لاکٹ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے

May 05, 2024

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ 2009ء کی بات ہے، جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ اُس دور میں بے روزگار ماسٹرز نوجوانوں کے لیے ’’نیشنل انٹرن شپ‘‘ کے نام سے ایک سال کی انٹرن شپ کا پروگرام شروع کیا گیا، جس میں میرا نام بھی شامل ہوا۔ مَیں چوںکہ بچپن ہی سے استاد بننا چاہتی تھی، تو اپنے شوق کے سبب، جب میری ڈیوٹی ملیر میں موجود سعود آباد گورنمنٹ گرلز کالج میں لگائی گئی، تو مَیں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میرا مضمون، سیاسیات تھا، جس سے طلبہ کی ویسے ہی جان جاتی ہے۔ پھر اُس وقت اُس کالج میں مذکورہ مضمون کا کوئی باقاعدہ پروفیسر یا لیکچرار بھی موجود نہیں تھا، تو مَیں تو کالج کی طالبات کے لیے گویا اُمید کی کرن بن گئی۔

عموماً کالج کے اساتذہ عمر رسیدہ اور سنجیدہ مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ نیز، مطالعہ پاکستان یا سیاسیات جیسے مضامین بھی انھیں کچھ خشک مزاج سا کردیتے ہیں، مگر مَیں نسبتاً کم عمریا یوں کہہ لیں طالبات سے دوچار سال ہی بڑی تھی۔ نرم لب و لہجہ، سنجیدہ مزاج، لیکن لڑکیوں کی احساسات کو محسوس کرنے والی، مسکراکر اپنی ہر بات کہہ دینے والی۔ اور شاید میری ان ہی خصوصیات کی وجہ سے ساتھی کولیگز حسد کا شکار ہوگئیں، لیکن کالج کی طالبات مجھ سے بے حد متاثر تھیں۔

آج بھی اگر وہ وقت یاد کرتی ہوں، تو کئی ایک کے نام اور چہرے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، مثلاً علینا آزاد، مہ وش، مالکہ، پری آب، رابعہ، زویا سلیم، ذکیہ اور وہ پیاری سی معصوم شکل و صورت والی لڑکی، جس کا نام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ لاکٹ کا واقعہ اسی ان جان لڑکی ہی سے متعلق ہے۔ جانے وہ کیوں مجھ سے اس قدر متاثر تھی، مجھے دیکھ کے کِھل سی جاتی تھی، جہاں مجھے دیکھتی، وہیں آجاتی، دیگر طالبات کی طرح مسکے لگاتی، نہ زیادہ باتیں کرتی، بس چپ چپ سی رہتی۔

انٹرن شپ کا وہ سال بہت جلد، لیکن اچھا گزرگیا۔ اور پھر..... ہمارے اعزاز میں دی گئی وہ الوداعی پارٹی تو میری زندگی کی خوب صورت ترین پارٹی تھی۔ سب طالبات بہت مزے مزے کے کھانے، لوازمات بناکرلائی تھیں، مہ وش کی امّی کے ہاتھ کے دہی بڑے تومجھے آج تک یاد ہیں اور اس موقعے پر دیئے گئے تحفے تحائف آج پندرہ سال گزرنے کے باوجود میرے پاس محفوظ ہیں، اُن ہی میں سے ایک یہ لاکٹ بھی ہے، جو اُس پیاری سی لڑکی نے مجھے بہت ڈرتے ہوئے انتہائی ادب سے دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’آپ مجھے جتنی اچھی لگتی ہیں، یہ لاکٹ بھی اتنا ہی اچھا ہے، گولڈ تو نہیں، مگر یہ کبھی سیاہ نہیں ہوگا۔‘‘ اُس کی اس سادگی پر مجھے بے انتہا پیار آیا تھا۔

آج اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود وہ لاکٹ میرے پاس یوں ہی بِنا کسی حفاظت کے، جوں کا توں موجود ہے۔ مگرنہ سیاہ پڑا، نہ خراب ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری اس معصوم سی طالبہ کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میںرکھنا، اُس کی سادگی و معصومیت ہمیشہ قائم رہے۔ اُسے زندگی میںکبھی کسی دکھ، تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، آمین ۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، ملیر، کراچی)