اسٹیل صنعت کا شدید بحران

April 29, 2024

پاکستان کی اسٹیل صنعت شدید مشکلات سے دوچار ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ ایران سے بڑے پیمانے پر اسٹیل کی پاکستان اسمگلنگ ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز (PALSP) نے اسلام آباد میں ہنگامی اجلاس میں بتایا کہ ایران سے 25000 میٹرک ٹن خام اسٹیل بلوچستان کے علاقے پنجگور لایا گیا تھا جسے عید کی تعطیلات کے دوران حکام سے مل کر زمینی راستے سے پاکستان اسمگل کیا گیا جس سے اسٹیل کی مقامی صنعت کی طلب بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ میں نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا ہے اور وزیر خزانہ، وزیر تجارت سے ایران سے پاکستان اسٹیل اسمگلنگ روکنے کیلئے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران سے بڑے پیمانے پر اسٹیل کی پاکستان اسمگلنگ نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچارہی ہے بلکہ اسٹیل کی مقامی صنعت بھی بحران کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم پاکستان کے ایک بڑے اسٹیل ملز کے مالک میرے دوست میاں اکرم فرید سے تفصیلی گفتگو سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی اسٹیل کی صنعت دو وجوہات کے باعث بحران کا شکار ہے۔ پہلا مسئلہ ایران سے زمینی راستے اسٹیل کی اسمگلنگ ہے جس سے مقامی مارکیٹ میں اسٹیل 40 ہزار روپے فی ٹن سستا دستیاب ہے ۔

مارکیٹ میں Re Rollable اسٹیل کی قیمت تقریباً 500 ڈالر ہے جو تافتان بارڈر پر 380 سے 420 ڈالر فی ٹن میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ کرپشن کی وجہ سے اسٹیل کا وزن اصل وزن کے مقابلے میں 60 سے 70 فیصد ڈکلیئرڈ ہوتا ہے ۔ ان سب چیزوں نے مقامی اسٹیل صنعت کو بندش کی طرف دھکیل دیا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں متاثر ہوں گی۔ دوسرا مسئلہ صنعت کیلئے بجلی کے ناقابل برداشت ریٹ ہیں۔ حکومت نے رہائشی صارفین کو سستی بجلی دینے کیلئے اضافی بوجھ صنعتی صارفین پر ڈالا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے صنعتی نرخ 17 سینٹ فی کلو واٹ جو 47 روپے فی کلو واٹ بنتے ہیں، تک پہنچ گئے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں ہماری مقابلاتی سکت متاثر ہورہی ہے اور ہماری مصنوعات مقابلاتی حریفوں کے مقابلے میں مہنگی ہوگئی ہیں کیونکہ خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش، بھارت اور ایران میں بجلی کے نرخ بمشکل آدھے یعنی 8 سینٹ فی کلو واٹ ہیں۔ اس سلسلے میں سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپٹما اور فیڈریشن ہائوس میں صنعتکاروں کو یقین دلایا تھا کہ حکومت کراس سبسڈی ختم کرکے تمام صنعتوں بالخصوص ایکسپورٹ صنعتوں کے بجلی کے نرخ 9 سینٹ فی کلو واٹ (25 روپے فی کلو واٹ) کردے گی لیکن SIFC کی منظوری کے باوجود آئی ایم ایف نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے انرجی مکس بہتر بناکر کیپسٹی چارجز میں کمی اور نئے پاور پلانٹس کو متبادل فیول کے ذریعے فل کیپسٹی پر چلانے پر زور دیا جس سے بجلی کی قیمتوں میں کیپسٹی چارجز کی مد میں 17 سے 18 روپے فی یونٹ کمی لائی جاسکتی ہے جبکہ پاور پلانٹس کو کم کیپسٹی پر چلانے سے صارفین پر 2000ارب روپے سالانہ کا اضافی بوجھ پڑتا ہے جس میں کمی کیلئے ہمیں صنعت دوست پالیسیاں لاکر بجلی کی کھپت کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہمیں آئی پی پیز سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی چارجز نہ دینے پڑیں۔

پاکستان کا انرجی مکس خطے میں سب سے مہنگا ہے، ہم 50 فیصد بجلی گیس، 29 فیصد فرنس آئل، 11 فیصد ہائیڈرو (ڈیمز)، 8 فیصد نیوکلیئر اور متبادل توانائی اور 2 فیصد کوئلے سے پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم خطے میں سب سے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ بھارت میں کوئلے سے 204080 میگاواٹ، ہائیڈرو سے 46850 میگاواٹ، متبادل توانائی سے 11065 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح بھارت 3 لاکھ 12 ہزار میگا واٹ بجلی سستے ذرائع سے پیدا کررہا ہے۔ بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی پاکستان کے بجلی کے نرخ 16 سے 29 فیصد زیادہ ہیں لہٰذا ہمیں بھی اپنے انرجی مکس کو بہتر بناکر فرنس آئل اور گیس کے مقابلے میں متبادل توانائی سورج اور ہوا سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدے، مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے، ناقابل برداشت ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (T&D)نقصانات ، بجلی کی کھپت میں کمی سے آپ نہ صرف گردشی قرضوں میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ مہنگی بجلی پیدا کرکے مقامی صنعت کو بھی غیر مقابلاتی بنارہے ہیں جس کا ایک ثبوت اسٹیل کی صنعت کے شدید بحران سے لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مقامی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے بجلی کے نرخوں کو مقابلاتی بنائے اور زمینی راستے سے اسمگلنگ روکنے کیلئے سرحدوں پر موثر اقدامات یقینی بنائے نہیں تو مقامی صنعتیں بند ہونے سے ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوجائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)