بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

May 19, 2024

آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے ایتھنز میں اینکساغورث نام کا ایک فلسفی رہتا تھا۔ اسے کائنات کے راز جاننے کا بڑا شوق تھا۔ وہ ہر وقت ستاروں کی حرکات اور دیگر عوامل کا مشاہدہ کرتا رہتا۔ اس وقت سورج اور چاند کو خدا تصور کیا جاتا تھا۔ مسلسل مشاہدے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سورج اور چاند خدا نہیںبلکہ بہت بڑی چٹانیں ہیں۔ اینکساغورث نے اخذ کیا کہ چاند سورج سے روشنی لیتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چاند جب سورج اور زمین کے درمیان آ جاتا ہے تو سورج کو گرہن لگ جاتا ہے اور جب زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے تو چاند کو گرہن لگ جاتا ہے۔ چاند کے بارے اینکساغورث نے یہ بھی کہا کہ چاند کو زمین سے فضاء میں پھینکا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے معاشرے میں بیان کیا جا رہا تھا جہاں جمہوریت اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔ ایتھنز کے بڑوں کو اینکساغورث کے نظریات ہضم نہ ہوئے۔ چنانچہ معاشرے کے رائج نظریات سے اختلاف اور دیگر الزامات پر اسے جلاوطن کر دیا گیا۔ اینکساغورث جلاوطنی ہی میں مر گیا۔ اس کی قبر پر لکھا گیا کہ’’یہاں وہ شخص آرام کر رہا ہے جو سچائی کی تلاش میں آسمان تک چلا گیا‘‘۔

طاقت جو کہ ہزار ہا سال سے انسان کی کمزوری رہی ہے، اختلاف کو کچلنا چاہتی ہے۔ طاقت کے کئی روپ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک روپ ایسی طاقت کا ہے جس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اس کو ایبسولیوٹ پاور کہتے ہیں۔ اس کے استعمال پر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ اس طاقت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ آپ سے ڈرتے ہیں۔ وہ آپ سے اختلاف نہیں کرتے کیونکہ انہیں آپ کی ناراضی کا ڈر ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر اختلاف کے سبب وہ آپ کے دوستوں کی فہرست سے خارج ہو گئے تو کسی وجہ کے بغیر بھی تا دمِ مرگ مکینِ زنداں بنائے جا سکتے ہیں۔ اکثر بادشاہ اپنے دربار سے ایسے لوگوں کو جلد ہی رخصت کر دیا کرتے تھے جو اختلاف میں بے احتیاطی برتتے تھے۔ پروماکس نے سسلی کے آمرکے ظلم و جبر کو برا سمجھا تو اسے کانسی کے بیل میں ڈال کر زندہ جلا دیا گیا۔ سینیکا رومی فلسفی اور بادشاہ نیرو کا استاد تھا۔ مگر جب اس نے بادشاہ کے عدسے سے دیکھنا اور سوچنا بند کیا تو مختلف الزامات لگا کر اسے خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ٹامس کروم ویل برطانوی شہنشاہ ہنری ہشتم کا مشیر تھا مگر بادشاہ سے اختلاف پر اسے کسی ٹرائل کے بغیر ہی سزائے موت دے دی گئی۔ لیون ٹراٹسکی کو جوزف اسٹالن نے روس سے اس لیے نکال دیا کہ وہ اس کے انداز حکمرانی سے متفق نہ تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب بادشاہ کی ہاں میں ہاں نہ ملانے پر وزراء کو وزارتوں اور عمائدین کو سرداری سے ہاتھ دھونا پڑے، بعضے تو جان سے بھی گئے۔ حکمران سے اختلاف تو ایک طرف رہا، مذہبی پیشواؤں نے بھی مخالف رائے کو ہر دور میں فکرِ آوارہ و آلودہ قرار دے کر تقدّسِ مذہب کیلئے خطرہ قرار دیا۔ اطالوی فلسفی جیورڈانو برونو نے کائنات کو لامحدود کہا تو اسے جلا دیا گیا۔ اس کا یہ خیال اس وقت کے رائج مذہبی خیالات سے متصادم تھا۔ چیک ریفارمر جین ہس نے چرچ کی بعض روایات پر اعتراض کیا تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ گلیلیو نے ایسے لوگوں سے مشکل سے جان چھڑائی جو اپنی بات کے علاوہ کسی اور کی بات کو گفتگو میں جگہ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہزاروں سال سے یہ کھیل جاری ہے کہ طاقت مخالف رائے کو معاشرے میں جگہ دینا پسند نہیں کرتی۔

اختلاف صرف اس معاشرے میں زندہ رہ سکتا ہے جہاں برداشت اور وسعت ہو۔ ہمارے ہاں سب سے طویل عمر خاموشی کی ہے۔ جو جتنا چپ ہے، اتنا محفوظ ہے۔ چونکہ اختلاف سچائی سامنے لاتا ہے، سوچنے کے نئے زاویے فراہم کرتا ہے اس لیے طاقت اسے بغاوت تصور کرتی ہے۔ آپ کسی سردار سے اختلاف کر کے دیکھیں، آپ کا شہر میں رہنا دوبھر ہو جائے گا۔ کسی مذہبی پیشوا کو اس سے مختلف رائے دیں، مقدس کتاب کے حوالے بھی آپ کو نہیں بچا پائیں گے۔ سیاست میں بھی یہی کچھ ہے۔ آپ اپنے لیڈر سے الگ سوچ نہیں رکھ سکتے۔ لیڈر کو صرف اپنی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں وفاداری کے پلڑے میں خوشامد خلوص پر بھاری پڑ جاتی ہے۔ اس میں دوسری رائے نہیں کہ لیڈرز اقوام کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ مگر جب لیڈرز اختلاف سے بیزار ہو جائیں تو قومیں منزل کھو بیٹھتی ہیں۔ لیڈر کی غلط بات سے بھی لگاؤ ہو جانا زوال کی جانب گامزن ہونے کا پہلا قدم ہے۔عوام کا لیڈر پر اندھا اعتماد ہی لیڈر کو وہ Absolute کانفیڈنس دیتا ہے جو ایبسولیوٹ پاور کا موجب بنتا ہے۔ پھر اختلاف کچل دیا جاتا ہے۔ہماری کئی بڑی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کے سربراہان سے کوئی بھی کھل کر اختلاف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ ان سربراہان پر انہی کی جماعت کے آئین کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں پارٹی پالیسی بدلنے کیلئے کسی مشاورت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ روش ہماری سیاست کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں اختلاف کا مطلب غداری ہے۔ اعتراض کی صورت میں آپ کی دہائیوں کی جماعتی وابستگی بھی بے وقعت ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ عہدے اور پارٹی میں اہمیت کیلئے ہاں میں ہاں ملانا ضروری ہے۔ اینکساغورث تو سچ کی کھوج میں آسمان تک چلا گیا، ہم سچائی تلاش کرنے کی کوشش بھی کریں گے تو آسمان تک پہنچا دیے جائیں گے۔ سو، خوشامد بہتر ہے، اختلاف کو سیاسی سرزمین سے جلا وطن ہی رہنے دیا جائے۔