۔دوسرے روز جب خواجہ صاحب عدالت میں جارہے تھے، تو اُن کے تین شاگرد خواجہ شریف (جو بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے)، ثاقب نثار اور مَیں اُن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ لوئر کورٹس کا ماحول اور کلچر، تھانے سے مختلف نہیں ہوتا۔

سچّی بات یہ ہے کہ مجھے لوئر کورٹس کے ناخوش گوار ماحول نے بہت جلد وکالت سے بدظن کردیا۔ دوسری طرف، بہت سے کلاس فیلوز سی ایس ایس کا امتحان دے کر ڈی ایم جی، پولیس اور فارن سروس میں شامل ہو رہے تھے۔ لہٰذا، مَیں نے بھی والدین اور بھائی جان سے اجازت لی اور سی ایس ایس کا امتحان دے دیا۔ میرے ذہن میں پولیس کا بہت خراب امیج تھا، اِس لیے پولیس افسر بننے کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

اِسی لیے جب پولیس سروس الاٹ ہوئی، تو اسے دل سے قبول نہیں کیا اور دوبارہ امتحان دینے کا ارادہ باندھ لیا، مگر پھر کچھ سینئر افسران نے پولیس سے متعلق اِتنی اچھی اچھی باتیں بتائیں کہ دوبارہ امتحان دینے کا ارادہ بدل دیا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب بھی میرے پولیس افسر بننے پر خوش نہیں تھے۔

وہ برآمدے میں لیٹے ہوئے تھے، جب مَیں نے اُنہیں جاکر بتایا کہ مَیں پولیس میں اے ایس پی بن گیا ہوں، تو اُنہوں نے لیٹے لیٹے ہی کہا’’محکمہ تو بہت بدنام ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں سیدھی راہ پر رکھے‘‘۔ میری پہلی پوسٹنگ پاک پتن میں ہوئی اور چند مہینوں ہی میں مجھے احساس ہوگیا کہ مظلوم کے آنسو پونچھنے، کم زوروں کو ظلم و ناانصافی سے بچانے کے جتنے مواقع پولیس میں ہیں، کسی اور سروس میں نہیں، اِس لیے وردی پہننے کے بعد اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا، بلکہ ہمیشہ مطمئن اور خوش رہا۔

س: آپ کی گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں خاص طور پر تعیّناتی کی گئی تھی، تو وہ کیا ماجرا تھا؟

ج: 2008ء کے عام انتخابات کے بعد جب شہباز شریف دوبارہ وزیرِ اعلیٰ بنے، تو مجھے گوجرانوالہ تعیّنات کرنے کا عندیہ دیا، جب کہ مَیں راول پنڈی جانا چاہتا تھا کہ گوجرانوالہ میرا اپنا ضلع تھا، تو وہاں تعیّناتی کے حق میں نہیں تھا، مگر وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ’’وہ آپ کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے، مگر اِس وقت وہاں لوگ عدم تحفّظ کا شکار ہیں اور اغواء برائے تاوان جیسا جُرم کراچی کی طرح ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرچُکا ہے، سو، امن وامان کی بہتری کے لیے آپ کو وہاں تعیّنات کیا جارہا ہے۔‘‘

وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پورے علاقے پر خطرناک ڈاکوئوں اور اغواکاروں کے منّظم گروہوں کی حُکم رانی تھی۔ ہر بڑا صنعت کار خود، اُس کا بیٹا یا بھائی اغواء ہوچُکے تھے اور چالیس، پچاس لاکھ روپے تاوان ادا کرکے واپس آسکے تھے۔ ہر کاروباری شخص کو بھتّے کی پرچیاں ملتی تھیں اور اگر وہ بروقت بھتّا ادا نہ کرتا، تو اُسے قتل کردیا جاتا۔ بہت سے صنعت کار اپنی مِلز اور جائیدادیں بیچ کر بیرونِ مُلک جارہے تھے۔ اِن حالات میں مجھے پولیس کی کمانڈ سونپی گئی۔

مَیں اپنی ٹیم میں جن افسران کا انتخاب کرتا، اُن میں دو خوبیاں لازماً دیکھتا، وہ صرف رزقِ حلال کھاتے ہوں اور دلیر، جرأت مند ہوں۔ اور پھر رزقِ حلال کمانے، کھانے والے بہادر پولیس افسر میدان میں اُترے۔ جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کی گئی اور جانیں بھی قربان ہوئیں، مگر اس ٹیم نے چار، پانچ ماہ میں جرائم جڑ سے اُکھاڑ پھینکے۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ’’پہلی بار گلی محلّوں کے غنڈے بھی غائب ہوگئے ہیں، کالج جانے والی طالبات اور خواتین اساتذہ پر کوئی آوازے کسنے کی جرأت نہیں کرتا، کسی کو بھتّے کی چِٹ نہیں آتی، حتٰی کہ دیہات میں چارے کی چوری بھی ختم ہوگئی ہے‘‘۔

چھے ماہ بعد صنعت کاروں کے ایک وفد نے آ کر کہا’’کئی سالوں سے ہم جس خوف میں زندگی گزار رہے تھے، اس کا خاتمہ ہوا ہے اور ہم نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔‘‘اُنھوں نے میرے سامنے چیک بُک رکھ دی کہ پولیس کی ویلفیئر، کسی تھانے یا چوکی کی تعمیر یا پولیس کے لیے موٹرسائیکلز خریدنے کے لیے جتنی چاہے رقم لکھ لیں، ہم اپنی خوشی سے پولیس کو دینا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اُن کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’مَیں کوئی چندہ اکٹھا کرنے والی تنظیم کا عُہدے دار نہیں ہوں۔ ریاست قیامِ امن کی ذمّے دار ہے، اِس لیے امن وامان کے لیے مجھے جو ضرورت ہوگی، وہ ریاست اور حکومت ہی سے لوں گا۔‘‘

ایک سال بعد شہبازشریف گوجرنوالہ آئے، وہاں ارکانِ اسمبلی کے علاوہ بزنس، انڈسٹری کے نمائندوں، وکلاء، خواتین اور لیگی ورکرز سے علیٰحدہ علیٰحدہ ملے۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگ تحفّظ اور انصاف ملنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ وزیرِ اعلیٰ کے منہ سے جُوں ہی پولیس کا نام نکلتا، لوگ تالیاں بجانا شروع کردیتے۔

اُنہوں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ’’مَیں یہاں حیرت انگیز انقلاب دیکھ رہا ہوں کہ پولیس کے لیے گالیوں کی جگہ تالیوں نے لے لی ہے۔‘‘ وزیرِ اعلیٰ سے پولیس کی رہائشی سہولتوں کے لیے پیسے مانگے، اُنھوں نے کہا’’You deserve more than that‘‘ اور یوں مطلوبہ فنڈز مل گئے، جس سے ہم نے تھانوں کی نئی عمارتیں بنوائیں اور جونیئر اہل کاروں کو بھی بہت اچھے رہائشی فلیٹس تعمیر کروا کے دئیے۔

شیخوپورہ میں امن وامان کے حالات اِتنے خراب ہوئے کہ اُسے وزیرستان کہا جانے لگا۔ اِس پر شہباز شریف نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ شیخوپورہ کا چارج سنبھالیں، مَیں نے معذرت کرلی کہ وہ میری سینیارٹی سے چھوٹی ڈویژن ہے۔ دو روز بعد شہباز شریف اور نوازشریف دونوں نے بلایا اور کہا’’آپ اسے پوسٹنگ نہ سمجھیں، ایک اسپیشل مشن سمجھ کر قبول کرلیں۔‘‘ چناں چہ مَیں نے کمان سنبھال لی۔ وہاں بھی ایسے خطرناک مجرموں کی حُکم رانی تھی، جنہوں نے سڑک پر بورڈ لگا رکھے تھے’’پولیس کا داخلہ منع ہے۔‘‘

دوپہر بارہ، ایک بجے جو شخص موٹروے سے خانقاں ڈوگراں کی سڑک پر اُترتا، اُس کی گاڑی چِھن جاتی۔ ڈاکٹرز خوف کے مارے سہ پہر چار بجے ہی کلینک بند کرکے چلے جاتے۔ مَیں نے پولیس افسروں سے حالات پوچھے، تو اُنہوں نے بتایا کہ’’ آدھی پولیس مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور باقی خوف زدہ ہے۔‘‘مَیں ہر پولیس اسٹیشن گیا، تمام جوانوں سے مصافحہ کیا، اُن کی کمر تھپتھپائی اور اُنہیں حوصلہ دیا، ہر تھانے اور چوکی پر جاکر خطاب کیا، جس سے دو، تین ہفتوں ہی میں فرق نظر آنے لگا۔

ڈی پی او نے بتایا ’’سر! پہلے کسی ریڈ کے لیے ان کے پائوں نہیں اُٹھتے تھے،مگر اب یہ دوڑتے ہوئے جاتے ہیں۔‘‘ اللہ کا شُکر ہے کہ دو مہینوں میں خطرناک ترین گینگز اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ شیخوپورہ کا امن بحال ہوا اور لوگ بے خوف ہوکر کاروبار اور سفر کرنے لگے۔ ایک ایس ایچ او نے خطرناک مجرموں کے خلاف اچھا کام کیا، تو اُسے حکومت سے دس لاکھ روپے انعام دلوایا، مگر جب اُس نے ایک فریق سے پیسے لے کر مخالف کے خلاف جھوٹا پرچہ کروایا، تو اُسے گرفتار کروا کے جیل میں بند کروا دیا۔ ڈی پی او اچھا کام کرتا رہا، تو اُسے شاباش دیتا رہا، جب اُس کی کرپشن کی رپورٹسں ملیں اور تصدیق بھی ہوگئی، تو اُسی رات لاہور ائیرپورٹ پر جا کر وزیرِ اعلیٰ سے ملا اور اُن سے کہہ کر ڈی پی او تبدیل کروادیا۔ مَیں شیخوپورہ ہی سے آئی جی کے رینک پر پروموٹ ہوا۔

س: یہ پاسپورٹ آفس میں تعیّناتی کا کیا قصّہ تھا؟

ج: مَیں نیشنل پولیس اکیڈمی میں تعیّنات ہو کر نوجوان افسران کی تربیت کرنا چاہتا تھا، مگر اُنہی دنوں محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ شدید بحران کا شکار ہوگیا، تو 2013ءکی نگران حکومت نے مجھے اس محکمے کا سربراہ مقرّر کردیا۔ ریاست کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے باشندوں کو اُن کی بنیادی سفری دستاویز فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے۔

اپریل 2013ء تک آٹھ لاکھ سے زاید درخواست گزار اپنے پاسپورٹس کے لیے مارے مارے پِھر رہے تھے اور اُنہوں نے سات، آٹھ ماہ سے درخواستیں دے رکھی تھیں۔ کئی ممالک میں پاکستانیوں نے پاکستانی سفارت خانوں کا گھیرائو کیا اور توڑ پھوڑ کی۔جب اِس مسئلے نے ایک بڑے قومی بحران کی شکل اختیار کرلی، تو نگران حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔

مَیں ایک شام لاہور کے ایک پارک میں سیر کررہا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور پرائم منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری سیرت اصغر نے کہا ’’پاسپورٹ کا محکمہ ایک بڑے بحران کا شکار ہوگیا ہے، اسے آکر سنبھالیں اور ٹھیک کریں۔‘‘ مَیں نے معذرت کی کہ مَیں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔دوسرے روز اُن کی پھر کال آئی کہ ’’مُلک کی بدنامی ہورہی ہے، ہم نے آرمی اور ڈی ایم جی کے کئی افسران سے متعلق سوچا، مگر سب کا اِس پر اتفاق ہے کہ یہ ذمّے داری آپ کو دی جائے، لہٰذا ایک نیشنل کاز کے لیے اسلام آباد آجائیں۔‘‘ نیشنل کاز کا نام سُننتے ہی مَیں نے ہاں کردی۔ 9 اپریل کو رات بارہ بجے اسلام آباد پہنچ کے محکمہ پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل کا چارج سنبھالا اور دو بجے تک بریفنگ لیتا رہا، جس میں بتایا گیا کہ پاسپورٹ کے لیے درکار لیمینیشن پیپر کا اسٹاک ختم ہوچُکا ہے، آٹھ، دس روز کے بعد شاید دفاتر ہی بند کرنے پڑیں۔

مجھے یاد ہے کہ کبھی وزیرِ اعظم، تو کبھی صدر آصف زرداری مجھے بلاتے کہ بتائو، اِس مسئلے کو کیسے اور کب حل کرو گے؟ مَیں سب کو یہی کہتا رہا کہ کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتا، مگر ہم اس پر ضرور قابو پالیں گے۔ہم نے ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام شروع کردیا، جس میں دن، رات کا فرق مِٹ گیا۔ اللہ کے فضل سے ہر رکاوٹ دُور ہوتی گئی۔ایک طرف دیانت دار اور محنتی کارکنوں کو عزّت اور انعامات سے نوازا گیا، تو دوسری جانب دفاتر پر قابض ایجنٹس اور کرپٹ اہل کاروں کے خلاف سخت کریک ڈائون ہوا، جس سے ادارے کا گند صاف ہو گیا۔

بڑی سے بڑی سفارش بھی نہ مانی گئی۔ شہریوں کی سہولت کے لیے ہیلپ لائن بنائی گئی، جس سے تمام درخواست گزاروں کو ان کا اسٹیٹس بتایا جانے لگا۔ مَیں خود رات گئے تک دفتر کی مختلف برانچز میں جاتا اور اکثر پرنٹنگ مشینز پر جاکر پروڈکشن اسٹاف کا حوصلہ بڑھاتا، دن کے وقت کبھی ہیلپ لائن پر جاتا، کبھی جاکر درخواست گزاروں سے ملتا، کبھی ڈیلیوری ہال میں جاکر جائزہ لیتا کہ لوگوں کو پاسپورٹ صحیح طریقے سے مل رہے ہیں کہ نہیں، لہٰذا صورتِ حال میں واضح بہتری نظر آنے لگی اور بالآخر تین ماہ میں اس قومی بحران پر قابو پالیا گیا۔

پاکستان کے کئی سفیروں نے شُکریے کے خطوط لکھے اور یہ بھی لکھا کہ جس طرح اس بحران پر قابو پایا گیا، اسے ایک کیس اسٹڈی کے طور پر تمام ٹریننگ اکیڈیمیز میں پڑھایا جانا چاہیے۔اِس دوران مَیں نے صرف اُس روز میڈیا سے بات کی، جب تمام درخواست گزاروں کو پاسپورٹ مل گئے۔مَیں اللہ تعالیٰ کا جتنا شُکر ادا کروں، کم ہے کہ چھے بار مختلف حکومتوں نے مشکل ترین ٹاسک دیئے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہر بار سُرخ رُو کیا۔

س: ’’پولیس مقابلے‘‘ ہمارے معاشرے پر ایک بدنما داغ ہیں، کیا واقعی ان سے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے؟

ج: اِس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے قیامِ امن کے لیے غیر معمولی اور سخت اقدامات کیے، جسن سے جرائم میں کچھ کمی واقع ہوئی، مگر میڈیا میں ایسی شکایتیں بھی آتی رہتی ہیں کہ بعض کرپٹ پولیس افسران نے کئی دولت مند افراد سے پیسے لے کر ان کے مخالفوں کو مار ڈالا اور اُسے پولیس مقابلے کا نام دے دیا۔ ایسے واقعات سے پولیس پر عوام کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔

مَیں لاء گریجویٹ ہوں اور وکالت بھی کرتا رہا ہوں، میری فیملی’’ Judges Family ‘‘ کہلاتی ہے، اِس لیے اچھی طرح جانتا ہوں کہ پولیس کی ذمّے داری ملزم کو گرفتار کرنا اور شہادت اکٹھی کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے۔ ملزم کے بے گناہ یا قصوروار ہونے کا فیصلہ صرف عدالت کا اختیار ہے، اِسی لیے پولیس 99.5فی صد مقدمات میں یہی کرتی ہے، مگر ہمیں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ ہم افسانوں یا فلموں کی دنیا میں نہیں رہتے۔

حقیقی دنیا میں حقائق مختلف بھی ہیں اور تلخ بھی۔ عملی زندگی میں بعض اوقات غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مہذّب معاشرے ایسی exceptions کو تسلیم کرتے ہیں۔ عدالتی ٹرائل وہ پراسیس ہے، جس میں ریاست ایک ملزم کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے، لیکن کچھ خطرناک مجرم ایسے بھی ہوتے ہیں، جو آپ کی عدالت، بلکہ پورے سسٹم ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔

ایسے خطرناک مجرم کسی بھی شریف شہری سے اُس کی عُمر بَھر کی کمائی سے خریدی گئی کار چھیننے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ مزاحمت کرے گا، تو گولی مار دیں گے۔ ایسے درندہ صفت مجرم لُوٹنے کے لیے کسی گھر میں گھسیں گے اور اگر وہاں کوئی جوان لڑکی نظر آگئی، تو اُس کی عزّت پامال کردیں گے۔ اگر پولیس عدالت کا پیغام (سمن یا وارنٹ) اُن کے پاس لے کر جائے کہ عدالت میں پیش ہوکر اپنا دفاع کریں، تو وہ اس پیغام کا جواب گولی سے دیتے ہیں۔

اب جو خطرناک مجرم عدالت یا قانون کو تسلیم ہی نہ کریں، تو اُن کے ساتھ کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ کیا شہریوں کو ان ظالم اور بے رحم درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے؟ نہیں، ریاست ایسا نہیں کرسکتی کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفّظ سب سے مقدّم ہے، یہاں تک کہ اِس مقصد کے لیے قانون کو بدلنا یا بائی پاس کرنا پڑے، تو ریاستیں ایسا بھی کر گزرتی ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ کے ایک بہت قابل جج، جسٹس کیکائوس نے کہا تھا کہ "Laws are made for us, we are not made for the laws" جو شخص ریاست، حکومت یا عدالت ہی کو تسلیم نہ کرے، وہ ہر قسم کے حقوق کھو دیتا ہے۔

پھر کوئی بھی ریاست ٹرائل سمیت اس کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرتی۔کچھ عرصہ پہلے ہم نے پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات سے پوچھا کہ پچھلے دس سالوں میں کتنے ڈاکوئوں اور اغواکاروں کو پھانسی دی گئی ہے، تو اُنھوں نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ پچھلے بیس سالوں میں کسی ڈاکو یا اغوا کار کو پھانسی نہیں دی گئی۔ یعنی ہزاروں مجرموں نے وہ جرم کیا، جس کی سزا پھانسی ہے، مگر کسی کو بھی وہ سزا نہ دی جاسکی۔ صرف دو واقعات سن لیں۔ علّامہ اقبال ٹائون، لاہور کے رہائشی نوجوان انجینئر، فوّاد کے والدین اور بہن بھائی بڑی بے تابی سے اُس کا انتظار کررہے تھے، کیوں کہ اگلے روز عید تھی۔

عید سے ایک روز پہلے فوّاد کراچی سے گھر پہنچ گیا، تو اہلِ خانہ کی گویا ایک دن پہلے ہی عید ہوگئی۔چھوٹی بہن رانی نے اپنے ابّو سے فرمائش کی، تو وہ اُس کے لیے تحائف اور چوڑیاں خریدنے مارکیٹ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ فوّاد نے کہا’’ابّو! آپ اکیلے نہ جائیں، مَیں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ فوّاد گاڑی چلا رہا تھا اور اس کے ابّو ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ غروبِ آفتاب کی وجہ سے کچھ اندھیرا بھی ہو چکا تھا۔ اُن کی کار جوں ہی دوسری گلی سے باہر مُڑی، تو تین نوجوانوں نے اُنہیں ہاتھ سے رُکنے کا اشارہ کیا۔ ایک گاڑی کے سامنے کھڑا ہوگیا اور ایک فوّاد کے پاس آیا اور پستول دِکھا کر اُسے کہنے لگا ’’گاڑی کی چابی دے دو اور نیچے اُتر آئو۔‘‘ فوّاد صحت مند نوجوان تھا، اُسے غصہ آیا اور اُس نے مزاحمت کی، جس پر ڈاکو نے اُس کی پیشانی پر گولی ماردی۔

والد سعید ملک نے گولی مارنے والے ڈاکو کو پکڑا، تو اُس کے ساتھیوں نے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس سے وہ بھی ڈھیر ہوگئے۔ جس گھر میں چند لمحے پہلے عید کی خوشیاں تھیں، اب وہاں قیامت کا سماں تھا۔ پولیس نے بڑی کوششوں کے بعد فوّاد کے بھائی جوّاد کو(جو میڈیکل کے آخری سال کا طالبِ علم تھا) مقدمے کا مدعی بنایا۔ سینئر افسران کی اَن تھک کوششوں سے چار مہینوں بعد مجرم پکڑے گئے، جو بے شمار وارداتیں کرچُکے تھے۔ فوّاد کی بہن رانی نے اُنہیں پہچان لیا۔

پولیس نے پوری کوشش کی کہ چالان میں کوئی سقم نہ رہ جائے۔ ملزمان کی شناخت ایک اہم شہادت ہوتی ہے،جس کے لیے مدعی اور گواہوں کو تھانے یا جیل میں جاکر ملزمان کی شناخت کرنا ہوتی ہے، شناخت سے ایک روز پہلے مقدمے کے مدعی کو ڈاکوئوں کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا کہ اگر شناخت کرنے گئے، تو تمہارا انجام بھی تمہارے بھائی جیسا ہوگا۔ ماں کو معلوم ہوا، تو اُس نے بیٹے اور بیٹی کو جانے سے منع کر دیا۔ نتیجتاً ملزمان کی شناخت نہ ہوئی اور ان کے خلاف کسی نے شہادت بھی نہ دی اور وہ عدالت سے بَری ہوگئے۔ اُسی رات سینئر پولیس افسران کی میٹنگ ہوئی اور کچھ فیصلے ہوگئے۔

جیل اسٹاف سے رابطے ہوئے۔ جس وقت خطرناک قاتلوں کو جیل سے رہا ہونا تھا، پولیس نے اُس سے پہلے جیل کے باہر کے علاقے کو گھیرے میں لے کر عام لوگوں سے خالی کروا لیا۔تینوں ڈاکوئوں نے جُوں ہی جیل کے گیٹ سے باہر قدم رکھا، تو اُن کا استقبال اُن کے اشتہاری دوستوں کی بجائے پولیس کمانڈوز نے کیا۔ اگلے روز لوگوں نے اخبارات میں پڑھا کہ تین خطرناک ڈاکو فرار ہونے کی کوشش میں پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔زندگی اور موت کے خالق نے اپنی کتابِ حق میں بتادیا ہے کہ’’قصاص میں زندگی ہے‘‘۔

یعنی مجرم کو اُس کے کیے کی سزا نہیں ملے گی، تو بے گناہ انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گُل ہوتے رہیں گے۔دوسرا واقعہ ایک سینئیر بینکر، محمّد آصف میر کا ہے، جو لاہور کی ایک پَوش آبادی میں رہائش پذیر تھے۔ اُن کی بڑی بیٹی یونی ورسٹی سے فارغ ہوئی تھی اور بیٹا ابھی اسکول میں پڑھتا تھا۔ چھوٹا سا خوش حال، خوش وخرّم گھرانا تھا۔اُنھوں نے بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کیں، تو گھر برقی قمقموں سے جگمگا اٹھا، جس سے آس پاس کے لوگ جان گئے کہ اِس گھر میں شادی کی تیاریاں ہورہی ہیں۔

اِسی دوران ایک رات کے لیے میر صاحب کو کراچی جانا پڑا، تو اُسی رات تین مسلّح ڈاکو دیوار پھلانگ کر اور کھڑکی توڑ کر گھر میں گھس گئے۔ گھر کے تینوں مکینوں پر کلاشنکوفیں تانیں، تو بیگم نے چابیاں اُن کے حوالے کردیں اور کیش کی بھی نشان دہی کردی۔ سب کچھ اکٹھا کرکے ڈاکو جانے لگے، تو اُن کی نظریں جوان بیٹی پر پڑگئی اور پھر وہ درندے بن گئے۔ آن کی آن میں ہنستا بستا گھرانہ زندہ لاشوں میں تبدیل ہوگیا۔ دوسرے روز میر صاحب گھر پہنچے تو بیگم زاروقطار روئیں، مگر بیٹی کے آنسو خشک ہوچکے تھے، وہ سکتے کے عالم میں تھی۔ کیس درج ہونے کے بعد تفتیشی افسر بیانات کے لیے بُلاتے رہے مگر وہ تیار نہ ہوئے۔

تین ماہ بعد ڈاکوئوں کا وہی گروہ پکڑا گیا، تو تفتیش کے دوران اُنہوں نے میر صاحب کے گھر کی واردات کا بھی انکشاف کرلیا۔ پولیس افسر کے زور دینے پر میر صاحب اپنی بیگم کو اس کے دفتر لائے،جس نے ڈاکوئوں کو پہچان لیا، مگر اُن کی بیٹی گھر سے کہیں بھی جانے پر آمادہ نہ تھی۔ پولیس افسران کے حوصلہ دینے اور تحفّظ کی یقین دہانی کے باوجود متاثرین، عدالت میں مجرموں کے خلاف گواہی دینے پر تیار نہ ہوئے۔

کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ میر صاحب اپنی فیملی کسی اور مُلک شفٹ کررہے ہیں، پولیس افسر نے پوچھا، تو اُنہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’ہاں یہ صحیح ہے، جس مُلک میں جان اور عزّت محفوظ نہ ہو، وہاں کیا رہنا۔‘‘ رات کو چند پولیس افسران کی میٹنگ میں پولیس کمانڈر نے میر صاحب کا یہی فقرہ بار بار دُہرا کر پوچھا کہ’’اگر شریف شہریوں کا جان ومال اور عزّتیں محفوظ نہیں، تو اس کا ذمّے دار کون ہے؟‘‘ کسی نے کہا، سسٹم، کسی نے عدالتی نظام اور کسی نے نفری یا وسائل کی کمی پر ذمّے داری ڈالی۔

مگر پولیس کمانڈر نے زور دیتے ہوئے کہا ’’اس کے ذمّے دار ہم ہیں۔ جنہیں قوم نے یہ یونی فارم پہنا کر کندھے پر محافظ کا بیچ لگایا ہے۔‘‘ پھر کمانڈر نے پوچھا ،اگر اِن درندوں کا چالان بھیج دیا جائے، تو کیا انہیں عدالت سے سزا مل سکے گی؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا، بالکل نہیں، کیوں کہ شہادت ہی کوئی نہیں ہے۔ رزقِ حلال کھانے والے تمام پولیس افسر یک سُو ہوچکے تھے۔ صبحِ صادق کے وقت جب خالقِ کائنات کی عظمت کی اذانیں گونج رہی تھیں، اُسی وقت آصف میر کے گھر شیطانی کھیل کھیلنے والے تینوں درندے فرار ہونے کی کوشش میں اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

گوجرانوالہ یا شیخوپورہ میں پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں جو مجرم مارے گئے، اُس پر عوام نے سُکھ کا سانس لیا تھا، بلکہ پولیس کی گاڑیوں کو پھولوں سے لاد دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ کیسز میں خود جج صاحبان، پولیس افسران کو کہا کرتے تھے کہ ان مجرموں کا ٹرائل ممکن نہیں۔ مَیں تو یہ بھی کہوں گا کہ ایسے کیسز سے متعلق ضلعے کے پولیس چیف اور عدلیہ کے سربراہ کے درمیان مشاورت سے کوئی حکمتِ عملی طے ہونی چاہیے۔

ہاں، اگر پولیس افسر حکومت کے کہنے پر یا مخالفین سے پیسے لے کر بندے مارتے ہیں، تو وہ مجرم ہیں، مگر جو ایمان دار پولیس افسر شریف شہریوں اور قوم کی بیٹیوں کو ان بے رحم درندوں سے بچانے کے لیے اپنی جان تک کا رِسک لے کر خطرناک مجرموں کا خاتمہ کرتے ہیں، وہ قوم کے محسن ہیں۔ خطرناک مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں ہی سے نمٹنا چاہیے، مگر جرائم کنٹرول کرنے کے لیے severity of punishment سے certainty of punishment کے اثرات زیادہ دُور رس ہوتے ہیں۔ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں جرائم کا خاتمہ اس لیے ہوا کہ ہم نے بیسیوں نئے initiative لیے اور حکمتِ عملی کے جدید طریقے اپنائے۔

س: ہمارے تھانے تحفّظ کا احساس دِلانے کی بجائے خوف کی علامت کیوں ہیں؟

ج: ہمارے سیاست دان اور حُکم ران تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے دعوے تو کرتے ہیں، مگر اُن میں سے زیادہ تر تھانہ کلچر کے معنی بھی نہیں جانتے۔عوام کا پولیس کے ساتھ سب سے زیادہ واسطہ تھانے کی سطح پر پڑتا ہے، مگر تھانوں کے ماحول اور کارکردگی سے عوام بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ عوام کی یہ شکایت درست ہے کہ تھانہ اسٹاف رشوت خور بھی ہے اور بدتمیز بھی۔ ہمارے تھانوں کا ماحول یا کلچر pro-criminal ہے۔

مجرم تھانے میں جا کر at home محسوس کرتا ہے، جب کہ مظلوم یا مدعی کے لیے تھانوں کا ماحول غیر دوستانہ اور غیر ہم دردانہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تھانے کی عمارت دیکھتے ہی مظلوم کے دل کو قرار آجائے کہ میں اب ایسی پناہ گاہ میں ہوں، جہاں میری شنوائی ہوگی، جب کہ مجرم تھانے کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی خوف زدہ ہوں۔ مگر یہ تب ہوگا، جب تھانوں سے رشوت خوری، بدتمیزی اور بداخلاقی کا خاتمہ ہوگا۔ یہ کسی وزیرِ اعلیٰ کی تقریر سے یا آئی جی کے ڈائریکٹیو جاری کرنے سے نہیں ہوسکتا، اس کے لیے طویل عرصے تک کی یک سُوئی، محنت اور ریاضت درکار ہے۔

ضلعے کی پولیس لیڈرشپ خونِ جگر جلانے کا جذبہ رکھتی ہو اور پھر خلوص اور نیک نیّتی سے اسے ایک مقدّس مِشن سمجھ کر اس کے پیچھے پڑجائے، تب ہی یہ کام ہوسکتا ہے۔ انسانی ذہن کی تبدیلی مشکل ترین کام ہے، ہمیں گوجرانوالہ میں تھانہ اسٹاف کی سوچ بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑا، سختی بھی کی، سزائیں بھی دیں، انعام بھی دیئے، دلائل، کائونسلنگ، موٹیویشن، لیکچرز یعنی ہر طریقے اور ہر تیکنیک سے کام لیا۔ ایس ایچ اوز اور محرّروں کے اسپیشل کورسز بھی کروائے گئے، تب کہیں جاکر بہتری آئی۔

اس میں سب سے اہم کردار پولیس کے ضلعی سربراہ کے ذاتی کردار، نیک نیّتی اور ارادے کا ہے۔ تھانہ کلچر تبدیل کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔’’ماڈل پولیس اسٹیشن‘‘ کسی جعلی دانش وَر کا آئیڈیا تھا، جو ناکام ہوچکا ہے۔ اوّل تو یہ کہ تمام تھانے ہی ماڈل ہونے چاہئیں، اگر کچھ تھانوں میں پولیسنگ کا معیار بلند ہوگا، تو باقی جگہوں کے شہریوں کو کم تر معیار کی پولیسنگ فراہم کرنا آئین کے آرٹیکل4 کی خلاف ورزی ہوگی۔

ویسے زیادہ تر پولیس افسران کے نزدیک ماڈل پولیس اسٹیشن کا مطلب ہے، تھانے کو رنگ روغن کروا کے اسے فور اسٹار ہوٹل بنا دیا جائے۔کئی اضلاع میں تھانے دار اور ڈی ایس پی اپنا اصل کام چھوڑ کر ماڈل پولیس اسٹیشن کے نام پر چندے کے لیے ہر روز صنعت کاروں اور تاجروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

تھانے داروں نے چندوں سے خُوب جیبیں بَھری ہیں۔ بلڈنگ چاہے، جتنی بھی چمکا دو، اگر اس کے اندر رشوت خوری چل رہی ہے، غریب اور بے سہارا لوگوں کی بے عزّتی ہورہی ہے، تو یہ کیسے ماڈل تھانے ہیں؟ پولیس افسران کی اکثریت فیلڈ پوسٹنگ کے لیے حُکم رانوں کی ذاتی ملازم بن گئی ہے یا سارا وقت سوشل میڈیا پر جعلی کارروائیاں ڈالتی رہتی ہے۔

س: ہمارے ہاں پولیس اصلاحات پر بہت باتیں ہوتی ہے، آخر آج تک یہ بھاری پتھر کیوں نہ اُٹھایا جا سکا؟

ج: ہندوستان پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد 1855-56ء میں انگریز حکم ران یہاں پولیس کا جدید نظام نافذ کرنے کا ارادہ کرچُکے تھے کہ 1857ءمیں اُن کے خلاف زبردست بغاوت ہوگئی، جس نے اُن کی ترجیحات تبدیل کردیں اور میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم (جو لندن میں رائج تھا) کی بجائے اُنہوں نے یہاں آئرش کانسٹیبلری سسٹم نافذ کردیا، جو اُنہوں نے آئرلینڈ کے عوام کو دَبا کر رکھنے کے لیے وضع کیا تھا۔

اِس نظام کے تحت ضلعے کے ڈپٹی کمشنر کی ذات میں پولیس، انتظامیہ، عدلیہ، ریوینیو، غرض یہ کہ تمام تر اختیارات مرتکز کردیئے گئے۔ کسی مفتوحہ علاقے اور دیہاتی آبادی کے لیے تو یہ سسٹم کچھ دیر کے لیے چل سکتا تھا، مگر یہ سسٹم ایک آزاد مُلک اور آزاد قوم کی امنگوں کے مطابق ہرگز نہیں تھا۔ سیکیوریٹی اور امن وامان کے تمام ماہرین متفّق ہیں کہ مجسٹریسی نظام آج کے جدید دَور کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے بنیادی اصول unity of command کے خلاف ہے۔

اس میں پولیس پر دُہرا کنٹرول ہوتا ہے۔ ایک طرف پروفیشنل پولیس افسر ضلعی پولیس کا سربراہ ہوتا ہے، تو دوسری طرف ڈپٹی کمشنر بھی امن وامان کا نگران ہونے کا دعوے دار ہے۔ کمانڈ کی تقسیم یا duality of control کسی بھی فورس کی استعداد کو کم زور کردیتی ہے اور اس سے اُس کی قُوّتِ فیصلہ بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یہ نظام صدیوں پرانی ایک ایسی دیہاتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے تھا، جہاں جدید دَور کے چیلنجز، امن وامان کے نئے مسائل، سنگین جرائم اور دہشت گردی کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔

پُرانا نظام، جدید دَور کے مسائل کا سامنا کرنے میں اِس لیے بھی ناکام ہوا کہ اس میں پولیس کو آپریشنل اٹانومی حاصل نہیں تھی، جس کے باعث وہ فوری ردِّعمل دینے کی صلاحیّت نہیں رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ، اس سسٹم میں پولیس اور مجسٹریسی میں مستقل کھنچائو اور کشیدگی رہتی تھی اور افسران کی صلاحیّتیں، وسائل اور وقت، باہمی لڑائی جھگڑے کی نذر ہوجاتا تھا۔ اس سسٹم میں باضمیر پولیس افسروں کا initiative کچل دیا جاتا تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس فرسودہ نظام میں مجسٹریسی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کی بے جا مداخلت نے آکاس بیل کی طرح چمٹ کر پولیس کی institutional growth روک دی تھی۔

اُدھر ڈپٹی کمشنر اپنے اصلی کام یعنی ریوینیو اور مونسپل سروسز پر بالکل توجّہ نہیں دیتے تھے، جس سے دونوں محکمے نظر انداز ہوگئے تھے، اِسی لیے بھارت نے پچاس سے زائد شہروں میں پولیسنگ کا جدید نظام نافذ کرلیا ہے۔ بنگلا دیش میں بھی جدید نظام نافذ ہوچُکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی آزادی کے فوراً بعد ماہرین سرجوڑ کر بیٹھے اور سام راجی نظام کی فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ سب سے پہلے سندھ اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ کراچی میں ممبئی طرز کا پولیس کمشنریٹ سسٹم نافذ کیا جائے۔

بِل منظوری کے لیے گورنر جنرل کے پاس بھیجا گیا۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظمؒ نے اپنے دست خطوں سے اس کی منظوری دی۔ بعدازاں، ڈرافٹ کی نوک پلک درست کرنے کے بہانے اُسے سیکرٹری قانون کے پاس بھیجا گیا اور پھر اُسے غائب کردیا گیا۔ قائدؒ کی وفات اور بیوروکریسی کی سازشوں کی وجہ سے کراچی بلکہ پورا مُلک جدید پولیسنگ سسٹم سے محروم رہا۔

ہر دَور میں انگریز کے چھوڑے ہوئے فرسودہ سسٹم کو بدلنے اور پولیسنگ کے نظام میں اصلاحات کی کوششیں ہوتی رہیں۔30 سے زائد کمیشن بنے، سب نے متفّقہ طور پر1861ء کے فرسودہ نظام کے خاتمے کی سفارشات کیں، مگر اس فرسودہ نظام کے حامی اور vested interest چوں کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں گُھسے ہوئے ہیں، اِسی لیے قوم پولیسنگ کے بہتر اور جدید نظام سے ابھی تک محروم ہے۔

س: پولیس اصلاحات کے ضمن میں آپ کی کیا تجاویز ہیں؟

ج: جنرل پرویز مشرّف کے دَور میں جنرل نقوی ایک جدید ذہن کے آدمی تھے اور سمجھتے تھے کہ پرانا مجسٹریسی سسٹم جدید دَور کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا، اِس لیے اُنہوں نے اسے بدلنے کی کوشش کی، مگر پولیس لیڈرشپ نے اپنی نااہلی کے باعث جو نظام تجویز کیا، وہ ناقابلِ عمل تھا۔ اس میں اُنہوں نے سر جاپان سے لیا، تو بازو برطانیہ سے اور ٹانگیں امریکا سے لاکر جوڑ دیں اور ایک عجیب وغریب شکل بنا ڈالی، جسے’’ پولیس آرڈر2002 ء‘‘ کا نام دیا گیا۔

اُنہیں چاہیے تھا کہ انسپکٹر جنرل کے لیے فنانشل اور آپریشنل اٹانومی لیتے، یعنی وہ اپنے محکمے کا سیکرٹری ہو، جو وزیرِ اعلیٰ اور کابینہ کو جواب دہ ہو اور بڑے شہروں میں ہم سایہ ممالک کی طرح میٹرو پولیٹن سسٹم نافذ ہوتا، جس میں جرائم کی روک تھام اور امن وامان کی مکمل ذمّے داری پولیس کمشنر کی ہوتی ہے اور وہ کسی mishap کی صُورت میں کسی دوسرے محکمے پر نہیں بلکہ خود ذمّے داری لیتا ہے۔ مگر اصلاحات کا دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے، کیوں کہ عوام کو اُس سے زیادہ دل چسپی ہے۔

پولیس ریفارمز کی جب بھی بات ہوتی ہے، تو عوام توقّعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ اب پولیس دیانت دار ہوجائے گی اور اس کا عوام کے ساتھ رویّہ ہم دردانہ ہوجائے گا۔ بلاشبہ، اصلاحات کا نتیجہ ایسا ہی نکلنا چاہیے کیوں کہ عوام ایک دیانت دار، خوش اخلاق، ہم درد، مؤثر اور efficient پولیس چاہتے ہیں، اگر اُنہیں ایسی پولیس نہیں ملتی، تو پھر اُن کے لیے اصلاحات بے معنی اور بے کار ہیں۔اِس ضمن میں میری تجویز ہے کہ٭پورے مُلک میں پرانے، دقیانوسی مجسٹریسی سسٹم کی بجائے جدید میٹروپولیٹن سسٹم رائج کیا جائے۔٭کانسٹیبلز اور سب انسپکٹرز کی ریکروٹمنٹ کے لیے جسمانی معیار بہت بلند رکھا جائے۔٭مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس اور پی ایم ایس وغیرہ) اِس وقت صرف انگریزی اور حافظے کے ٹیسٹ ہیں، ان میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

سی ایس ایس کرنے کے بعد جو افسر اے ایس پی بن رہے ہیں، وہ ٹریننگ اکیڈیمیز ہی میں مال بنانے کی اسکیمز بنانا شروع کردیتے ہیں، ان میں دیانت دار افسران کی شرح 20 فی صد سے بھی کم ہے۔ ڈی ایم جی اور دوسری سروسز کا بھی یہی حال ہے، جس نوجوان نے آئی جی یا فیڈرل سیکرٹری بننا ہے، اُس کے بارے میں مکمل چھان بین کی ضرورت ہے کہ اُس نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے، جس ماحول میں اس کی شخصیّت کی تشکیل ہوئی ہے، وہاں کا value system کیا تھا، گھر میں حلال اور حرام کا تصوّر تھا کہ نہیں؟

ان عوامل کو پیشِ نظر رکھ کر ماہرِ نفسیات اُس کے رجحانات کا اندازہ کریں اور غیر قانونی طریقے سے پیسا بنانے کا رجحان رکھنے والوں کو کسی صُورت سِول سروسز میں شامل نہ کیا جائے، اُن کی پہلے ہی اسکریننگ ہوجائے۔٭ٹریننگ کو ترجیحِ اوّل بنایا جائے اور بہترین افسران کو(جو رول ماڈل ہوں) ٹریننگ اکیڈیمیز میں تعیّنات کیا جائے تاکہ وہ اعلیٰ ترین اقدار نوجوان افسران کے دل ودماغ میں منتقل کریں۔٭ڈی آئی جی رینک کے ایمان دار اور نیک نام (ریٹائرڈ) افسران کو ڈویژنل سطح پر پولیس محتسب کے طور پر تعیّنات کیا جائے اور اُنہیں کرپشن میں ملوّث کسی بھی پولیس افسر کی گرفتاری اور مقدمہ چلانے کا اختیار ہو۔ اس سے پولیس کی اکائونٹیبلیٹی مؤثر ہوگی اور کرپشن میں خاصی کمی آئے گی۔٭اگر کوئی وزیرِ اعلیٰ کسی کرپٹ اور بدنام افسر کو تعیّنات کرنا چاہے، تو آئی جی پر یہ لازم ہو کہ وہ تحریری طور پر اس کی بُری شہرت سے وزیرِ اعلیٰ کو آگاہ کرے۔ یقیناً ایسے خطوط میڈیا میں بھی لیک ہوں گے اور سیاست دان سفارشی اور بُری شہرت کے افسران کی تعیّناتی سے گریز کریں گے۔

س: سیاسی رہنما پولیس کے کاموں میں مداخلت کرتے چلے آئے ہیں، کیا آپ کو بھی کبھی ایسے کسی دبائو کا سامنا کرنا پڑنا؟

ج: سیاسی مداخلت کی بجائے حکومتی مداخلت کہنا زیادہ درست ہوگا، کیوں کہ پولیس، انتظامیہ یا دوسرے سرکاری محکموں میں حکومتی نمائندوں کی جانب سے مداخلت ہوتی ہے۔ مارشل لاء میں عسکری نمائندے مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے افسر تعیّنات کروانا چاہتے ہیں،جب کہ جمہوری دَور میں حکومتی پارٹی کے وزراء اور ارکانِ اسمبلی اپنی مرضی کے ایس ایچ او، ڈی ایس پی یا ایس پی لگوانا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ، وہ مقدمات کی تفتیش میں بھی مداخلت کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر پولیس افسر کا سروس کے پہلے چند سالوں میں ایک امیج بن جاتا ہے کہ یہ افسر مداخلت قبول کرتا ہے یا مزاحمت کرتا ہے۔ اِس لیے مجھے بہت کم مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ گوجرانوالہ میں، مَیں نے بااثر، مگر بدنام پولیس افسر معطّل کیے یا ڈویژن ہی سے نکال دیا اور اُنھیں کسی کی سفارش پر بحال کیا، نہ واپس لیا۔ مَیں کسی کی سفارش پر ایس ایچ او نہیں لگاتا تھا، بلکہ خود ریکارڈ دیکھ کر اور انٹرویو کرکے اچھے افسران کا انتخاب کرتا۔

مَیں اعلان کیا کرتا تھا کہ جن افسران کی وفاداری اپنی کمانڈ کی بجائے وزیروں یا ارکانِ اسمبلی کے ساتھ ہوگی، وہ میری ٹیم میں نہیں رہ سکتے۔ اِس لیے گوجرانوالہ ڈویژن میں حکومتی جماعت کے وزیر اور ارکانِ اسمبلی مجھ سے ناراض رہتے اور میرے تبادلے کے لیے وزیرِ اعلیٰ سے ملتے رہتے تھے۔ 2007ء میں جب جنرل مشرّف نے ایمرجینسی لگا کر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو نظربند کیا، تو مَیں اُس وقت ڈی آئی جی، کوہاٹ تھا۔ مجھے بھی ہدایات ملیں کہ عسکری ایجینسیز کے نمائندے ہر ضلعے میں وکلاء اور سیاسی ورکرز کی فہرستیں فراہم کریں گے، جنھیں پولیس فوری گرفتار کرے گی۔

مَیں نے آئی جی سے کہا کہ’’اِن لوگوں نے کوئی جرم نہیں کیا، اِس لیے انھیں گرفتار کرنا زیادتی ہے۔ میرے خیال میں یہ احکامات غیر قانونی ہیں، اِس لیے مَیں ان پر عمل نہیں کرسکوں گا، آپ بے شک مجھے یہاں سے تبدیل کردیں۔‘‘ ضلعی پولیس سربراہان بھی میرے پاس پہنچ گئے کہ ایجینسیز والے فہرستیں لے کر آگئے ہیں کہ فلاں فلاں کو گرفتار کرلیں، آپ کی کیا ہدایات ہیں؟ اُنہیں بتایا گیا کہ کسی بے گناہ کو گرفتار نہیں کیا جائے گا اور کسی غیر قانونی حکم پر عمل نہیں ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ احکامات کے باوجود کوہاٹ ڈویژن میں کسی وکیل یا صحافی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ کئی روز بعد بار ایسوسی ایشن کے عُہدے دار مجھے ملنے آئے اور پوچھنے لگے کہ پورے مُلک میں گرفتاریاں ہوئی ہیں، مگر کوہاٹ ڈویژن میں آپ نے کسی کو گرفتار نہیں کیا، آپ نے کس کے احکامات پر ایسا کیا ہے؟ مَیں نے بانیٔ پاکستان کی تصویر کی طرف اشارہ کیا کہ’’ ان کے احکامات پر۔‘‘

گوجرنوالہ میں ضمنی انتخاب کا معرکہ قریب آیا، تو صوبے کی حُکم ران جماعت کے بڑوں نے وہاں آکر ڈیرہ سجالیا کہ وہ ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ سینٹرل پنجاب میں الیکشن ہارنا ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔ اس سے حکومت کی ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔پولیس کے غیر قانونی استعمال پر اصرار ہوا، تو مَیں نے صاف بتادیا کہ پولیس غیر جانب دار رہے گی۔ اصرار بڑھا، تو مَیں نے کہا کہ’’ میری جگہ کسی اور افسر کو یہاں تعیّنات کروالیں۔‘‘بہرحال، حکومتی امیدوار ہار گیا اور مجھے فوراً تبدیل کردیا گیا، مگر دل خوش اور ضمیر مطمئن تھا کہ قانون کی حُکم رانی قائم ہوئی۔

س: آپ نے نواز شریف، شہباز شریف، جنرل مشرّف اور عمران خان کے دَور میں کام کیا، کس کا دَور اچھا تھا؟

ج:اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دَور میں میاں نوازشریف میں بڑا جوش اور جذبہ تھا، مُلک کو معاشی طور پر آگے لے جانے کا بھی اور مظلوموں کو انصاف دینے کا بھی۔ مَیں پنجاب کے ایک ضلعے کا ڈی پی او تھا، اُنہوں نے مجھے بُلا کر اپنا اسٹاف افسر مقرّر کیا۔ وہ بار بار کہا کرتے تھے کہ ہم نے میرٹ اور انصاف رائج کرنا ہے، چاہے کوئی ناراض ہی کیوں نہ ہو۔ ایک بار میری رپورٹ پر اُنہوں نے اپنی پارٹی کے ایک رکنِ اسمبلی کو (جو جرم میں ملوّث تھا) سب کے سامنے گرفتار کروادیا۔

مگر جب وہ دوسری اور پھر تیسری بار وزیرِ اعظم بنے، تو کچھ مشکوک قسم کے لوگ اُن کے اردگرد جمع ہوگئے اور اُن کا جذبہ ماند پڑتا گیا۔ شہباز شریف کا 1997-99ء والا دَور بہترین تھا۔ مَیں اُس وقت لاہور کا پولیس چیف تھا۔ اُنہوں نے واقعی میرٹ کی حُکم رانی قائم کی تھی۔ پانچ چھے وزراء نے مِل کر بھی کسی بدنام افسر کی سفارش کی، تو اُسے فیلڈ پوسٹنگ نہیں دی۔ پورے ضلعے کے ارکانِ اسمبلی اکٹھے ہوکو بھی کسی دیانت دار ڈی سی یا ڈی پی او کو تبدیل نہیں کروا سکے۔

جنرل مشرّف نے چُھرا چلا کر سب ختم کردیا اور وہ پھر زیرو پوائنٹ پر پہنچ گئے۔ 2008ء میں آکر اُنہوں نے آغاز اچھے جذبے سے کیا، مگر کچھ عرصے کے بعد جب فیصلہ سازی میں اُن کے کچھ قریبی افراد بھی شامل ہوگئے، تو compromises شروع ہوگئے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اُن کی 16 ماہ کی وزارتِ عظمیٰ میں میرٹ کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔

اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخر میں اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کو کئی عُہدے آفر کیے گئے تھے، مگر آپ نے قبول کیوں نہیں کیے، مَیں نے کہا کہ آپ کی حکومت نے بہت بدنام افسران کو اعلیٰ عُہدوں پر تعیّنات کیا ہے، مَیں نے اُنہیں کرپٹ افسران کی لسٹ دی، اِس پر اُنہوں نے اپنے سیکرٹری توقیر شاہ کو بُلا کر پوچھا، تو اُس نے مشکوک افسران کی تقرّری کی ذمّے داری دوسرے بیوروکریٹ پرڈال دی۔

بہرحال، میرٹ کے لحاظ سے وہ اچھا دَور نہیں سمجھا جاتا۔ عمران خان نے 2013ء میں خیبر پختون خوا میں چیف سیکرٹری اور آئی جی کو مکمل اٹانومی دی اور اپنی سیاسی ٹیم سے کہا کہ وہ مداخلت نہ کریں، اِس لیے وہ دَور بھی اچھا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آئی جی کی اپنی پسند اچھی نہ ہو، مگر پوسٹنگ ٹرانسفر میں وہ بااختیار تھا، لیکن اُس وقت بھی بہت سی جگہوں پر کرپٹ پولیس افسر تعیّنات ہوئے۔

لوگوں کے ساتھ وہاں کی پولیس روایتی طور پر بدتمیزی نہیں کرتی، پنجاب اور سندھ کی طرح جھوٹے پرچے کاٹنے اور مخالفین کے گھروں میں گُھس جانے کا اُس صوبے میں رواج نہیں ہے، مگر کے- پی کی پولیس میں بہتری کا پراپیگنڈا بہت زیادہ کیا گیا تھا۔مشرّف دَور میں اولڈ راوینز کے سالانہ ڈنر پر مَیں نے اُن کے جعلی ریفرنڈم پر سخت تنقید کی، جس کا بی بی سی پر بھی تذکرہ ہوا، اس پر مجھے نوٹس موصول ہوگئے اور انکوائری شروع ہوگئی، وہ مجھے نوکری سے نکالنے پر تُل گئے، مگر اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے رائے دی کہ ’’ملزم‘‘ اچھی شہرت کا افسر ہے، اس کے خلاف کارروائی ہوئی، تو حکومت کی بدنامی ہوگی، اِس لیے وہ کسی سخت کارروائی سے باز رہے، مجھے آیندہ ایسی تقریروں سے پرہیز کی وارننگ دے کر پنجاب سے نکال دیا گیا۔

جنرل مشرف کے پورے دَور میں، مَیں پنجاب واپس نہیں جاسکا۔ ویسے تین دھائیوں سے زیادہ پولیس سروس میں گزارنے اور مختلف حُکم رانوں کا طرزِ حُکم رانی دیکھنے کے بعد مَیں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملٹری ہو یا سِول حُکم ران، سب پولیس کو اپنے مفاد اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، کوئی بھی محکمۂ پولیس کی اصلاحات کے لیےمخلص نہیں۔ عمران خان نے سب سے زیادہ دعوے کیے، مگر وہ وزیرِ اعظم بنے، تو پوسٹنگ کے لیے اُن کا مطلوبہ معیار دیانت داری نہیں، پی ٹی آئی سے وفاداری رہا۔

س: آپ کی زندگی تو ناقابلِ فراموش واقعات سے بَھری پڑی ہے۔ کوئی غیر معمولی واقعہ ہمارے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کیجیے؟

ج: پولیس سروس میں بڑے بڑے غیر معمولی واقعات پیش آتے رہے۔ کچھ اپنی خودنوشت میں لکھوں گا، ایک کا ذکر کر دیتا ہوں۔ مَیں رحیم یار خان میں ایس ایس پی (ڈی پی او) تھا۔ وائرلیس پر میسیج سُنا کہ ڈاکوئوں نے ایک نوجوان کو اغواء کرلیا ہے اور پولیس اُن کا پیچھا کررہی ہے، مَیں فوراً اُٹھا اور اپنے گن مین لے کر مجرموں کے پیچھے چل پڑا۔ راستے میں ایک جگہ نوجوان کی نعش ملی، یعنی اغواکاروں نے مغوی کو قتل کرکے پھینک دیا اور خود فرار ہوگئے۔ لوگوں نے سمت بتائی، تو ہم نے جیپ اُسی جانب موڑ دی۔

ایک جگہ کچھ دیہاتی اور چند پولیس ملازم کھڑے تھے، ہم پہنچے، تو اُنہوں نے بتایا کہ تین مسلّح ڈاکو گنّے کے اِس کھیت میں داخل ہوئے ہیں۔ ایک سب انسپکٹر نے دیہاتیوں سے کہا کہ آپ اس جانب سے داخل ہوں اور ہم دوسری جانب سے داخل ہوں گے، مگر دیہاتی خوف کی وجہ سے تیار نہ ہوئے، کیوں کہ وہ دیکھ چُکے تھے کہ ڈاکو کلاشنکوفوں سے مسلّح ہیں۔ پولیس ملازم بھی سوچ میں تھے کہ کیا کریں۔

بس انہی چند سیکنڈز میں، مَیں نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ یہ جان کا رِسک ہے، مگر ایک کمانڈر کی حیثیت سے مجھے یہ رِسک لینا چاہیے۔ مَیں نے نعرہ لگایا اور کہا’’ آئو میرے پیچھے۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں گنّے کی گھنی فصل میں داخل ہوگیا۔ مجھے دیکھ کر میرے گن مین اور پھر دوسرے پولیس اہل کار بھی فصل میں گُھس گئے۔

پہلا فائر ایک ڈاکو نے ہمیں دیکھ کر کیا، ہم محفوظ رہے، مگر فوراً میرے گن مین نے اُس پر فائر کیا، جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ تین میں سے ایک ڈاکو مارا گیا اور دو پکڑے گئے۔ فورس کا مورال بہت بلند ہوا کہ پولیس کا ضلعی سربراہ رِسک لے کر خود سب سے پہلے فصل میں داخل ہوا۔

س: خیبر پختون خوا میں عمران خان کے دَور میں پولیس کو بہتر بنانے کا تجربہ آپ کے خیال میں کیسا تھا، بعد ازاں پنجاب میں بھی اسے دُہرانے کی کوشش کی گئی؟

ج: لوگ مجھ سے پوچھتے، تو مَیں کہتا تھا کہ 2013ء میں عمران خان نے کے- پی پولیس میں سیاسی مداخلت بند کرکے بہت اچھا کیا، مگر ان کا اصل امتحان تب ہوگا، جب پنجاب کی حکومت اُنہیں ملے گی۔ جب پنجاب میں اُن کی حکومت بنی، تو پولیس میں بدترین سیاسی مداخلت دیکھنے کو ملی۔ کسی ڈی سی یا ڈی پی او نے اُن کے کسی ہارے ہوئے امیدوار کا غلط کام نہیں کیا، تو اُسے فوراً تبدیل کردیا گیا۔

پنجاب میں اُن کے دَور میں بدترین گورنینس تھی اور کرپشن بھی عروج پر تھی۔ وزیرِ اعظم بننے کے بعد اُن کا نظریہ کُھل کر سامنے آگیا کہ وہ دیانت دار اور غیر جانب دار پولیس نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کی وفادار پولیس چاہتے ہیں۔ جب نظریہ یہ ہو، تو پھر کون سی اصلاحات؟ کے- پی کے، مین اسٹریم سے ذرا ہٹ کے تھا اور عمران خان نے پراپیگنڈے کے زور پر وہاں کی پولیس کو دنیا کی بہترین پولیس کے طور پر پیش کیا، مَیں خود بھی وہاں تین جگہوں پر ڈی آئی جی رہا ہوں، وہاں کے پولیس افسران سے پوچھتا، تو وہ خود بھی ہنستے تھے۔

س: سابق چیف جسٹس ثاقب نثار آپ کے کلاس فیلو رہے ہیں، آپ نے اُنہیں کیسا پایا؟

ج: ثاقب نثار جی سی میں اور بعد میں پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج میں بھی میرے کلاس فیلو تھے۔ میرے اُن سے اچھے سماجی تعلقات تھے، مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے طرزِ عمل اور فیصلوں سے عدالتِ عظمیٰ کو بے توقیر کیا اور اُن کے کلاس فیلوز کو بھی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔

س: زندگی کی کوئی خواہش، جو آج تک پوری نہ ہو سکی ہو؟

ج: جب دیکھتا ہوں کہ صرف عُہدے بچانے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران، حُکم رانوں کے ذاتی نوکروں کا کردار ادا کرتے ہیں، تو دل بہت دُکھتا ہے۔ اِس مُلک کے بانی کس قدر دیانت دار، باکردار اور بے لوث تھے، مگر آج لگ بھگ مُلک کا ہر طبقہ بددیانتی، فراڈز اور دھوکا دہی میں ملوّث ہے، تھانے، کچہریاں کرپشن اور بے انصافی کا گڑھ ہیں۔

یہاں بچّوں کا دودھ اور جان بچانے والی ادویہ تک خالص نہیں ملتیں، تو بہت غصّہ آتا ہے اور کبھی کبھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ چاہے چند روز کے لیے سہی، میرے پاس اختیار ہو، تو مَیں مُلک برباد کرنے والے مافیاز کو عبرت کا نشان بنادوں، پولیس، انصاف اور احتساب کے ادارے ٹھیک کردوں۔

س: زندگی میں سب سے زیادہ کس کے احسان مند ہیں؟

ج: مَیں اِن ہستیوں کا بے حد احسان مند ہوں۔ خالقِ کائنات کا،جس نے مجھے بے شمار نعمتوں، عزّت و احترام سے نوازا۔ حضرت محمّدﷺ کا، جنہوں نے مجھے ربّ العالمین سے متعارف کروایا، زندگی کا مقصد اور اسے گزارنے کا طریقہ بتایا۔ علّامہ اقبالؒ اور محمّد علی جناحؒ کا بھی جنہوں نے مسلمانوں کا احساسِ کم تری ختم کیا، آزادی کا شعور بخشا اور پھر ہمیں ایک آزاد مُلک کا بے مثال تحفہ عطا کیا۔

اپنے والدین کا، جنہوں نے مجھے حلال اور حرام کی تمیز سِکھائی اور حرام سے نفرت میری رگ وپے میں اُتاردی۔اپنے بڑے بھائی جان کا، جنہوں نے مجھے بولنا سِکھایا، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کروایا اور میرے اندر مقابلہ کرنے اور کچھ بننے کا جذبہ پیدا کیا۔

س: شادی ارینجڈ تھی یا لو میرج؟

ج: شادی پسند کی تھی، لیکن اہلیہ کو زندگی نے زیادہ مہلت نہ دی اور اُن کے بعد مَیں نے شادی نہیں کی۔

س: کالم نویسی کی طرف کیسے آئے، آپ صاحب ِکتاب بھی ہیں؟

ج: 2010ء میں ہماری والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا، تو مَیں نے اپنے جذبات تحریر کیے، جو کسی دوست نے اخبارات میں بھیج دئیے۔یہ مضمون’’ کون ہوگا بے قرار‘‘ کے عنوان سے چَھپا، تو بلامبالغہ ہزاروں افراد کے فون اور خطوط آئے۔یہ مضمون جنگ اور نوائے وقت کے ایڈیٹر صاحبان نے بھی پڑھا، تو دونوں نے مجھے باقاعدہ لکھنے کا مشورہ دیا۔ مَیں نے سرکاری مصروفیات کا ذکر کیا، تو اُنہوں نے مہینے میں ایک کالم لکھنے پر اکسایا۔ لہٰذا مَیں نے روزنامہ جنگ میں کالم لکھنا شروع کردیا۔

اِن کالمز کو’’ ماوراء‘‘ کے خالد شریف نے کتابی صورت میں چھاپنے کی خواہش ظاہر کی، تو مَیں نے اجازت دے دی۔ لہٰذا میری پہلی کتاب’’دو ٹوک باتیں‘‘ کے نام سے چَھپی، جس کے اب تک دس ایڈیشنز چَھپ چُکے ہیں۔اس کے بعد بھی میری دو کتابیں اردو میں اور ایک انگریزی میں آچکی ہے۔

شعر و شاعری سے بہت لگاؤ ہے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ڈی آئی جی تھا، تو وہاں بہت بڑا مشاعرہ منعقد کروایا، جس میں قومی سطح کے شعراء نے شرکت کی۔ کوہاٹ میں تعیّنات ہوا، تو ڈی آئی جی ہائوس میں احمد فراز کے ساتھ ایک یادگار شام کا انعقاد ہوا۔

خود بھی چند طنزیہ اور مزاحیہ نظمیں لکھی ہیں، جنہیں بڑے مشاعروں میں سُنا کر اچھی خاصی داد لے چُکا ہوں۔ میری پہلی نمکین غزل، جنگ کے ادبی ایڈیشن میں چَھپی تھی۔ سروس کے آخری سالوں میں کسی نے اقبالؒ کی چند نظمیں بھیجیں، جنہیں پڑھ کر مَیں تڑپ اُٹھا۔ پھر کلامِ اقبالؒ کو پڑھنا شروع کیا، تو اُس نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ اقبالؒ کے ہاں فکر اور فن دونوں آسمان کو چُھوتے ہیں۔مَیں نے کلامِ اقبال کا اتنے شوق سے مطالعہ کیا کہ اب مختلف یونی ورسٹیز اور ادارے مجھے’’ اقبالیات‘‘ پر لیکچر کے لیے بُلاتے ہیں۔

س: کیا موسیقی کا بھی شوق ہے، غم زدہ ہوں، تو کیا کرتے ہیں؟

ج: مَیں موسیقی کو سمجھتا بھی ہوں اور اچھی، معیاری موسیقی سُنتا بھی ہوں۔ بلاشبہ، موسیقی اچھے لمحات کو مزید خوش گوار بناتی ہے، مگر غم زدہ انسان کو سہارا نہیں دے سکتی۔ اِس کے لیے خالق ومالک ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ دُکھوں اور غموں پر صبر اور سکون کا مرہم رکھنے کی قدرت اُسی کے پاس ہے۔

س: عمران خان تو ٹی وی ٹاک شوز میں آپ کی بہت تعریف کیا کرتے تھے، مگر آپ اُن پر تنقید کرتے ہیں، اِس کی کیا وجہ ہے؟

ج: یہ درست ہے کہ وہ ٹاک شوز ہی میں نہیں، تقاریر میں بھی درجنوں بار میرے بارے میں اچھے کلمات کہتے رہے۔ مجھے بھی اُن سے اچھی توقّعات تھیں، مگر سچّی بات ہے کہ اُنہوں نے بہت مایوس کیا۔ اُن کے کام اور عمل، اُن کی باتوں اور تقاریر کے بالکل برعکس تھے۔ اُن کے دَور میں بدترین سیاسی مداخلت ہوئی، کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ خود مجرموں کی سرپرستی کرتے رہے۔

لہٰذا مَیں اُن کی منافقت اور مسلسل جھوٹ کی وجہ سے اُن سے بدظن ہوگیا۔ اُن کی سوچ آمرانہ ہے، وہ ہر ادارے کو اپنے سیاسی مخالفوں کو کچلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ایسا کرنا درست سمجھتے ہیں۔ اب بھی وہ فوج کو غیر سیاسی یا غیر جانب دار رکھنے کے حق میں نہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ فوج آئین توڑ کر سیاست میں حصّہ لے اور اقتدار دلانے میں اُن کی مدد کرے۔

ویسے دوسری پارٹیاں بھی اسٹیبلشمینٹ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کو جائز سمجھتی ہیں۔ وہ اب سویلین بالادستی کا نام نہیں لیتیں، صرف نوکری ہی پر راضی ہیں، اِس لیے عوام ان سے بھی بدظن ہیں۔ عمران خان سے اختلاف کے باوجود مَیں سمجھتا ہوں کہ8 فروری کو عوام کی واضح اکثریت نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جسے تسلیم کیا جانا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کو اِس کے جائز سیاسی حقوق سے محروم کرنے کو مَیں غلط اور مُلک کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہوں۔

س: کوئی دُعا جو ہمیشہ آپ کے لبوں پر رہتی ہو؟

ج: کعبۃُ اللہ اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کے مواقع کئی بار ملے، تو وہاں بھی سب سے زیادہ میری التجا یہی رہی کہ ’’اے ربّ العالمین! مجھے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرلے۔‘‘