ایکسٹینشن کا روگ

May 06, 2024

پاکستان میںسیاسی عدم استحکام کا سبب کیا ہے؟ یقیناً دیگر وجوہات بھی ہوں گی مگر میر ی دانست میں اس تلاطم خیزی کی سب سے بڑی وجہ ایکسٹینشن کا سونامی ہے جو سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جاتا ہے۔آپ چاہیں تو ایکسٹینشن کو مدت ملازمت میں توسیع بھی کہہ سکتے ہیں مگر اس سے رعب اور دبدبہ کم ہوجاتا ہے ۔آپ سوچ رہے ہونگے شاید میں بری فوج کے سربراہ کی ایکسٹینشن کی بات کررہا ہوں ،حالانکہ اب یہ طوفان ہر چیف کے دل میں پنہاں ہے ۔پاکستان کے دستور کی شق 179میںبتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان65سال کی عمر کی ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ دستور کی شق 195میں واضح کیا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان 62سال کی عمر میں سبکدوش ہو جائینگے۔ جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی نومبر 2002ء میں ایل ایف او کے نام سے جو فرمان جاری کیا اسکے تحت آئین کے آرٹیکل 179اور آرٹیکل 195میں ترمیم کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو تین سال کی ایکسٹینشن دیدی۔جب متحدہ مجلس عمل کیساتھ مفاہمت ہوئی توفوجی ڈکٹیٹر نے اپنی ایکسٹینشن بچانے کیلئے ججوں کی قربانی دیدی اور 17ویںآئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کومدت ملازمت میں دی گئی یہ توسیع واپس لیکر ایک بار پھر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بالترتیب 65اور62سال کردی گئی۔اس ترمیم کے نتیجے میں کشت آرزو میں پروان چڑھتا ایکسٹینشن کا پودا مرجھاگیا اور سپریم کورٹ کے چار جبکہ ہائیکورٹ کے پانچ جج صاحبان بادل نخواستہ ریٹائر ہوگئے۔یہ خدشات بھی ظاہر کئے گئے کہ شاید مائی لارڈز خفا ہو کر جاتے جاتے انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ ہی نہ دے جائیں۔مگر چیف جسٹس شیخ ریاض احمد ،سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیر اے شیخ ،جسٹس قاضی محمد فاروق،جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری ،لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس راجہ صابر،جسٹس روشن ایسانی ،جسٹس ایس اے سروانہ،جسٹس زاہد قربان علوی ،سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس اشرف لغاری اور پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس رئوف خان کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر گھر چلے گئے ۔من پسند جج صاحبان کو ایکسٹینشن دینے کی دوسری کوشش 2019ء میں تب ہوئی جب عمران خان وزیراعظم تھے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ ان کی منشا و مرضی کے مطابق بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنارہے تھے۔نومبر 2019ء میں بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہورہی تھی تو دسمبر میں عدلیہ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریٹائر ہونا تھا۔دونوں چیف صاحبان کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی ایکسٹینشن دینے کے حوالے سے تو اگست 2019ء میں ہی وزیراعظم کے دفتر سے جاری کئے گئے ایک حکم نامے کے ذریعے سے آگاہ کردیا گیا مگر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ایکسٹینشن کیلئے آئینی ترمیم کا بل لانے کی ضرورت تھی۔ستمبر 2019ء میں حکومتی ارکان پارلیمنٹ سید فخر امام اور امجد خان نیازی نے قومی اسمبلی میں ایک بل متعارف کروایا جس میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62برس سے بڑھا کر 65سال جبکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال سے بڑھا کر 68برس کردی جائے۔ملائکہ بخاری جو وزارت قانون و انصاف کی پارلیمانی سیکریٹری تھیں ،انہوں نے اس بل کی مخالفت نہیں کی۔چونکہ اس بل کو منظور کرنے کیلئے دوتہائی اکثریت درکار تھی اس لئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو مسلم لیگ (ن)کی حمایت بھی درکار تھی ۔جب مطلوبہ تائید و حمایت میسر نہیں آئی ،حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایکسٹینشن لینے کے بعدآنکھیں ماتھے پر رکھ لیں تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالتی اختیارات کی طاقت دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ریاض حنیف راہی نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کیخلاف ایک درخواست دائر کررکھی تھی ،اسے سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا۔جب درخواست گزار نے کہا کہ وہ یہ پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اب ہم اس پر سماعت جاری رکھیں گے کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر)انور منصور دلائل دے رہے تھے اور انکا موقف تھا کہ آرمی ایکٹ میں لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر ہے آرمی چیف کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔اس دوران عدالت میں موجود وکیل کرنل (ر)انعام الرحیم ایڈوکیٹ نے آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم کردی تو سپریم کورٹ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔اس کے بعد جو تماشہ لگا ،وہ آپ سب جانتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک چیف کو ایکسٹینشن دینے سے انکار کردیا تو دوسرے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے گناہ میں شامل ہوگئی۔طرفہ تماشا مگر یہ ہے کہ وہی مسلم لیگ (ن)جو 2019ء میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھانے کی مخالفت کررہی تھی اب چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن دینے کی خواہاں ہے اور تحریک انصاف جو تب ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کیلئے بل لیکر آئی اب مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کررہی ہے۔ اگر ستمبر2019ء میں سید فخر امام اور امجد خان نیازی کا لایا ہوا بل منظور ہو جاتا تو جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس بنے بغیر ریٹائر ہوجاتے۔ اب اگر یہ ترمیمی بل منظور ہو جاتا ہے اور چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد تین سال مقرر کر دی جاتی ہے یا پھر ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال سے بڑھا کر68برس کردی جاتی ہے تو جسٹس منیب اختر چیف جسٹس نہیں بن پائینگے۔ اس سے پہلے ترتیب یہ تھی کہ متضاد خیالات کے حامل دھڑوں میں سے باری باری سب نے چیف جسٹس بننا تھا۔یعنی جسٹس عمر عطا بندیال کے بعد، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو ان کے بعد جسٹس اعجازالاحسن، انکے بعد جسٹس منصور علی شاہ اور پھر جسٹس منیب اختر ۔اب چونکہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے ہی ریٹائر ہوچکے ہیں تو متذکرہ بالا آئینی ترمیم کے نتیجے میں جسٹس منیب اختر کے دوڑ سے باہر ہوجانے کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔