اِس کائنات کا مصور کون ہے؟

May 05, 2024

ابن انشانے ’استاد مرحوم ‘ کے خاکے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’آپ کے ایک ہاتھ میں چھ انگلیاں تھیں اِس لیے گیارہ تک باآسانی گن لیتے تھے ۔‘‘اسکردو میں تیسرے دن ہمیں جو ڈرائیور کم گائیڈ ملا اُس کے بھی ایک ہاتھ میں چھ انگلیاں تھیں مگر وہ بیچارہ فقط دس تک ہی گِن سکتا تھا کیونکہ اُس کے دوسرے ہاتھ میں چار انگلیاں تھیں، ایک انگلی اُس کی جلد باز ی کی وجہ سے کسی حادثے میںکٹ گئی تھی۔مگر اِس حادثے نےاُس کی ہیجان انگیز طبیعت پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا ۔جس رفتار سے گاڑی چلا کر اُس نے ہمیں اسکردو گھمایا ، اگر ہم جہاز میں بیٹھ کر بھی جاتے تو اِس قدرکم وقت میں اتنی جگہیں نہ دیکھ پاتے۔آدھااسکردو اُس کا جاننے والا تھا، جہاں ہم جاتے آگے اُس کا کوئی نہ کوئی واقف مل جاتا ، وجہ یہ تھی کہ موصوف کا اصل کام نان کسٹم پیڈ گاڑیاں فروخت کرنا تھا ۔سوات کی طرح اسکردو میں بھی یہ عام بات ہے ،یہ گاڑیاں افغانستان کے راستے پاکستان آتی ہیں اور پھر وہاں سےاِن علاقوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

اسکردو سے خپلو جانے میں تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں مگر یہ راستہ بے حد خوبصورت ہے ، سچ پوچھیں تو پورے اسکردو کی دلکشی اسی راستے میں ہے ۔سڑک کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بہتاہے جس کا رنگ ایسا ہے کہ لگتاہے جیسے کائنات کے مصور نے کوئی عالی شان تصویر بنانے کی غرض سے فیروزی رنگ بکھیر رکھا ہو۔پہاڑوں کی چوٹیوں پر جہاں برف نظر آتی ہے وہ پہاڑ چاندی کےدکھائی دیتے ہیں۔اِنڈس ابھی اپنے جوبن پر نہیں تھا، جون اور جولائی میں یہ دریا بھر جاتا ہے اور پھر اِس کی لہریں دور تک پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں اور اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہیں۔انڈیا نے اپنی فلموں میں اِن جگہوں کا خوب استعمال کیا ہے ، شاہ رُخ خان کی فلم ’جب تک ہے جان‘ کا ابتدائی منظر اور عامر خان کی ’تھری ایڈیٹس ‘ کا آخری منظر لداخ میں فلمایا گیا ہے۔ یہاںہمیں ایسے ہی لگا جیسے ہم اِن فلموں کی لوکیشنز پر گھوم رہے ہوں۔جیو ٹی وی نے حال ہی میں ’خئی ‘ ڈرامہ بنایا جس کو یہیں اسکردو میں فلمایا گیا،اِس ڈرامے میں دکھائی گئی گلگت بلتستان کی خوبصورتی بھی ایک وجہ تھی جس نے ہمیں اسکردو آنے پر مجبور کیا ۔اپریل مئی کے مہینوں میں اِن جگہوں پر چونکہ رش کم ہوتا ہے اِس لیےراستے میںٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ۔مجھے سنسان سڑکیں اور راستے بہت پسند ہیں بشرطیکہ چند کلومیٹر بعد کچھ نہ کچھ آبادی نظر آجائے ۔خپلو کا راستہ ایسا ہی تھا ۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ دریا کے ساتھ ساتھ ہماری گاڑ ی بھاگتی جا رہی تھی اور ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے ’ہم دونوں ‘ جنت کی سیر کے لیے نکلے ہوں۔ ویسے اگریہ راستہ ایسا دلفریب نہ بھی ہوتا تومیرا احساس پھربھی یہی ہوتا کیونکہ میں ’اُس ‘ کے ساتھ تھا جس کے ساتھ گزرا ہوا ہر پل مجھےجنت میں گزرے ہوئے وقت کی مانند لگتا ہے ۔راستہ جب حد سے سنسان ہوجاتا تواچانک دور کہیں اکا دکا گھر نظر آجاتے اورپھر ہمیں پتا چلتا کہ یہ کوئی گاؤں ہے۔خپلو کے سارے راستے میں ایسے چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے اور ہر گاؤں میں اسکول بھی نظر آیا ۔اِس علاقے کے بارے میں ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ یہاں کی عورتیں کام کرتی ہیں اور مرد سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں، اِس بات کا مشاہدہ ہم نے بھی کیا ، جہاں بھی گئے راستے میں مرد سڑک کے کنارے ’ویلے‘ بیٹھے نظر آئے ،سوائے آتی جاتی گاڑیوں کو گننے کے اُن کی کوئی ’جاب ‘نہیں تھی جبکہ عورتیں گھروں اور کھیتوں میں کام کرتی نظر آئیں۔

شگر کی طرح خپلو میں بھی ایک قلعہ ہے جو کسی زمانے میں علاقے کے راجہ کی ملکیت تھا مگر 1999 میں راجہ صاحب نے قلعے کو لیز پر دے دیا اور خود قلعے کے ساتھ ’رائل کاٹیج‘ میں منتقل ہوگئے ۔ بعد ازاں اِس قلعے کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام آغا خان فاؤنڈیشن نےکیا جس کے بعد اسے سیرینا ہوٹل کے حوالے کر دیا گیا ۔ہوٹل کا کھانا بہت اچھا تھا اور قیمت بھی مناسب تھی مگر رہائشی کمروں کا کرایہ بہت زیادہ ہے ، اگر آپ ایڈونچر ٹورسٹ نہیں تو یہاں قیام کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ فائدہ، یہ ہوٹل غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹھیک ہے ،اسی لیے ہم نے بھی فقط قلعے کی سیر پر ہی اکتفا کیا ۔اِس کےتاریخی کمرے اب بھی محفوظ ہیں ، آپ اُس کمرے میں بھی قیام کر سکتے ہیں جس میں کسی زمانے میں راجہ صاحب رہا کرتے تھے۔یہ قلعہ دیکھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پرانے وقتوں میںراجوں مہاراجوں کی زندگیوں میں صرف عیاشی ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اُنہیں ہر وقت یہ دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی دشمن راتوں رات حملہ کرکے انہیں خاندان سمیت قتل نہ کردے ۔راجہ اور اُس کے گھر والوں کیلئے ہنگامی حالت میں نکلنے کے لیےراستے بنائے گئے تھے حتّیٰ کہ اُن کے سونے کے کمروں کے باہر سیڑھیوں کو بھی دروازے سے بند کرکے تالا لگا دیا جاتا تھا اور اُس پر محافظ پہرا دیتا تھا ۔ گائیڈ نے ہمیں راجہ اور رانی کی خوابگاہیں بھی دکھائیں مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ دونوں الگ کمروں میں کیوں سوتے تھے !

ہمارے ہر فن مولا ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں خپلو سے ایک سڑک کارگل کی طرف جاتی ہے جس پر سفر کرکے آپ دو اڑھائی گھنٹوں میں کارگل پہنچ سکتے ہیں ۔ہم نے کارگل جانے سے معذوری ظاہر کی تو اُس مرد دانا نے ایک اور تجویز پیش کی کہ یہاں سے قریب ہی سالنگ نامی ایک گاؤں ہے جہاں فش فارم کی سیر کرنا لازم ہے۔ہم نے کہا لے چلو۔ یہ خپلو سے بیس پچیس منٹ کی مسافت تھی ، دریائے سندھ کو ہم نے پُل کے ذریعے عبور کیا ، دریا کے پار اترتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے ہم دنیاکے آخری کونے میں آگئے ہیں ۔ یہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات ۔ کچھ مزید آگے گئے تو گاؤں کے آثار نظر آئے ، حتّی ٰ کہ وہاں ایک کرکٹ اسٹیڈیم بھی تھا ۔ سالنگ میں بہت سے فش فارم ہیں جہاں ٹراؤٹ فش ملتی ہے ۔واپسی پر جب ہم اسی پُل سے گزرے تو سامنے کا منظر دیکھ کر دھک سے رہ گئے ۔ہمارے دونوں جانب شیر دریا سندھ تھا جس کا پانی ہر پل رنگ بدل رہا تھا اوربالکل سامنے بلند و بالا پہاڑ ۔ دنیا میں لا تعداد جگہیں ایسی ہیں جہاں پہاڑ اور دریا آپس میں ملتے ہیں مگر وہ پہاڑ دریا سے دور ہوتے ہیں ، اِس قدر قریب پہاڑ میں نے خپلو کے علاوہ صرف ناروے میں ایک جگہ دیکھا تھا مگر اُس کے ساتھ بھی جھیل تھی ایسا دریا نہیں تھا ۔ہم ٹکٹکی باندھ کر اُس پہاڑ کو دیکھتے رہے،شام کے سائے گہرے ہونے والے تھے اور یہاں ویرانی بڑھتی جا رہی تھی ، مگر اِس ویرانی میں عجیب سا رومانس تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی ، اُس کی سوئیاں حرکت نہیں کر رہی تھیں، شاید میرا وہم تھا یا پھر وقت سچ مُچ تھم گیا تھا ۔اُس لمحے مجھ پر آشکا ر ہوا کہ آئن اسٹائن کاخصوصی نظریہ اضافیت درست ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)