تیز رفتار باؤلر کی سازشی تھیوری

May 06, 2024

تیز رفتار باؤلر کی جبلت میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت غصے میں رہتا ہے، مخالف بلے باز کو خونخوار نظروں سے گھورتا، اپنی حرکات و سکنات سے ڈراتا دھمکاتا ہے، جب اسے دائیں بائیں چوکے چھکے لگتے ہیں تو لگا تار باؤنسر پر باؤنسر مارتا چلا جاتا ہے کہ بلے باز غیر ارادی طور پر باہر جاتی گیند پر کوئی ایسی شاٹ کھیلے کہ کیچ پکڑا جائے۔ باؤنسر تیز رفتار باؤلر کا تقریباً آخری ہتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ بات نہ بنے تو پاؤں توڑ یارکر سے بلے باز کو زخمی کرتا ہے یا ایل بی ڈبلیوکی کوشش کی جاتی ہے۔ کرکٹ کے میدان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تیز رفتار باؤلر کے تمام حربے ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ مخالف کو آتے جاتے گالیاں دیتا ہے ، دانستہ کندھا مارتا ہے، اُلٹی سیدھی اشتعال انگیز حرکتوں سے بلے باز کی توجہ ہٹانا بھی اس کی حکمت عملی میں شامل ہے۔ وکٹ کے پیچھے دائیں بائیں دور کھڑے کھلاڑی اشتعال انگیزی میںاس کا ساتھ دیتے ہیں۔امپائر کو دباؤ میں لانے کیلئے اُلٹی سیدھی اپیلیں بھی کی جاتی ہیں کہ امپائردھوکے میں آکر مخالف کو آؤٹ قرار دیدے۔ یہ تو بھلا ہو ڈی ایس ایل آر ریویو سسٹم کا کہ کھلاڑی کو امپائر کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے لیکن سسٹم میں خرابیاں اب بھی نظر آتی ہیں، بعض اوقات کھلاڑی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے غلط آؤٹ بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھارت میں گزشتہ کرکٹ ورلڈ کپ میں دیکھا گیا ،ریویوسسٹم نے پاکستان مخالف فیصلہ دے کر میچ کا پانسہ مخالف ٹیم کے حق میں بدل دیا تھا۔ کرکٹ کا کھیل بھی ہماری سیاست جیسا دلچسپ ہے ، سیاسی کھلاڑی امپائر کو دھونس دھمکی پر مبنی اپیلوں کے ذریعے دباؤ میں لانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ گیند بلے کی اس جنگ میں تیز رفتار باؤلراپنے ساتھی فیلڈروں کی مدد سے ایسا جال بُنتا نظر آرہا ہے کہ مخالف لمبی اننگز کھیلنے سے پہلے ہی غلط شاٹ کھیلتے پویلین لوٹ جائے۔ کرکٹ کے میدان میں لوگ ٹیسٹ میچ کی سست رفتاری سے بیزار نظر آتے ہیں۔ آج کل ریڈ بال، وائٹ بال،50 اوورز کے بعد ٹی 20 کے کم وقت، تیز رفتار، فیصلہ کن میچوں کا زمانہ ہے۔ا سٹیڈیم میں بیٹھے تماشائی چھکے، چوکے لگتے، وکٹیں اُڑتی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سنگل ڈبل رنز بنانے والے کھلاڑیوں پر کم کم ہی نظر پڑتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ جب میچ پھنس جاتا ہے، رنز کا تعاقب کرنے والی ٹیم کی وکٹیں یکے بعد دیگرے اُڑنے لگتی ہیں ایسے میں میاں داد جیسے ذہین کھلاڑی ہی ٹیم کے کام آتے ہیں جو آہستہ آہستہ اسکور آگے بڑھاتے ہیں جب مجموعہ ہدف کے قریب پہنچتا ہے اور وکٹیں محفوظ رہتی ہیں تو پھر کپتان اپنا ہدف حاصل کرکے ورلڈ کپ جیت جاتا ہے۔ تماشائیوں کو کون سمجھائے، وہ تو ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب سے پہلے جب کرکٹ کے میدان سجتے تھے، تماشائیوں میں صبر و برداشت بھی ہوتی تھی۔ ٹیسٹ میچ دیکھنے میں دلچسپی بھی برقرار رہتی تھی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کے مزاج بدل گئے۔ بلے باز کو کنجوسی سے داد دی جاتی ہے۔ انہیں تیز رفتار باؤلر میں کشش نظر آتی ہے کہ وہ طاقتور ہے، مضبوط ڈیل ڈول رکھتا ہے۔ باؤنڈری لائن سے بھاگتا ہوا پوری رفتار سے گیند پھینکتا ہے۔ بھولے تماشائی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ ایشیائی کرکٹ کے میدانوں میں بنائی جانے والی اکثر وکٹیں بے جان ہوتی ہیں ایسی وکٹوں پر تیز رفتار باؤلر عمومی طور پر ناکام رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں فیصل آباد کی مردہ وکٹ پر اس وقت دنیا کے تیز ترین فاسٹ باؤلرڈینس للی گیند بازی کرتے کرتے ہلکان ہو کر وکٹ پر لیٹ گئے اور کہنے لگے کہ جب میں مرجاؤں تو اس وکٹ پر میری قبر بنا دی جائے۔ کہنے اور سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی بے جان وکٹوں پر تیز رفتار باؤلر کا کوئی کام نہیں۔ اگر آپ پاکستان میں فیصلہ کن ٹیسٹ میچوں کے نتائج کا موازنہ کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر کامیابیاں لمبی اننگز کھیلنے والوں نے سمیٹیں یا پھرا سپن باؤلر چھائے رہے۔ کہیں کہیں آل راؤنڈرز نے بھی میچ جتوانے میں کردار ادا کیا۔ ماضی کے مایہ ناز تیز رفتار باؤلر نے جب سے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے ان کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ ڈراؤ، دھمکاؤ، بات نہ بنے تو پاؤں پڑ جاؤ۔ اٹھارہ ماہ سے کہہ رہا ہوں مذاکرات کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے۔ تین رکنی مذاکراتی کمیٹی بنا دی ہے۔ مینڈیٹ چوروں سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مذاکرات ہوں گے تو صرف فوج سے ہوں گے۔ دو سال حکومت کو چلنے دیں، مذاکراتی ٹیم کی تجاویز طاقت ور حلقوں کوموصول ہوگئیں، رابطہ کار ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں، کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔ ہمیں مذاکرات کا کوئی پیغام نہیں ملا، تیز رفتار باؤلر کی یہ اپیلیں مخالفین کو زیر کرنے کی تاویلیں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی، سازشی تھیوری صرف یہ ہے کہ اُلٹی سیدھی اپیلوں اور بیانات سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں اور فیصلہ تیز رفتار باؤلر کے حق میں آجائے۔ قصہ مختصر ایک شخص اس بات کا دعوے دار تھا کہ وہ ہرفن مولا ہے۔ اس کے بڑے بڑے سرکاری لوگوں سے مراسم ہیں۔ وہ جس سے چاہے کام نکلوا سکتا ہے۔ کسی نے پوچھا بھائی صاحب! ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ آپ ہر کام نکلوا لیتے ہیں۔ وہ کہنے لگا حضور! میں افسر کے پاس جاکر اپنا رُعب دبدبہ دکھاؤں گا کہ میرا یہ کام کردے بات نہ بنی تو اپنی غریبی، مفلسی کا واسطہ دے کر پاؤں پڑ جاؤں گا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ ترلے منتیں کرکے اپنا کام نکلوا لیتا ہوں، امید ہے آپ کو تیز رفتار باؤلر کی حکمت عملی سمجھ آگئی ہوگی۔ کپتان یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہے کہ یہ سیاست کا کھیل ہے کوئی گلی ِ ڈنڈا نہیں کہ ”ٹُل“ لگ گیا تو پو بارہ ، نہ لگا تو تین کانے۔ (ن) لیگ اس سازشی تھیوری میں اپنے کام سے کام رکھے، تیز رفتار باؤلر کے بچھائے جال سے بچے۔