ڈاکو اپنا کردار ادا کریں!

May 03, 2024

ملک میں ڈاکے تو خیر آئے روز ہی پڑتے ہیں چنانچہ اگر کسی شہر میں کسی دن نہ پڑیں تو ڈاکوئوں کو مخاطب کرکے

اے کشتہ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا

والا مصرعہ پڑھنا پڑتا ہے۔ تاہم ایک ڈاکے کی روئیداد جو مجھ تک پہنچی ہے میں اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں کہ اسے قارئین تک پہنچائوں تاہم اس کے واقعات اور ڈاکوئوں کے مکالموں کی ذمہ داری براہ راست راوی پر عائد ہوتی ہے !

راوی کا بیان ہے کہ ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی صاحب خانہ نے دروازہ کھولا تو چھ عدد کمسن نوجوان جینز پہنے اور ہاتھوں میں پستول پکڑے گھر میں داخل ہو گئے اس وقت رات کے صرف آٹھ بجے تھے ۔ڈاکوئوں نے چہرے پر نقاب اوڑھنے کاتکلف بھی نہیں برتا تھا، انہوں نے آتے ہی اعلان کیا کہ گھر میں موجود عورتیں ان کی مائیں بہنیں ہیں لہٰذا انہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اس کے بعد چار ڈاکو اہلخانہ سے چابیاں لیکر کمروں کی تلاشی لینے لگے اور دو ڈاکو ٹی وی لائونج ہی میں رہے ان کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں۔

ڈاکو (گھر کی مالکہ سے )خالہ جی آج کیا پکا ہے ؟

خالہ!بیٹے آلو چاول شام کو پکائے تھے۔

ڈاکو!خالہ جی آلو چاول کا کیا جوڑ ہوا دال نہیں پکائی ؟

خالہ !نہیں بیٹے کہتے ہوتو پکا دیتی ہوں !، ڈاکو! نہیں آپ کو تکلیف ہو گی آلو چاول ہی کھا لیتے ہیں ۔

اس کے بعد دوسرا ڈاکو باورچی خانے میں گیا اور دو پلیٹوں میں کھانا ڈال کر لے آیا کھانا کھانے کے بعد انہوں نے چائے پی اسی اثنا میں باقی ڈاکو گھر کا صفایا کر چکےتھے ۔واپس جاتے ہوئے ایک ڈاکو کی نظر ’’خالہ ‘‘ کے ہاتھ کی چوڑیوں پر پڑی اس نے انہیں مخاطب کیا اور کہا آپ میری ماں کی جگہ ہیں میں آپ کی چوڑیاں اتارتا اچھا نہیں لگتا آپ خود اتار دیں اور خالہ نے چوڑیاں اتار کر ان کے حوالے کر دیں اس ڈاکے کی روئیداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکو کسی اچھے والدین کی اولاد تھے ۔ان کی تمیز داری ان کی بول چال اور ان کے رویئے میں بزرگوں کیلئے جو ادب آداب تھا وہ گھر کی اچھی تربیت کے بغیر ممکن نہیں میں سمجھتا ہوں اس کا کریڈٹ ان کے اساتذہ کو بھی جاتا ہے کیونکہ اگر استاد اچھا نہ ہو تو گھر کی تربیت بھی اپنا پورا اثر نہیں دکھاتی۔ کالج کے اساتذہ کے علاوہ جو شخص ڈاکے کے فن میں ان کا استاد ہے وہ بھی کوئی خاندانی لگتا ہے ورنہ ’’عطائی ‘‘ قسم کے ڈاکو اپنے واہیات طرز عمل سے اہلخانہ پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتے ۔

ان دنوں تو ہر ایرا غیرا ڈاکو بنا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ دوسرے پیشوں کی طرح اس پیشے میں بھی صرف وہی لوگ آتے تھے جو اس پیشے کی اخلاقیات سے واقف ہوتےتھے، متذکرہ بااخلاق ڈاکو اس طبقے کی باقیات میں سے ہیں اللہ انہیں سلامت رکھے۔ دراصل ہمارے ہاں مختلف شعبوں میں مختلف قسم کے ڈاکو برسرعمل ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب اس پیشے کی اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں مثلاً کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنا کوئی بری بات نہیں صدیوں سے شرفاء ایسا کرتے چلے آئے ہیں مگر وہ اس میں مضرصحت اشیاء نہیں ملاتے تھے اب تو تجارت کے پیشے سے وابستہ ڈاکو بھی سب اخلاقیات بھول چکے ہیں چنانچہ اب ایک عرصےسے سرخ مرچوں میں اینٹیں پیس کر ملا دی جاتی ہیں ۔ چائے میں کسی واہیات درخت کی چھال ملا دی جاتی ہے اور مرغی کے گوشت میں چیلوں کا گوشت شامل کر دیا جاتا ہے کچھ قصائیوں کے متعلق سننے میں آیا ہے کہ ان کی دکان کے گردونواح میں کوئی کتا نظر نہیں آتا اگر غلطی سے ادھر آ بھی نکلے تو قصائی پر نظرپڑتے ہی ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح رشوت خور ڈاکو بھی ہماری معاشرتی زندگی کا ہمیشہ سے اٹوٹ انگ رہے ہیں مگر وہ بااصول لوگ تھے وہ کام کے پیسے لیتے تھے اگر کام نہیں ہوتا تھا تو پوری دیانتداری سے پیسے واپس کر دیتے اور معذرت بھی کرتے تھے، اب اس پیشے میں بھی عطائی آ گئے ہیں جو رقم ایک دفعہ آپ کے ہاتھ سے نکل گئی وہ پھر واپس نہیں آتی۔ نیز ناجائز کاموں پر بھی رشوت طلب کی جاتی ہے جو سراسر غیر اخلاقی حرکت ہے!

صرف یہی نہیں بلکہ قومی سطح کے ڈاکوئوں کے رویوں میں بھی غیر اخلاقی رویئے در آئے ہیں پہلے صرف دنیا دار قسم کے سیاست دان اور صاحبان اقتدار عوام کو دھوکے دیتے تھے اب مذہب کے نام پر بھی وارداتیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عوام بہت پریشان ہیں ۔

سو اس صورتحال میں متذکرہ نوجوان ڈاکوئوں کا اپنے پیشے کے اخلاقی تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ایک نہایت خوش آئند امر ہے ،ہمیں چاہئے کہ ایسے نیک دل بااخلاق اور مہذب ڈاکوئوں کی قدر کریں اور انہیں ٹیلی ویژن پر لاکر ان ڈاکوئوں کیلئے نمونہ کے طور پر پیش کریں جو اپنے پیشے کے لیے ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں میں نے اپنے کام میں جن بااخلاق ڈاکوئوں کا ذکر کیا ہے ان کی ڈاکے والے گھر سے ورکنگ ریلیشن شپ اتنی اچھی ہے کہ انکے مطلوبہ مقاصد کوئی ہنگامہ برپا کئے بغیر پورے ہو گئے۔ میرے نزدیک یہ ڈاکو ڈاکوئوں اور شہریوں کے درمیان رابطہ پل کا کام دے سکتے ہیں تاکہ لوٹنے والوں اور لٹنے و الوں میں کشیدگی کم کی جا سکے کہ ان دنوں یہ کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے ۔