سوشل میڈیا گمراہی۔۔۔

May 03, 2024

تحریر: ڈاکٹر رحیق احمد عباسی…لندن
سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو گمراہ کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے نئی نسل اصل حقائق سے آگاہ ہی نہیں اگر آپ کا خیال ہے کہ میں پاکستان کی ہی بات کررہا ہوں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ بیانیہ امریکہ میں اسرائیل نواز لابی پروموٹ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ اسرائیلی فوج اور صہیونی حکومت کیلئے حماس سے ذیادہ خطرناک یورپ اور باالخصوص امریکہ کی نئی نسل کی گمراہ سوچ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے اور اس کی ایک واضح مثال وہ سب کچھ ہے جو گزشتہ کئی دنوں سے امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹیز میں ہو رہا ہے۔ امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے احتجاج کی نئی لہر کا آغاز 18اپریل کو کولمبیا یونیورسٹی سے ہوا۔ یہ یونیورسٹی امریکہ کی ریاست نیویارک میں واقع ہے ، کولمبیا یونیورسٹی کوئی عام یونیورسٹی نہیں بلکہ آئیوی لیگ یونیورسٹیز میں سے ہے جو امریکہ کی صف اول کی جامعات سمجھی جاتی ہیں، کولمبیا یونیورسٹی کے لانز باقاعدہ ٹینٹ لگا کر دھرنا دے دیا۔ کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والا یہ احتجاج امریکہ کے طول و عرض میں بیسیوں یونیورسٹیوں میں پھیل گیا۔ ہاروڈ یونیورسٹی سمیت امریکہ کی صف اول کی پچاس یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی ایسی یونیورسٹی ہو جس میں اس وقت فلسطین کی آزادی کے نعرے بلند نہ ہو رہے ہوں اور احتجاج نہ ہورہا۔اسرائیلی فوج اور صہیونی حکومت کو اس احتجاج سے کیا پریشانی ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے گزشتہ 75 سال سے امریکہ کی اشرافیہ کی اس سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین عنصر ہے، وہ سوچ یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات کا ایک قلعہ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکہ کا ریاستی مفاد ہے۔ اس لئے امریکہ کے اندرونی معاشی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اسرائیل اور اس کی فوج کو فراہم کردہ بجٹ میں کوئی کمی نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ کی مالی فوجی اور سفارتی مدد کے بغیر اسرائیل کیلئے اپنی جارحانہ کارروائیوں کو جاری رکھنا تو درکنار اپنے وجود کو بھی باقی رکھنا مشکل ہے۔ اشرافیہ کی اس سوچ کی دہائیوں سے امریکہ عوام کی بھی تائید حاصل ہے، کیونکہ وہ اسرائیلی شہریوں کو اپنا جیسا جدید آذاد خیال انسان سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک فلسطینی عرب انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں کہ ان کے حقوق کی بات کی جائے، امریکی شہریوں کی معلومات وہ ہی ہیں جو ان کو ٹی وی چینل سے ملتی رہیں یا اخبارات میں پڑھتے رہے، یہ سب نشریاتی ادارے ان ڈیپ پاکٹس کے قبضے میں جن کا سی این این انٹرویو میں عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا تذکرہ کرنا ان جرائم میں سے ایک تھا جس کی پاداش میں 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ ہی الٹوا دیا گیا تھا، لہذا امریکہ کی دنوں بڑی جماعتوں میں اندرونی اور خارجہ پالیسیوں اور افکار میں ہزاروں اختلاف کے باجود اسرائیل کی سرپرستی میں دنوں کی سوچ فکر نظریئے ترجیحات اور اقدامات میں کوئی فرق نہیں، یہ ہے دنیا کی واحد سپر طاقت امریکہ کی صورت حال جس کی آشیرباد اور مکمل ریاستی حمایت اسرائیل کی وجود اور اس کی توسیع کیلئے ناگزیر ہے اور یہ ہی وہ امریکہ ہے جس کی صف اول کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے جا رہے،ان مظاہروں میں مسلمان طلباء بھی شریک ہیں لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اصل تعداد ان مقامی امریکیوں کی ہے جنہوں نے آج سے چند سال بعد امریکہ کے باگ ڈور سنبھالنی ہے، امریکہ کی ہی یہ صورت حال نہیں ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور تمام يورپی ممالک میں بھی جو مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں بھی وہاں کی نوجوان نسل پیش پیش ہے ،دنیا بھر کی نوجوان نسل میں اسرائیلی جارحیت کی مخالفت اور فلسطین کی آزادی کے جذبات کی بڑھتی ہوئی یہ لہر اسرائیلی فوج اور صہیونی ریاست کیلئے پریشان کن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل کو سوشل میڈیا نے گمراہ کردیا ہے اور ان کی بات غلط بھی نہیں، اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو دنیا کو اسرائیل کے مظالم کی خبر کہاں ہونا تھی، وہاں کے معصوم بچوں ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں، بزرگ عورتوں اور مردوں کی تصاویر ، ویڈیو دیکھ کر مغربی نوجوان نسل کو سمجھ آرہی ہے کہ فلسطینی بھی کوئی اور مخلوق نہیں ان کی طرح کے انسان ہیں، ان کو معلومات مل رہی ہیں کہ اس خطے میں اسرائیل تو ایک غاصب ریاست ہے جس کا آج سے 76 سال قبل وجود تک نہیں تھا۔ ان کو علم ہورہا ہے کہ اسرائیلی فوج اصل ظالم ہے اور فلسطینی تو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان سے تو ان کو وطن چھین لیا گیا ہے، وہ حقیقی مظلوم ہیں کیونکہ اس سے قبل تو مغربی دنیا یہ سمجھتی تھی کہ اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے، اس کے چاروں طرف عرب اس کے وجود کے درپے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی فراہمی نے ایک انقلاب بپا کردیا ہے اور عالم مغرب کی نئی نسل کے اسرائیل کے بارے تصورات و نظریات بدل رہے ہیں لہذا اسرائیل فوج اس کی صہیونی ریاست اور اس کے مغربی سپانسر لابیز کا نئی نسل کو گمراہ سمجھنا غلط تو نہیں! وہ کہتے ہیں کہ یہ نسل وسیع تر ریاستی مفادات سے نابلد ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے یہ چند ہزار نوجوان ہیں جنہوں نے یونیورسٹیز کو یرغمال بنا لیا ہے، وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کا ایک بلبلہ ہے۔ اس کی کوئی پختہ حقیقت نہیں۔ لیکن کیا ان کے یہ سب سمجھتے سے حقیقت بدل جائے گئی ، نہیں کیوں کہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ اب اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھنا مغربی ریاستوں کیلئے ذیادہ دیر ممکن نہیں رہے گا۔ مغرب میں سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والی اسی "گمراہی" سے آزاد فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہو کر رہے گی۔ یہ نوشتہ دیوار بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں یہ نوشتہ دیوار ہے کہ یہاں بھی نوجوان نسل کو گمراہ قرار دینے والے اور سوشل میڈیا کو گمراہی کا سبب قرار دینے والے ریاستی مفاد کے بزعم خویش ٹھیکیدار اشرافیہ کی اندھی اجارہ داری ختم ہونے کو ہے، سوشل میڈیا سے پھیلنے والی گمراہی پاکستان اور دنیا بھر میں اس سے ایک نیا نظام تشکیل پانے جارہا ہے، یہ وہ گمراہی ہے جس کو آئندہ تاریخ کہیں آگہی کا عنوان دے گی تو کہیں بیداری کا، کیونکہ ماضی کی تاریخ یہ ہی بتاتی ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں جب بھی کسی آگہی یا بیداری کا آغاز ہوا تو پہلے پہل اس معاشرے کی اشرافیہ نے اسے گمراہی ہی قرار دیا۔