پاکستانی معیشت ٹھیک کرنے کا شاید یہ آخری موقع ہے، معاشی ماہرین

April 28, 2024

ملکی معیشت پر جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں ماہرین نے اتفاق کیا کہ پاکستان کی معیشت ٹھیک کرنے کا شاید یہ آخری موقع ہے۔

"کر ڈالو ……پاکستان کے لیے" کے عنوان سے میر خلیل الرحمٰن فاؤنڈیشن اور جنگ و جیو گروپ نے آج اپنے ناظرین کے لیے معاشی معاملات پر پاکستان کی سب سے بڑی اور اہم ’گریٹ ڈیبیٹ‘ کا اہتمام کیا، جس کی میزبانی کے فرائض سینئر اینکر شاہ زیب خانزادہ انجام دیے۔

دی گریٹ ڈیبیٹ میں چیئرمین عارف حبیب گروپ، عارف حبیب، صدر پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ظفر مسعود، صدر ایچ بی ایل ناصر سلیم، سی ای او لکی سیمنٹ علی ٹبا، ڈائریکٹر گل احمد زیاد بشیر، سی ای او سسٹمز لمیٹڈ آصف پیر، سی ای او ٹاپ لائن سیکیورٹیز محمد سہیل اور لمز کے معاشی ماہر پروفیسر علی حسنین نے گفتگو کی۔

چیئرمین عارف حبیب گروپ عارف حبیب نے کہا کہ ہم چیزوں کو بہت جلد ٹھیک کر سکتے ہیں، بہت زیادہ گنجائش ہے، سب سے زیادہ پرائیوٹائزیشن پاکستان میں کامیاب رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت زیادہ شرح سود سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، ساڑھے 8 ہزار ارب کے بجٹ خسارے میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے کی کمی صرف شرح سود نیچے لاکر لائی جاسکتی ہے۔

ظفر مسعود نے کہا کہ ٹیکس مشینری سے ساڑھے 3 ہزار ارب روپے کی لیکیج ہوتی ہے، صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں سے 2 ہزار ارب روپے کی ٹیکس لیکیج ہے، یہ ٹیکس ہم وصول نہیں کرپاتے یا پھر استثنیٰ دے دیتے ہیں۔

صدر ایچ بی ایل ناصر سلیم نے کہا کہ پاکستان میں جس معیار کی تعلیم دی جارہی اور ہنر سکھائے جارہے ہیں اس سے ہماری افرادی قوت برآمد کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم عمر آبادی کو اچھی تعلیم اور ہنر نہیں دیے تو یہ اثاثہ بوجھ بن جائے گا۔

سی ای او لکی سیمنٹ علی ٹبا نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں اگلے 2 سال تک بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔ مہنگی توانائی، زیادہ شرح سود اور زیادہ ٹیکسیشن نے صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ مینوفیکچرنگ کو قابل مسابقت بنانے کے لیے توانائی کی قیمت اور شرح سود کم کرنا ناگزیر ہے۔

ڈائریکٹر گل احمد زیاد بشیر نے کہا کہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہیں ہے، صنعتی شعبہ کیسے منصوبہ بندی کرے، سب کو پتہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور حل کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کی کتنی آمدنی ہے؟ بینکوں میں کتنا پیسہ ہے؟ کتنی گاڑیاں اور کتنی جائیدادیں ہیں؟ کتنی مرتبہ بیرون ملک سفر کیا؟ مگر ایف بی آر اس ڈیٹا پر کوئی کارروائی کرنے پر تیار نہیں۔

سی ای او سسٹمز لمیٹڈ آصف پیر نے کہا کہ اب معیشت سرحدوں سے ماورا ہوچکی ہے، پاکستان سے ٹیلنٹ کے باہر جانے کا سلسلہ روکنا ہوگ ۔

انہوں نے کہا کہ ہائی اسکلڈلیبر کے باہر جانے سے برآمدی ویلیو ایڈیشن کم ہوجاتی ہے، اچھی تعلیم اور یونیورسٹیز پر توجہ نہیں دی ہے۔

سی ای او ٹاپ لائن سیکیورٹیز محمد سہیل نے کہا کہ ہماری صنعتیں صرف وہی ٹیکس پورا دیتی ہیں جو ایٹ سورس کٹ جاتا ہے، ٹیکسیشن سے استثنیٰ ختم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنسی کی قیمت گرنے سے پاکستان کی ایکسپورٹ کبھی نہیں بڑھی۔

پروفیسر علی حسنین نے کہا کہ ہنگامی اقدامات کرنے سے برآمدات نہیں بڑھ سکتیں، 2013ء سے 2017ء تک ڈالر کی قدر روکنے کے بجائے بتدریج بڑھانی چاہیے تھی۔