• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

مجھے ٹرین کا سفر آسان، سستا اور آرام دہ لگتا ہے، اس لیے جب بھی پنڈی جاتی ہوں، ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتی ہوں۔ ہر بار سفر کے دوران کوئی نہ کوئی کہانی بھی سننے کو مل جاتی ہے۔ زیرِنظر واقعہ لاہور سے پنڈی کے سفر کے دوران مجھے ایک خاتون نے سنایا، جواُن ہی کی زبانی نذر کررہی ہوں۔

’’میرا تعلق لاہور کے علاقے گلبرگ سے ہے۔ میں اپنی بڑی بہن کے گھر جہلم جارہی ہوں۔ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور ایک پرائیویٹ اسپتال میں ملازم ہیں، شام کو اپنا کلینک بھی کرتے ہیں، جہاں سے رات گئے گھر لوٹتے ہیں، جب کہ مَیں ایک ایڈورٹائزنگ ایجینسی میں ملازمت کرتی ہوں، جہاں صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک میری ڈیوٹی ہوتی ہے۔ میرے دو بچّے ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹا، ساتویں جماعت میں اور بیٹی، دوسری جماعت میں پڑھتی ہے۔

گھر اپنا ہے۔ اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ ہے، بہت اچھی گزربسر ہورہی ہے۔ میرے گھر میں ایک ملازمہ پانچ چھے سال سے گھریلو کام کاج کے لیے آتی تھی۔ اس کی شادی ہوگئی، تو مجھے پریشانی ہونے لگی۔ ملنے جلنے والوں سے ذکرکیا، تو آخر ایک ملازمہ کا بندوبست ہوگیا۔ اُسے کام پر رکھنے سے قبل چند ضروری باتیں پوچھیں، تو اُس نے بتایا کہ والدین کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ اپنی خالہ کے پاس ایک گائوں میں رہتی ہے۔ مجھے وہ سیدھی سادی سی لڑکی اچھی لگی، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ میری بھول تھی۔

مَیں نے کوٹھی کے سرونٹ کوارٹرمیں اُس کی رہائش کا بندوبست کردیا۔ وہ صبح آٹھ بجے آجاتی، ناشتا تیار کرتی، برتن وغیرہ دھوکر، گھر کی صفائی سے فارغ ہوکر چھوٹا موٹا سودا بھی لادیتی۔ دوپہر کا کھانا مَیں خود تیار کرتی، البتہ شام کی چائے اوررات کا کھانا وہی پکاتی اور کام نمٹانے کے بعد اپنے کوارٹر میں چلی جاتی۔ اُسے میرے گھر کام کرتے ہوئے ایک سال ہوگیا تھا۔ ایک دن میری بیٹی نے بتایا کہ ’’ماما! جب آپ آفس جاتی ہیں، تو باجی آپ کی الماری سے آپ کے سوٹ نکال کر پہنتی ہیں۔‘‘ 

مجھے اُس کی اس حرکت پر ہنسی آگئی۔ بڑے پیار سے اُس سے کہا ’’اگر تمہیں ان کپڑوں میں سے کوئی سوٹ پسند ہے، تو لے لو۔‘‘ میرے پڑوس میں مقیم میاں بیوی بھی ملازمت کرتے تھے۔ پھر ایک دن میری ہم سائی میرے گھر آئی اور اس نے جو انکشافات کیے، میرے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اُس نے بتایا کہ ’’جب آپ آفس اور آپ کے بچّے اسکول چلے جاتے ہیں، تو آپ کے شوہر گھر آجاتے ہیں۔ آپ کی ملازمہ نیا جوڑا پہن کر اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر کہیں جاتی ہیں۔ شروع میں تو ہم نے خیال نہیں کیا، لیکن جب روز روز یہ معاملہ ہونے لگا، تو مَیں نے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھاکہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے چل رہا ہے۔‘‘ 

مَیں یہ سب سن کر سکتے میں آگئی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ بہرحال، پڑوسن ہی کے مشورے سے آفس سے ایک ہفتے کی چھٹی لے کر سارا دن گھر میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران مَیں نے محسوس کیا کہ وہ بڑی بے چین سی رہتی ہے، کام کاج بھی بے دلی سے کرتی ہے، مجھ سے روزانہ پوچھتی، ’’باجی! آپ کب سے آفس جائیں گی؟‘‘ ایک رات جب وہ اپنے کوارٹر میں چلی گئی، تو مَیں نے ہمّت کرکے اپنے شوہر سے کہا کہ ’’ملازمہ کا دھیان کام پر نہیں لگ رہا، وہ کام بھی صحیح نہیں کررہی، لہٰذا اسے واپس گائوں بھیج دیں۔‘‘ 

یہ سنتے ہی شوہر نے چونک کر میری طرف دیکھا اور فوراً کہا ’’نہیں، نہیں، یہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں، اسے کہیں بھیجنے کی۔‘‘ اُن کے اس جواب پر مَیں نے اُن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ بھانپ گئے تھے کہ مَیں کچھ انکوائری کرنا چاہتی ہوں۔ کہنے لگے،’’اصل بات بتاؤ، کیا پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہمسائی کی بتائی ہوئی بات بتادی، تو گرج کر بولے، ’’ہاں ایسا ہی ہے، مَیں اُس سے شادی کررہا ہوں، پرسوں نکاح ہے ہمارا۔‘‘

شوہر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر مَیں توسکتے میں آگئی، غم اور دکھ کی کیفیت میں کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آگئی اور دیر تک روتی رہی۔ پھر خیال آیا، اپنے ربّ سے التجا کرنی چاہیے، وہ غفورالرحیم کوئی راہ سجھادے گا۔ مَیں نے جائے نماز بچھائی اور سجدے میں گرکر رورو کردعائیں مانگنے لگی کہ ’’یااللہ! میری مدد کر، میرے شوہر کو ہدایت دے، کوئی کرامت کردے کہ اس عورت سے ہماری جان چھوٹ جائے۔‘‘ نہ جانے کب تک میں اسی طرح روتی، گڑگڑاتی رہی، اسی بے چینی میں رات بیت گئی۔ 

صبح میرے شوہر ناشتا کیے بغیر اسپتال اور بچّے اسکول چلے گئے۔ ساری رات رونے کی وجہ سے میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ ملازمہ پورے دن نظر نہیں آئی، اس کے کوارٹر میں بھی تالا تھا۔ مجھے طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے کہ پتا نہیں میرے شوہر نے نکاح کرلیا ہوگا اور اس کم بخت کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا ہوگا۔ 

میرے اللہ! میں کیا کروں۔ اسی کش مکش میں تھی کہ اگلے روزشوہر گھر آگئے، ان کا رنگ اُڑا ہوا تھا، شرمندہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے، پھر یک دم میرے قدموں میں گرگئے۔ مجھے یہ سب ڈراما لگا، مَیں نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور روتے ہوئے کہا، ’’اب کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟‘‘ انھوں نے میری طرف محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’مجھے معاف کردو، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت بڑی مصیبت سے بچالیا۔ میں اس لڑکی کی محبت میں بری طرح پھنس چکا تھا۔ 

کل جب ہم نکاح کے لیے کورٹ پہنچے اور وکیل سے بات چیت کررہے تھے کہ ایک آدمی، چھمّو(ملازمہ) کی طرف بڑھا، اُسے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا۔ پھر اسے بڑی غلیظ غلیظ گالیوں سے نوازنے کے بعد اس شخص نے مجھے بتایا کہ ’’یہ میری بیوی ہے، ہم اسے ایک سال سے تلاش کررہے تھے۔ یہ اپنے ایک سال کے بچّے اور میری بوڑھی ماں کو چھوڑ کر گھر سے زیور لے کر فرار ہوگئی تھی۔ مَیں نے اِسے بہت تلاش کیا۔ آج مَیں اپنی زمین کے کچھ کاغذات بنوانے عدالت آیا، تو اتفاق سے یہاں یہ نظر آگئی۔‘‘ پھر اُس کا شوہر اسے بازو سے پکڑ کر لے جانے لگا تو وہ کچھ نہ بولی، پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔‘‘

شوہر کے منہ سے یہ روداد سن کر مَیں سجدے میں گر گئی۔ مجھے اپنی وہ تمام حماقتیں یاد آنے لگیں، جب پہلی بارمَیں نے اس لڑکی کو اپنا سوٹ دیا، اس نے پہنا، تو میرے شوہر نے ہنستے ہوئے کہا، یہ سوٹ تو تم سے زیادہ اس پر سج رہا ہے۔ پھر جب میری بچّی نے بتایا تھا کہ ماما یہ آپ کی الماری میں سے آپ کے کپڑے نکال کر پہنتی ہے۔ تو میں نے ہنس کر بات ٹال دی تھی۔ 

پھر میرے شوہر میرے پکائے ہوئے کھانے کو برا بھلا اور مجھے پھوہڑ کہنے لگے اور چھمو کی تعریفیں کرنے لگے، تو مَیں نے تب بھی غور نہیں کیا۔ پھر ایک کے بعد ایک ایسے کئی واقعات میرے ذہن میں آنے لگے۔ بہرحال، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے میرا گھر اُجڑنے سے بچالیا۔ میری تمام بہنوں سے التجا ہے کہ آپ بھی اپنے شوہروں پر کڑی نظر رکھیں اور اُنھیں خود بھٹکنے کا موقع ہرگز فراہم نہ کریں۔ (سعیدہ جاوید، بلال گنج، لاہور)