• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرقِ وسطیٰ ایک مرتبہ پھر انتہائی خوف ناک فوجی تصادم کی لپیٹ میں آتے آتے رہ گیا کہ جب ایران نے اسرائیل پر براہِ راست ایک بڑا فوجی حملہ کیا۔ ایران نے اِس حملے میں 300 ڈرونز، میزائلز اور کروز میزائلز کا استعمال کرتے ہوئے براہِ راست اسرائیل کی سرزمین کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے، ایران اور اسرائیل کی دشمنی30سال سے بھی زیادہ پرانی ہے، لیکن اِس پورے عرصے میں یہ پہلی بار اس طرح کا دو طرفہ فوجی ٹکرائو ہوا ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِس حملے کی سیاسی سنجیدگی اور فوجی مقاصد کس قدر اہم ہیں۔ 

ایرانی حملہ، یکم اپریل کو کیا گیا اور یہ دراصل شام کےدارالحکومت، دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے کی عمارت پراُس اسرائیلی حملے کے جواب میں ہوا، جس میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب کےمطابق،اُن کےدوسینئر کمانڈرز سمیت سات اہل کار ہلاک ہوئے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پاس دارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سینئر کمانڈر، بریگیڈیئرجنرل محمد رضا زاہدی اوران کے نائب بریگیڈیئر جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی بھی شامل ہیں۔ بہرکیف، ایرانی حملے کے فوری بعد دونوں طرف سے متضاد دعوے کیےگئے۔ ایران کا کہنا تھا کہ اُس نے حملے سےاپنے مقاصد حاصل کر لیے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ درحقیقت اُس کے واضح فوجی مقاصد یا اہداف کیا تھے۔ 

جب کہ اسرائیل اور امریکا کا کہنا ہے کہ 99 فی صد سے زیادہ میزائلزاورڈرونزکوفضا میں اسرائیلی سرحد سے دُور ہی تباہ کردیا گیا۔ ایک فضائی اڈّے کو کچھ نقصان پہنچا۔ تاہم، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ تہران اور لبنان میں حملے کے بعد جشن کا سماں دیکھاگیا۔ ظاہرہےکہ مشرقِ وسطیٰ جیسے حسّاس خطّے میں اتنے بڑے پیمانے پرحملے نے بین الاقوامی سطح پرایک ہلچل سی مچا دی۔ 

سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سےاب کسی جوابی کارروائی سےعلاقائی جنگ نہ چھڑجائے۔غزہ میں لڑائی یا اسرائیلی جارحانہ حملوں کو چھے ماہ ہوچُکے ہیں اور اسرائیلی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں اب تک 40,000 ہزار کے لگ بھگ معصوم شہریوں کی ہلاکت کے اعداد وشمار تو مغربی میڈیا بھی جاری کررہا ہے۔ 

واضح رہے، یہ جنگ، حماس کے7اکتوبر کے راکٹ حملوں کے بعد شروع ہوئی، لیکن اب یہ یک طرفی لڑائی میں تبدیل ہوچُکی ہے، جس میں مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں، لیکن بےدریغ حملے اور معصوم، نہتّی آبادی کو ہلاک کرنے والا اسرائیل ہے، جو ہر روز کی بنیاد پر کارروائی کرتا ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کی۔ ایران کی سپورٹڈ ملیشیاز، جن میں لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثی شامل ہیں، کُھل کر فلسطین کے ساتھ ہیں، لیکن موثر نہیں، کیوں کہ وہ کسی بھی طور اِس جارحیت کو کم کرنے میں ناکام ہیں۔ 

یہ ضرور ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں اوربھوک و افلاس کی صورتِ حال نے اسرائیل پرایک عالمی دبائو ضرور پیدا کیا ہے اوراب اقوامِ عالم متفّق ہیں کہ سیزفائر ہونا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اِس بدترین جنگ کا آغاز صرف اِس لیے کیا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں معصوم شہریوں کے قتلِ عام کے بعد سیزفائر اور اسرائیلی فوجوں کی واپسی ہوجائے؟ یہ صورتِ حال تو اِس خوف ناک جنگ سےقبل بھی تھی۔ 

اسرائیل کے ساتھ امریکا، برطانیہ، یورپی ممالک اورباقی مغربی دنیا پہلے بھی کھڑی تھی اور اب ایران کے حملے کے بعد تو وہ اور کُھل کرسامنے آگئے ہیں، کیوں کہ اب دنیا کی توجّہ غزہ کی طرف سے کسی حد تک ہٹ گئی ہے اورسب ایران، اسرائیل کےکسی مزید تصادم کو رُکوانے پر کمربستہ ہیں۔ گرچہ ایران نے حملے کے بعد اعلان کیا کہ قصّہ ختم ہوا، کیوں کہ اُس نے دمشق میں ہونے والے حملے کا انتقام لے لیا ہے، جب کہ اسرائیل کا کہنا ہےکہ وہ اپنے وقت پراِس جوابی حملےکا پھرجواب دے گا۔ 

جواباً ایران نے بھی وارننگ دی ہے کہ اِس کے نتائج خوف ناک ہوں گے۔ اِسی ضمن میں سلامتی کائونسل کا ایک اور بےنتیجہ اجلاس بھی ہوا، جس میں غزہ کےبجائے، ایرانی حملےکا معاملہ ہی زیرِبحث آیا، جب کہ امریکا نے دنیا کے امیر ترین ممالک کی تنظیم جی۔ سیون کا اجلاس بلالیاہےاورجس نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کوجذبات سے زیادہ دماغ استعمال کرنے کو کہا گیا ہے، یعنی تحمّل سے کام لینے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن اِس سارےمعاملے میں اصل نقصان اُن معصوم، بے گناہ، نہتّے اہلِ غزہ کا ہورہا ہےکہ جو ہنوز قتلِ عام کے شکار، موت و زندگی کی کشمکش میں، انتہائی تکلیف و اذیّت سے، بےسروسامانی سے دوچار ہیں۔ ہر روزبےقصور مارے جا رہے ہیں اور دنیا نےاُن کی طرف سے آنکھیں بھی بند کر لی ہیں۔

فوجی اعتبار سے دیکھا جائے، تو یہ حملے اسرائیل اور ایران کی فوجی قوّتوں کے مظاہرے تھے۔ لیکن آئیے، پہلے ایران اور اسرائیل کی جیواسٹریجک پوزیشن پرنظرڈالتے ہیں۔ اسرائیل کی آبادی 90 لاکھ، جب کہ ایران کی آبادی نو کروڑ کے لگ بھگ یعنی اُس سے دس گنا زائد ہے۔ ایران اوراسرائیل کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہےاور اِن دونوں ممالک کے درمیان عراق، شام، اُردن اور فلسطینی ریاستیں آتی ہیں۔ 

دونوں ممالک سمندری پورٹس رکھتے ہیں۔ ایران، دنیا کی اہم آبی گزرگاہ، آبنائے ہرمز کے کنارے واقع ہے، جس سے دنیا کے تیل کا بڑاحصّہ اور مال بردار جہاز گزرتے ہیں اور یہاں کسی بھی قسم کی رکاوٹ، تجارتی دنیا کے لیے بھونچال کا سبب بن جاتی ہے۔ اسرائیل کی بندرگاہ، حیفہ، نہرِ سوئیز پر واقع ہے۔ یہ اپنے زمانے میں بحرِروم میں داخل ہونے کا سب سے قریبی اور اہم راستہ تھی اور اِس پر دو عرب، اسرائیل جنگیں بھی ہو چُکی ہیں۔ اسرائیل نے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے انتہائی طاقت وَراورجدید فوجی قوّت ہی تیار نہیں کر رکھی، بلکہ وہ موثراقتصادی طاقت کا بھی حامل ہے۔ 

ٹیکنالوجی کے ضمن میں بھی وہ علاقے میں سب سے آگے ہے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں اُس کی ٹیکنالوجی کی خریدار ہیں۔ اس کے فوجی نظام میں عام ’’لام بندی‘‘ ہے، یعنی ہرشہری لازمی طورپرفوجی بھی ہےاور دورانِ جنگ، اُس کا فوج کا حصّہ بن جانا لازم ٹھہرتا ہے، جن میں مرد و خواتین کی کوئی تفریق نہیں۔ اسرائیل نے ہمیشہ فضائی فوجی کارروائی کو اپنی دفاعی اسٹرٹیجی کی بنیاد بنایا اور 1967ء کی عرب،اسرائیل جنگ میں اپنی فضائی قوّت کے بھرپور استعمال ہی سے تین محاذوں کو بیک وقت نشانہ بنا کرجنگ جیتی۔ اِن میں مصر، شام اور اُردن کے محاذ شامل تھے۔ 

یاد رہے، اسرائیل نےپہلے چندگھنٹوں ہی میں عرب ممالک کی تمام فضائی طاقت کو اُڑنے سے قبل ہی رَن وے پر تباہ کر کے جنگ جیت لی تھی اور یہی وہ جنگ تھی، جس میں پورے یروشلم پراُس کا قبضہ ہوا۔ اُس نے گولان کی پہاڑیوں، ویسٹ بینک، غزہ اور شرم الشیخ پرتسلّط حاصل کیا۔ بعدازاں، کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کےذریعےیہ علاقے واپس ملے اور ویسٹ بینک اور غزہ پر فلسطین اسٹیٹ بنی، جب کہ اس حوالے سے فلسطین کی محاذِ آزادی کے رہنما، یاسر عرفات نے مرکزی کردار ادا کیا۔ آج فوجی ٹیکنالوجی میں انقلاب آچُکا ہے۔ 

آج میزائلز بلکہ ڈرونز کا دَور ہے، جو بغیر انسانوں کے کام کرتے ہیں۔ آرٹی فیشل انٹیلی جینس اِس کی روحِ رواں ہے اوراِسی لیے جنگوں میں کسی انسان کے بغیر اسلحہ استعمال کیاجارہا ہے، جن میں ڈرونز اور ہائپرسونک میزائلزشامل ہیں۔ علاوہ ازیں، سائبر حملےعام ہیں اور اُن سے ہرطرح کی تنصیبات کوناکارہ بنایاجاسکتاہے۔ جیسے آپریشن اولمپکس گیمز کے ذریعے نطنزکےایرانی ایٹمی پلانٹ کو 2010ء میں نشانہ بنایا گیا۔ ڈرونزاورہائپرسونک میزائلزحملوں میں انسان براہِ راست موجود نہیں ہوتے۔ 

دوم، اِن کے ذریعے طویل فاصلوں سے بھی حملہ ممکن ہے، جیسے13اپریل کے حملے میں ایران نے ایک ہزار میل کے فاصلے سے ڈرونز اور میزائلز لانچ کیے۔ اسرائیل نے ان فضائی ہتھیاروں کے مقابلے کے لیے بھی ایک انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام بنا رکھا ہے، جو تہہ در تہہ کام کرتا ہے۔ اِس میں ڈیوڈ سلنگ سسٹم یعنی دائودؑ کی غلیل، آئرن ڈوم سسٹم، ایرو سسٹم اور پیٹریاٹ اولیزربیم سسٹم شامل ہیں۔ 

یہ تمام سسٹمز، آنے والے حملہ آور ہتھیاروں کے فاصلوں کی آٹومیٹک پیمائش کرکے اُنہیں سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کردیتے ہیں، جیساکہ اس مرتبہ ایرانی ڈرونز اور میزائلز سے متعلق اسرائیل اور امریکا کا دعویٰ ہے۔ ایران کا ائیرڈیفینس سسٹم ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اوریہ کہنا مشکل ہےکہ اِس کی فوجی صلاحیت کس حد تک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں رُوس اس کی معاونت کررہا ہے۔ اسرائیل کی ائیرفورس میں جدیدطیارے شامل ہیں، جن میں ایف۔ 16سے، ایف۔18 اور ایف۔ 35 اسٹیلتھ طیارے تک شامل ہیں۔ یہ طیارےایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت سے بھی لیس ہیں۔ اِن میں سے ایف۔35 تو امریکا نے بھی جنگ میں استعمال نہیں کیا، لیکن اسرائیل کرتا ہے۔ ایرانی فوج کی تعداد پانچ لاکھ ہے، جس میں سےڈیڑھ لاکھ توپاس دارانِ انقلاب پرمشتمل ہے۔ ایران کے پاس 3000 سے زیادہ میزائلز ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اُن میں ہائپر پرسانک میزائل بھی شامل ہے، جوانتہائی نیچی پرواز کر کے کسی بھی ریڈار کو دھوکا دے کربرق رفتاری سے ہدف تک پہنچ کے تباہی مچا سکتا ہے۔ 

اِس کے علاہ اس کے چھوٹے اورمیڈیم رینج کے میزائیل خودکار طور پر دھماکا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھرایران کےپاس جدید ڈرونز ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جنہیں وہ خُود بناتا ہے اور یہ اپنی ملیشیاز، حوثیوں اورحزب اللہ کو بھی فراہم کرچُکا ہے، جب کہ اِن میں سے کچھ وہ رُوس کو بھی دے چُکا ہے، جسے اُس نے یوکرین جنگ میں استعمال کیا۔ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے، لیکن غیرعلانیہ طور پر، جب کہ ایران کے پاس ابھی ایٹم بم نہیں ہے۔ اوباما دَور کے بعد اپنی خراب معیشت کی بنا پراُس نے یورینیم افزودگی پر پابندی قبول کرلی تھی، لیکن ٹرمپ نے اُس ڈِیل کو منسوخ کردیا۔ کہا جاتا ہے، اب وہ افزودگی کالیول بہت بڑھاچُکا ہے۔ تاہم، سرکاری طور پر ایران کا موقف اب بھی یہی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔

ویسے دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے میں اسرائیل کی یہ کوئی پہلی کارروائی نہیں تھی۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اسی طرح ایران کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچا چُکا ہے۔ گو، وہ اِس کا برملا اعتراف نہیں کرتا۔ حالیہ دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے کی تباہی کی کارروائی پر بھی اُس کا یہی موقف رہا۔ حالاں کہ وہ اِس سے پیش تر ایسی کئی کارروائیاں ایران کے باہر اور ایران کے اندر بھی کر چُکا ہے۔ جیسا کہ 2010ء میں ’’اولمپک گیمز‘‘ نامی آپریشن کے ذریعےایران کا، نطنز کا پلانٹ سائبر حملوں کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا۔ 

شام اورعراق میں ایرانی تنصیبات پر بار بار حملے کیےگیے۔ ایسی ہی کارروائیوں میں سب سے اہم، ایک ڈرون حملے میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت تھی، جو اُس وقت عراق میں موجود تھے۔ بظاہر وہ امریکی حملہ تھا، لیکن اس میں امریکا کی معاونت اسرائیل ہی نے کی۔ پھر دو سال قبل ایران کے سب سے اہم ایٹمی سائنس دان کی ڈرون روبوٹ حملےمیں ہلاکت، جو تہران کی عام شاہ راہ پر دن دھاڑے ہوئی۔ اِسی طرح کوئی سال بھر پہلے نطنز کے پلانٹ پردوبارہ حملہ۔ لیکن ایران نے اِن سب کارروائیوں کا جواب کبھی اپنی سرزمین سے نہیں دیا۔ 

وہ اپنی سپورٹڈ ملیشیاز ہی کے ذریعے جوابی کارروائیاں کرتا رہا۔ تو پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران نے 13 اپریل کی صبح اتنےبڑے پیمانے پراسرائیل پر براہِ راست اپنی سرزمین سے حملہ کیوں کیا۔ اوراِس کا اصل مقصدکیا تھا۔یہ جاننااس لیے بھی ضروری ہےکہ اس کے جواب سے سارے اردگرد کے ممالک کامستقبل مشروط ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک کا، جن سےچینی ثالثی کے تحت دوستی کے بعد، ایران کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ دراصل ایران کا یہ حملہ جوابی حملے کے طور پر کیا گیا۔ 

دمشق میں ہونے والے حملے کو ایران نے اپنی سالمیت کے خلاف کارروائی قرار دیا، حالاں کہ جیسے بتایا گیا کہ اسرائیل اس سے قبل ایرانی تنصیبات اور افراد کو سال ہاسال سے نشانہ بنا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ جواب اِسے ایرانی پراکسیزہی کی طرف سے دیاجاتا رہا، لیکن اس مرتبہ ایران نے اِسے اس لیے ضروری سمجھا، کیوں کہ اُس نے حماس کے 7 اکتوبر کے حملے پر اُسے پر بہت شاباش دی تھی۔

اُس کےحق میں کئی بیانات جاری کیے، لیکن کسی کارروائی میں کوئی حصّہ نہیں لیا بلکہ الزامات کی تردید کرتا رہا۔ صرف اس کی ملیشیاز ہی اِکّا دُکّا حملے کرتی رہیں، جن سے کوئی خاص نقصان اسرائیل یا مغربی مفادات کا ہوتا نظر نہیں آیا، تو ایران نے اس حملے سے ان ملیشیاز کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب بھی طاقت وَر ہے اور اسرائیل سے اورمغربی طاقتوں سے ٹکرانے کی ہمّت رکھتا ہے۔ دوسری طرف اُس نے اپنے عوام کو بھی یہی پیغام دیا۔ ایران میں گزشتہ سالوں میں کافی بے چینی دیکھنے میں آئی۔ گو اُس کی بنیادی وجہ ایران کی کم زورمعیشت ہے،جو پچھلی دودہائیوں کےعرصے میں کسی طورسنبھل نہیں پا رہی۔ 

اُس پر سخت قسم کی مغربی پابندیاں ہیں۔ وہ دنیا کا تیل پیدا کرنے والا ساتواں بڑا مُلک ہے۔ تاہم، اِن پابندیوں کے سبب اوپن مارکیٹ میں تیل نہیں بیچ سکتا۔ اُس کی کرنسی مسلسل زوال پذیر ہے، جواِس حملے سے قبل تقریباً 42000ریال فی ڈالر تھی۔ حملے کے بعد اِس میں مزید دس فی صد کمی آئی ہے۔ اس کےعلاوہ ایران میں افراطِ زرناقابل برداشت حد تک بلند ہے، جو 40 فی صد تک ہے اور اِس میں بھی مزید اضافہ ہوسکتا ہے، اگر خدانخواستہ کوئی جنگ شروع ہوجاتی ہے )یاد رہے، پاکستان میں افراطِ زر 28 فی صد ہے اوراُس نےعوام کی چیخیں نکلوادی ہیں)۔ 

ایران میں بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔ ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ ایران کےاس حملے کا غزہ کے جاری معاملے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی اُس نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے۔ سو، اِسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ خُود ایران کا کہنا ہے کہ یہ حملہ، صرف دمشق حملے کا حساب برابر کرنے کے لیے تھا۔ اب تک غزہ میں تقریباً 40000 شہری ہلاک ہوچُکے ہیں، جب کہ 1,50000 سے زیادہ زخمی ہیں۔ 

اس جنگ کوشروع ہوئے چھے ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچُکا ہے۔ اگر ایران کو غزہ میں ہونے والےاسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہوتی، تو کیا وہ چھے ماہ اور اتنی ہلاکتوں کے بعد کرتا۔ اِسی لیے ایران کے حملے کے بعد صرف دو مسلم مُلکوں نے اِس کی حمایت کی۔ ایک شام نے، جہاں ایران نے بشارالاسد کے اقتدار کی برقراری کے لیے کُھل کر رُوس کاساتھ دیا۔ بشارالاسد کی فوج کے ساتھ مِل کر، اُس کی اپنے شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں حصّہ لیا، جس کے نتیجے میں شام میں پانچ لاکھ شہری ہلاک اور ایک کروڑ کے لگ بھگ بےگھر ہوئے۔ 

سارا مشرقِ وسطیٰ عدم استحکام سے دوچار ہوا۔ دوسرے افغانستان نے، جس کو خُود کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا اور جس کی اپنی معیشت مکمل طور پر تباہ و برباد ہے۔اب تک اسرائیل کےمقابل عرب ممالک ہی رہے اور چار جنگیں فلسطین کے مسئلے پر لڑیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی غیرعرب طاقت نے اسرائیل پر حملہ کیا، لیکن یہ دوطرفہ معاملہ تھا اور محض ایک انتقامی کارروائی، اسی لیے عرب ممالک کی طرف سے بھی حمایت میں کوئی خاص بیانات نہیں آئے۔ یہی صورتِ حال دیگرمسلم ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب ایرانی حملےکوایران اوراسرائیل کے دو طرفہ تنازعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

حماس نے جب اکتوبر میں اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے، تو اُس کا پہلا فال آئوٹ یہ ہوا کہ عربوں اور اسرائیل میں جو مفاہمت اور تعلقات قائم ہونے جارہے تھے، اُن کو دھچکا لگا۔ اب اِس حملے سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ حماس نے بھی ایران کےکہنے ہی پر وہ کارروائی کی ہوگی۔ اگر جذبات کی رو میں بہے بغیر دیکھا جائے، تو حماس کےحملے کا مسلسل اورشدید نقصان غزہ کے شہریوں ہی کا ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں، ایران کے حمایت یافتہ یمنی حوثیوں، حزب اللہ اور حماس کوبھی جانی اور فوجی نقصان اُٹھانا پڑا، خُود ایران کو یہ حملہ کرنا پڑا تاکہ وہ وہ اپنی ساکھ کو سہارا دے سکے اوراُسے نہ چاہتے ہوئے بھی فوجی تصادم میں کودنا پڑا۔ 

اسرائیل، عربوں کے تعلقات سے متعلق ہر ملک کی اپنی رائے ہوسکتی ہےاور مفادات بھی الگ الگ، لیکن اِس کے محرّکات کو نظرانداز کرنا عرب ممالک سے انصاف نہ ہوگا۔ اگر ایک مُلک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے پر حملہ کرے تو دوسرے کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی جس سے مرضی تعلقات قائم کرے۔ عربوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب وہ جنگ پر جنگ ہار رہے تھے، تو کس بڑی طاقت(اُس وقت سویت یونین سُپر پاور تھا( یا چھوٹے ملک نے اُن کی مدد کی اور کی، تو کیا اُن کو شکست سے بچا سکا۔ 

ہر مُلک اپنی برتری دیکھنا چاہتا ہے۔ جب روس کا مفاد ہوا اُس نے شام کی خانہ جنگی میں فوجی کارروائی کرکے، بم باری کر کے لاکھوں مسلمان شامی شہریوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح اُس نے اپنے مفاد کے لیے اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک یوکرین پر حملہ کر کے ہزاروں شہری ہلاک کیے اور اب بھی اُس کی جارحیت جاری ہے۔ ڈیڑھ سال گزر گیا۔ پیوٹن اس کا جواب کچھ بھی پیش کرسکتے ہیں، لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اس بم باری میں لاکھوں عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے اور شہر کے شہر کھنڈر بن گئے۔ دنیا بھر کے ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، شدید منہگائی کی لپیٹ میں آئے اور یہ عالمی وبا کے منفی اثرات کے فوراً بعد ہوا۔ 

بھاشن دینا، سازشی تھیوریز پیش کرنا، تاریخ اورمذہب کے حوالےدے کر جواز گھڑنا تو بہت آسان ہے، لیکن میدانِ جنگ میں زبردستی جھونکے گئے شہریوں کو ہلاکتوں اور بھوک و افلاس سے بچانا بہت بہت مشکل ہے۔ جب خود پر گزرے، تب ہی آنکھیں کُھلتی ہیں۔ حال ہی میں عالمی وبا میں ساری دنیا نے ایک دوسرے کو آزما کے دیکھ لیا، لیکن کیا سبق سیکھا؟ اب غزہ کے شہریوں کے اِن بدترین بلکہ ناقابلِ بیان حالات سے کون نکالے گا، جو اُن پر گزر رہی ہے، وہی جانتے ہیں۔ کورونا وبا کے بعد کیا تنازعات ختم ہوگئے، جنگیں بند ہوگئیں۔ انسانیت کا احترام ہونے لگا، جان کی حُرمت قائم ہوئی۔ اوراِس بد ترین انسانی المیے کے بعد بھی کچھ تبدیل ہونے والا نہیں، دنیا کے لیے اپنا مفاد ازل سے مقدّم رہا ہے، ابد تک رہے گا۔

ایران نے دمشق حملے کا جواب دے دیا اور اُس نے اعلان کیا کہ اب معاملہ برابر اور ختم ہوگیا۔ لیکن اگر اسرائیل کی طرف سے جواب الجواب میں کوئی حملہ ہوا، تو وہ یقیناً مزید سخت کارروائی ہوگی، جس سے خدانخواستہ مشرقِ وسطیٰ میں تصادم کاخطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اب بال اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔ 

ادھراسرائیل کے مغربی دوست خاص طور پر امریکا، برطانیہ اور جی ۔7 ممالک نے اُسے مشورہ دیا ہے کہ وہ فی الحال کسی براہِ راست کارروائی سے گریز کرے، کیوں کہ ایران نے جس انداز میں یہ حملہ کیا، اُس سے، اُسے کوئی بڑا نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق 99 فی صد ڈرونز اور میزائلز فضا ہی میں تباہ کردئیے گئے اور جو دو چار گرے وہ دور دراز علاقوں میں اور اُن سےکوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اِس لیے ایران پربراہِ راست کسی جوابی فوجی کارروائی کاجواز تلاش کرنا درست نہ ہوگا۔ 

پھر حملے سے 72 گھنٹے قبل ایران نے تمام اہم ممالک اورعلاقائی ممالک کو اِس حملے سے متعلق آگاہ بھی کردیا تھا اور اِسی سبب امریکا، اسرائیل اور دوسرے ممالک نے اپنی دفاعی تیاریاں مکمل بھی کیں۔ تنصیبات پرفورسسز کو ری ڈیپلائے کرلیا گیا تھا، یعنی محفوظ بنا لیا گیا تھا۔ پھرایک ہزار میل سے زیادہ فاصلہ طے کرنے لیے ڈرونز کو جو وقت لگا، اُس میں اسرائیل کے لیے اپنے ائیرڈیفینس سسٹم کو پوری طرح فعال کرنا ممکن ہوگیا اور دوسری طرف اُس کے اتحادی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی باقاعدہ جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار بھی ہوئے اور کام یاب بھی۔ حد یہ کہ اُردن نے بھی ڈرون مار گرائے۔ کئی فوجی ماہرین کے نزدیک یہ حملہ ایک رسمی انتقامی کارروائی تھی، خُود ایران کا بھی تقریباً یہی موقف ہے اور سب کو اِسے مان لینا چاہیے۔

چین نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک بھرپورکوشش کرکےسعودی عرب اور ایران میں جو سفارتی تعلقات قائم کروائے تھے، وہ حماس کے اکتوبر کے حملے بعدآزمائش کا شکارہوگئے۔ ماناکہ اِن اسرائیلی حملوں کے بعد عرب ممالک اوراسرائیل کے تعلقات میں جو تیزی آرہی تھی، وہ زوال پذیر ہوئی، لیکن دوسری طرف عرب، ایران تعلقات کوبھی توزک پہنچی،جوبڑی مشکل کے بعد معمول پر آئے تھے اور جس سے مسلم دنیا کسی حد تک پُرسکون ہوئی تھی۔

عربوں کو پھر لگ رہا ہے کہ ایران، مشرقِ وسطیٰ میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے، خصوصاً سعودی عرب کی لیڈرشپ کے مقابل رہنا چاہتا ہے۔ اور یہ اُنہیں کسی صورت قبول نہیں۔ سو، اِس ضمن میں ایران کو مفاہمت سے کام لینا چاہیے اور آہستہ آہسہ پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اُس کے لیے بہترہے کہ عرب ممالک کا اعتماد حاصل کرے۔ بہت زیادہ ملیشیاز کا استعمال اور وہ بھی اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف، کچھ زیادہ مناسب نہیں۔ عربوں کوپہلے ہی نیوکلیئر ڈیل سے متعلق تحفّظات رہےکہ اِس طرح ایران کو اُن پر فوقیت دی گئی، اُن کو بائی پاس کیا گیا اور غالباً یہی باتیں اُنہیں اسرائیل کےنزدیک لانے کا بڑا سبب بھی بنیں۔ 

اب چین کی ثالثی کے بعد جو سعودی عرب، ایران معاہدہ ہوا تھا، اُسے بہت بہتر اور پُرامن ماحول میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، جس سے علاقے اور خاص طور پرمسلم دنیا کےاتحاد کو فائدہ پہنچے گا۔ ہمیں اس سارےمعاملے کو کسی بھی خاص نظریے سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ اور اقتصادی پیچیدگیوں کے تناظر میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عرب اور ایران دونوں کے اپنے اپنے اتحادی ہیں، اُنہیں فوراً دشمنوں میں تبدیل کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی کوئی دانش مندی۔ ایک دوسرے کے معروضی حالات اور معاشی صورتِ حال کوسمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ 

فلسطین، بہرطور دنیا کےکسی بھی ملک سے زیادہ عرب دنیا کا اندرونی معاملہ ہے اور اُسے اُنہی کے ذریعےطےہونا چاہیے۔ اِس ضمن میں فلسطینیوں کی رائے کوسوفی صد اولیت ملنی چاہیے، کیوں کہ کوئی بھی مفادات کے تحت تھوپا ہوا حل ہرگز دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔ یاسرعرفات جو محاذِ آزادی کے رہنما اور فلسطین کاز کے سب سے بڑے لیڈرتھے، اُنھوں نے اِسے فلسطین اور عربوں سے مل کر ہی طے کرنے کی کوشش کی اور اِسی کے نتیجے میں پہلے قدم کے طور پر فلسطین اسٹیٹ قائم ہوئی، جس کا غزہ بھی حصّہ ہے۔ 

اِس مسئلے میں مسلم ممالک کا مکمل حمایتیوں کا کردارہمیشہ رہا ہے اور ایسا ہی رہنا چاہیے، کیوں کہ فلسطینی عوام کے جائز حق کی حمایت کرنا ہمارا اوّلین فریضہ ہے۔ فلسطینی حقوق کی بات کوہمیشہ ہی دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ زیادہ ترممالک چاہےوہ کسی بھی طرف ہوں، فلسطینیوں کے الگ وطن کی حمایت کرتے ہیں۔ اس حمایت اور ہم دردی کو ہرحال میں جاری رہنا چاہیے کہ اِسی میں فلسطینی عوام کی جیت ہے۔ اِسے دو طرفہ تنازعات کی نذر ہرگزنہیں ہونا چاہیے۔ 

نہ اس معاملے کو کسی بھی مُلک کو اپنی برتری کے لیےاستعمال کرنا چاہیے۔ شام کی خانہ جنگی میں یہی کوشش کی گئی اور نتیجے میں لاکھوں شامی مسلمان شہری ہلاک ہوئے۔ کیا شام کا مسئلہ حل ہوگیا ہے، کیا وہاں اکثریت کو حُکم رانی کا حق مل گیا۔ کچھ جذباتی تجزیہ کار اپنےاپنے فلسفے اور انکشافات کرتے رہتے ہیں، لیکن اُنہیں خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کی نام نہاد فلاسفی کو پاکستان کے مفادات سے نہیں ٹکرانا چاہیے۔ ہم مشرقِ وسطیٰ کے باسی نہیں اور نہ ہی ہماری دنیا میں کوئی ایسی ساکھ ہے کہ ہماری کہیں شنوائی ہو۔

اپنےموجودہ حالات کےتناظر ہی میں دیکھ لیں، ہم پر دبائو ڈالنے کو تو ہر ایک تیار ہے، لیکن ہمارے مفادات اورحالات سمجھنےکوکوئی تیار نہیں۔ اس لیے ہمیں اپنا راستہ خُود نکالنا ہوگا، جس میں ’’سب سے دوستی‘‘ کو اولیت حاصل ہو۔ ہمارے اِس وقت جومعاشی و اقتصادی حالات ہیں، ہم کسی بھی تنازعے کا فریق بننے کے متحمّل ہی نہیں ہوسکتے۔ جب ہم مشرقی پاکستان جیسے الم ناک بحران کا شکار ہوئے، تو کسی نے ہمارے لیے کیا کیا؟ ابھی جب ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے، تو کس کس نے ہمارا ساتھ دیا، یہی سب باتیں ہماری نظر میں رہنی چاہئیں۔ ہمارے عوام کو فی الوقت بہتر معیشت کی ضرورت ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا مفاد ہے۔ 

مشرقِ وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی کےضمن میں،کوئی بھی قدم اُٹھاتےوقت پاکستان کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُس کے تارکینِ وطن کی نوّے لاکھ میں سے ساٹھ فی صد سے زیادہ تعداد عرب ممالک میں ملازمت کرتی ہے، جو آپ کے مُلک کے لاکھوں افراد کے کفیل ہیں۔ کوئی بھی ایسا خطّہ یا مُلک نہیں، جو عرب مُلکوں سے زیادہ ہمارے تارکین کو مواقع فراہم کرتا ہو۔ یہ وہ ٹھوس معاشی فائدہ ہے، جو قیمتی زرِمبادلہ کے ساتھ ہمارے مُلک کی غربت وبے روزگاری کم کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ 

یہ ہماری معیشت کا مستقل اور مثبت جزو ہے۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو اِن تمام ترحقائق کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اُنہیں قوم کو بھی آگاہ رکھنا چاہیے کہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں، جو قومی سالمیت اور مُلکی تعمیر و ترقی سے مشروط ہوتے ہیں، اس لیے صحیح رہنمائی لازماً ہونی چاہیے۔ ہمہ وقت اپنے سیاسی اور نظریاتی مفادات ہی کے تحت قوم کو جذباتی کر کے نہ ماضی میں کچھ حاصل ہوا ہے، نہ آئندہ حاصل ہوگا۔ احتجاج کا حق جمہوریت کا حُسن ہے۔ 

تاہم، کیا تعمیر و ترقی اور عوام کو معاشی طور پرمستحکم کرکے دنیا میں باعزت مقام دینا جمہوری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا فرض نہیں۔ جمہوریت میں تو اصل حُکم رانی اور لیڈرشپ عوام کی ہوتی ہے، پھر اپنے اپنے بُت گھڑ کے اُن کی پوجا کرنا چہ معنی دارد۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر دنیا کی مثالیں دینا اور قوم کو غلط راستوں پر ڈالنا، کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہم نے اِس کا خمیازہ بہت بُھگت لیا، اب مزید نہیں۔

بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں، جن کے تحت وہ کبھی میز کے ایک طرف ہوتی ہیں، تو کبھی دوسری طرف۔ کسی علاقے میں یہ طاقت وَر ہم آہنگ ہوکر چلتے ہیں، تو کہیں دشمنی کا تاثر دیتے ہیں۔ معاشی معاملات میں ان کی وسیع تر مفاہمت ہے، جو سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی دیکھی گئی اور یوکرین جنگ کے بعد بھی۔ اِسی طرح چین اور امریکا کے مفادات مشرقِ وسطیٰ میں کچھ اور ہیں اور مشرقی ایشیا میں کچھ اور۔ افغانستان کے معاملے میں قطرمعاہدے پر یہ سب ایک ساتھ ہیں۔ 

کسی نے بھی طالبان حکومت کو اب تک تسلیم نہیں کیا، کیوں کہ اُس نے امریکی شرائط پوری نہیں کیں۔ امریکا، روس، چین سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیاں تعلقات قائم ہوں اور تجارت شروع ہو۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں مزید علاقوں اور کروڑوں لوگوں کی مسلسل امداد کرنی پڑے کہ اِس کےلیےاُن کی حکومتیں اور عوام راضی نہیں۔ حالیہ غزہ یا ایرانی حملے میں ہمیں کہاں کھڑا ہوناہے، یہ فیصلہ ہمیں خُود کرنا چاہیے۔ دنیا نے اِسے کس طرح برتا، یہ بھی جانچ لیں۔ اصولی موقف سےپیچھےنہ ہٹتے ہوئےاپنی راہیں اس طرح کھولیں کہ بہرکیف پاکستان مقدّم رہے۔

سنڈے میگزین سے مزید