قاتلوں کا پولیس کو مشورہ

April 28, 2024

پی ٹی وی کیلئے میں نے ’’سیف سٹی‘‘ کے نام سے پولیس کے شہیدوں کی کہانیوں پرڈرامہ سیریز لکھنا شروع کی ہوئی ہے۔ یہ ایک طرح سے دہشت گردی کے خلاف پولیس کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عمل ہے۔ چونکہ یہ ایک بڑاپروجیکٹ ہےسو ڈرامہ لکھنے سے پہلے مجھے پوری طرح پولیس کو سمجھنا پڑا ہے۔ میں نے کافی وقت پولیس کے سپاہیوں اور آفیسرز کے ساتھ گزارا۔ یقین کیجیے اس مطالعاتی دورانیہ میں پولیس کے بارے میں میری رائے ہی بدل گئی اور میں سوچتا رہا کہ کسی دن پولیس کے متعلق ایک کالم لکھوں۔ شعیب خرم جانباز ڈی آئی جی سیف سٹی اور ایس ایس پی شعیب خان جیسے اعلیٰ افسران کے بارے میں کچھ اچھی اچھی باتیں تحریر کروں۔ عمران خان اے ایس آئی کی دیانت داری کی کہانی سنائوں کہ میری نظر ٹی ٹی پی کے ایک بیان پر پڑی جس میں دہشت گردوں نے پولیس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہوا تھا کہ پولیس باقی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے الگ ہو جائے۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ دہشت گرد بھی کیسے منافق لوگ ہیں پولیس کے ہزاروں جوانوں کو شہید کرنے کے بعد پولیس کے ساتھ ہمدردی جتا رہے ہیں۔ اداروں میں تقریق ایسے پیدا نہیں ہو گی۔ دہشت گرد پولیس کو اس طرح کمزور نہیں کر سکتے۔ پھر اس بیان میں ایک دھمکی بھی موجود تھی۔ پولیس کو یہ انتباہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیوں سے باز آ جائے وگرنہ اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ حیرت ہے ان پر جو یہ سمجھتے ہیں کہ قاتلوں کے ایک گروپ سے خوفزدہ ہو کر پولیس اپنے شہیدوں کے خون کے ساتھ بے وفائی کرے گی۔ پولیس کا وہ نقصان جو پہلے کر چکے ہیں کیا وہ کوئی کم ہے کہ پولیس اسے بھول جائے گی۔ پولیس اپنے ان جوانوں کو بھول جائے گی جن کے سروں کے ساتھ دہشت گرد فٹ بال کھیلتے رہے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ پولیس کا تو ایمان ہے کہ جب تک آخری دہشت گرد اپنے انجام کو نہیں پہنچے گا اس کی جنگ جاری رہے گی۔ وہ افواج پاکستان کے شانہ بہ شانہ دہشت گردی کے خلاف ہر محاذِ جنگ میں سینہ سپر ہو کر ملک دشمنوں کا مقابلہ کرے گی اور اب پاک فوج نے پولیس کو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری تربیت دی ہے بلکہ اسے جدید ترین اسلحہ بھی فراہم کیا ہے۔ میرے خیال میں پچھلے دنوں بہاول نگر میں اداروں کے بیچ جو واقعہ ہوا ہے دہشت گردوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں اور مجھے یقین ہے کہ زیادتی کرنے والوں کو ضرور سزا مل ملے گی۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس وقت مکمل طور پر مایوس ہے کہ افغان طالبان نے ہاتھ کھڑے کر لئے ہیں اور انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستانی فورسز کے خلاف جنگ میں ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ ذاتی طور پر چند لوگ ان کے ساتھ ملے ہوں تو وہ دوسری بات ہے۔ اب ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے اداروں کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے۔ ان کے بیچ فساد ڈلوایا جائے۔

دراصل ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی بے چینی کے سبب یہ دہشت گرد بہت خوش پھرتے ہیں۔ یہ زیادہ دیر خوش نہیں رہ سکیں گے۔ جلد ملک جمہوریت کے صحیح راستے پر گامزن ہو جائے گا۔ حکمرانی کے معاملات میں آئین اور قانون کو اولیت حاصل ہو گی اور پاکستانی عوام پہلے کی طرح اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ دہشت گردی کے معاملہ میں تو اب بھی پاکستانی عوام افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور میں پولیس لائنز مسجد دھماکے کے بعد کہا تھا‘‘ پولیس اللہ کی جنگ لڑ رہی ہے اور پاکستان کے عوام پولیس اور لا انفورسمنٹ ایجنسیوں پر فخر کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اس وقت کھل کر کہا تھا کہ دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف جنگ میں تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا، پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مزید بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔

پاکستان کے بہادر سپاہی چاہے وہ کسی بھی فورس میں ہیں وہ اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیں گے جب تک جہنم کے مسافروں کو عبرت ناک انجام تک نہیں پہنچاتے۔ میں یہ کالم لکھتے ہوئے اس وقت خود کو ایک سپاہی محسوس کر رہا ہوں۔ بہت عرصہ پہلے کہی ہوئی ایک نظم کا مصرعہ یاد آ رہا ہے۔ ’’سارے اہل قلم سپاہی ہیں‘‘۔ حق کیلئے سچائی کیلئے، آزادی کیلئے ایک حرف لکھنے والا آدمی بھی میرے نزدیک سپاہی ہے۔ وہ تمام ادارے جو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کوئی بھی کردار ادا کر رہے ہیں وہ پوری قوم کیلئے محترم ہیں۔ اس میں پی ٹی وی کے ایم ڈی سید مبشر توقیر کا نام خاص طور پر لوں گا۔ پھر مبشر توقیر تو فوجی جنرل کے بیٹے ہیں۔

یہ قوم چند دہشت گردوں سے ہارنے والی قوم نہیں۔ افسوس کہ یہ قوم اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے ورنہ بہت عرصہ پہلے تمہیں نیست و نابود کر چکی ہوتی۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ دہشت گردو! تمہیں اپنے انجام تک پہنچنا ہے۔ جہنم کی آخری تہہ تمہاری منتظر ہے۔ ہم اپنے بچوں کے قاتلوں کو معاف نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے سکتے۔ وہ جو مسجدوں میں نماز یں پڑھتے ہوئے شہید کر دئیےگئے۔ وہ جو مقدس مقامات کی زیارات کے دوران شہادت سے آشنا ہوئے۔ وہ جو اپنی ڈیوٹیاں دیتے ہوئے خون میں نہلا دئیے گئے۔ وہ جو ہزاروں زخمی ہوئے اور ابھی تک معذور ہیں۔ جتنے گزرتے جاتے ہیں ان کی آنکھوں میں بھرے سوال تیروں کی طرح ہمارے کلیجے چیر رہے ہیں۔ ہم نے تمہیں نہیں چھوڑنا، چاہے تم کسی ملک میں جاکر چھپ جائو۔ ان شاءاللہ ہم تمہیں گہرے تاریک غاروں سے نکال نکال کر انجام تک پہنچائیں گے۔