سید حیدر تقی، کچھ یادیں، کچھ باتیں

April 29, 2024

کسی اپنے کے بچھڑ جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ کر تسلی دیدی جاتی ہے کہ پروردگار کو یہی منظور تھا،جو رب کی رضا۔لوگ کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں ،ہم آپ کا دُکھ سمجھ سکتے ہیں۔حالانکہ جس تن لاگے سو تن جانے۔کوئی کسی کا دُکھ نہیں سمجھ سکتا۔میری تو یہ حالت ہے کہ کسی کے سانحہ ارتحال پرسوگواروںکو پرسہ دینے یا تعزیت کیلئے رسمی جملے کہنا ہمیشہ کار دشوار محسوس ہوتا ہے ۔زبان کی روانی اور قلم کی جولانی ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ایسے مواقع پر الفاظ بہت کھوکھلے ، سطحی اور بے معنی سے لگتے ہیں ۔بہادر شاہ ظفر کے الفاظ مستعار لوں تو ’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔‘لیکن دل میں طوفاں چھپائے رہنے اور غم سے پتھر ہوجانے سے بہتر ہے کہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوجانے والے کی یادوں کو تازہ کرکے احساسات قلمبند کرکے کچھ آنسو بہالئے جائیں۔

باغ و بہار شخصیت کے مالک سید حیدر تقی سے پہلا تعارف جناب سہیل وڑائچ کے توسط سے ہوا۔’’جنگ‘‘کیلئے لکھنا شروع کیا تو کراچی میں اشتیاق علی خان اور سید حیدر تقی سے بات چیت ہونے لگی۔ادارتی صفحات کے انچارج اور کالم نگار کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں ہوتے ۔یہ تعلق نند اور بھابھی کے رشتے جیسا کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔چونکہ مجھے اخبارات کے تقریباً تمام شعبہ جات میں کام کرنے کا تجربہ ہے اوربذات خود ایڈیٹوریل انچارج رہا ہوں اس لئے ادارتی صفحات کے ذمہ داران کی مشکلات ،مسائل اور مجبوریوں کا بخوبی اِدراک ہے ۔ایک بار مرحوم اشتیاق علی خان نے کہا ،آپ واحد کالم نگار ہیں جن کی طرف سے کبھی یہ شکایت نہیں آتی کہ کالم یہاں کیوں لگایا،وہاں کیوں نہیں لگایاورنہ قدآور شخصیات گلہ کرتی ہیں کہ آپ نے ہمیں فلاں کے قدموں میں پھینک دیا۔اشتیاق علی خان کی وفات کے بعد ’’جنگ‘‘کراچی میں ادارتی صفحات کی ذمہ داریاں سید حیدر تقی نے سنبھال لیں تو ان سے پیشہ ورانہ تعلق جلد دوستی میں بدل گیا۔ایسے منکسر المزاج انسان تھے کہ برسہا برس محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ کتنے بڑے ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ایک روز کسی اور دوست نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ حیدر تقی جنگ کے سابق مدیر سید محمد تقی کے صاحبزادے ، رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے بھتیجے ہیں۔ریاستی جبر اور اظہار رائے پر پابندیوں کے ایک دور میں میرے کالم شائع کم ہوتے تھے اور ناقابل اشاعت زیادہ قرار پاتے۔چنانچہ تقی صاحب نے مجھے ’’باغی‘‘کا خطاب دے ڈالا۔جب بھی کلام کرتے ،ہنستے ہوئے پوچھتے ،سنائیں جناب! بغاوت جاری ہے؟بذلہ سنج مگر نہایت حساس طبیعت کے حامل زندہ دل انسان تھے ۔ہفتے میں دو بار ٹیلیفون پر بات ہوتی ۔تہذیب و شائستگی سے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہتے،آداب! حضور کیسے مزاج ہیں؟کالم کب تک بھجوائیں گے۔مجھے چونکہ رت جگے کی عادت رہی ہے اس لئے مقررہ دن سے پہلے ہی رات کے کسی پہر کالم بھجوا دیا کرتا تھا ۔بلاتوقف شکریے کا پیغام وصول ہوتا۔کبھی تاخیر ہوجاتی تو ان کی مدھم مگر تیز آواز سنائی دیتی ۔کبھی کوئی مصروفیت آڑے آجاتی تو میں کہتا ،تقی صاحب ! آج معذرت قبول فرمائیں۔بسااوقات وہ رخصت عنایت کردیتے تو کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان کے اصرار کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑتے۔وہ کہتے ،آج کوئی جاندار کالم نہیں ہے ،آپ اس طرح کریں کچھ وقت لے لیں،میں انتظار کرلیتا ہوں مگر کالم بھجوائیں ضرور ۔

کئی بار کالم پڑھ کر موقع محل کی مناسبت سے شعر سناتے تو امروہہ کے سید خاندان کی ادبی چاشنی محسوس ہوتی۔ اپنے خاندان کے دیگر افراد کے برعکس معاشی طور پر خوشحال نہ تھے ،مگر پھربھی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لایا کرتے تھے۔کبھی نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کی۔نثر یا نظم میں طبع آزمائی سے گریز پارہے شاید اپنے خاندان کی عزت پر حرف آنے سے ڈرتے تھے ۔چونکہ اپنے رفقا کی صلاحیتوں اور استعداد کار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اس لئے کبھی بین السطور بات کہہ کر چکمہ دینے کی کوشش جاری رہتی ۔ایسی ہی ایک شرارت میں نے تب کی جب جنرل فیض حمید کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔یہ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے کی بات ہے تب وہ بطور میجر جنرل آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کے سربراہ تھے اور ’’پروجیکٹ عمران‘‘کی تکمیل کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال رکھی تھی۔ان کا نام لینا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔میں نے ’’سیاسی بندوبست اور مقام فیض ‘‘کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب میجر جنرل احتشام ضمیر کی ٹیلیفون کال موصول ہونے کے بعد لوگوں کے ضمیر جاگ جایا کرتے تھے اب نجانے کس کا ’فیض‘ ہے۔یہی اصطلاح میں نے کالم میں تین چار بار استعمال کی۔

سہیل وڑائچ صاحب ملک سے باہر تھے اور مجھے یقین تھا کہ ادارتی صفحات کے نگرانوں میں سے کوئی بھی اس باریک واردات کا سراغ نہیں لگاسکے گا اور یہ کالم چھپ جائے گا۔صبح آنکھ کھلتے ہی موبائل فون پر اخبار دیکھنے کی عادت تھی۔پہلے میں نے ویب سائٹ کھولی پھر ای پیپر نکالا مگر مجھے اپنا کالم کہیں دکھائی نہ دیا البتہ ایک غیر معمولی بات یہ تھی کہ حسن نثار کا کالم صفحہ دو کے بجائے ایڈیٹوریل پیج پر لگا ہوا تھا۔میں نے حیدر تقی صاحب کو کال کی اور پوچھا کیا ہوا،میرا کالم نہیں لگا؟تقی صاحب نے کہا ،نہیں جناب لگا ہوا ہے ،سب سے اوپر جہاں عطاالحق قاسمی صاحب کا کالم شائع ہوتا ہے وہیں آپ کا کالم لگاہوا ہے۔میں سمجھ گیا کہ اصل کہانی کیا ہے ۔لہٰذا شکریہ ادا کرکے اخبارات کی فائل منگوائی تو ادارتی صفحے پر میرا کالم پورے طمطراق کے ساتھ موجود تھا البتہ ویب سائٹ اور ای پیپر سے ’’لاپتہ ‘‘ہوچکا تھا۔اس واردات کے بعد تقی صاحب مزید محتاط ہوگئے اور مجھے خطرناک باغی قرار دیتے ہوئے کالم کی خصوصی اسکریننگ شروع کردی ۔

سید حیدر تقی طویل عرصہ سے علیل تھے مگر انہوںنے نہ تو دفتر کے معمولات میں کوئی تبدیلی آنے دی اور نہ ہی اپنے دوستوں اورخیرخواہوں کو یہ محسوس ہونے دیا کہ وہ ایک لاعلاج مرض سے برسرپیکار ہیں۔آخری بار ان سے عید کے دوسرے دن بات ہوئی تو نقاہت کے باوجود ویسے ہی ہشاش بشاش دکھائی دیئے۔مگر 21اپریل 2024ء کو خبر ملی کہ حیدر تقی داغ مفارقت دیکر کوچ کرچکے ہیں۔ان کے چچا جون ایلیا نے اپنے بھتیجے سے متعلق لکھا تھا:

باد صبا بتادے، حیدر میاں کہاں ہیں

وہ جان جاں کہاں ہیں، وہ جانانِ جہاں کہاں ہیں