Awaaz: Echoes of Freedom and Justice

May 26, 2024

مصنّف: انصار برنی

معاون مصنّفین: سحر بانو رضوی/ تسنیم پریم جی چامڈیا

صفحات: 259، قیمت: درج نہیں

ناشر: انصار برنی ٹرسٹ

فون نمبر: 32623382 - 021

معروف سماجی کارکن، انصار برنی گریجویشن کے دَوران پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری تھے کہ ایک ایسا مظاہرہ کرنے پر گرفتار کرلیے گئے، جس میں وہ شریک ہی نہیں تھے، تاہم یہ گرفتاری اُن کے لیے اِس حوالے سے ایک’’نعمت‘‘ ثابت ہوئی کہ اس سے اُن کی زندگی کا ایک نیا رُخ متعیّن ہوگیا۔ ایک ایسا رُخ، جس میں انسانیت سے محبّت اور خدمت کو اوّلیت حاصل تھی اور پھر یہی اُن کی شناخت بن گئی۔

اُنھوں نے جیل میں قیدیوں، بالخصوص خواتین قیدیوں کی حالتِ زار دیکھی، تو اُنھیں انصاف کی فراہمی کے لیے متحرّک ہوگئے، بعدازاں اُن کی سماجی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔اپنی سرگرمیوں کو مؤثر و منظّم بنانے کے لیے1980ء میں’’ انصار برنی ٹرسٹ‘‘ قائم کیا۔ نوجوان نسل کو تو علم نہیں ہوگا کہ ایک زمانے میں خلیجی ممالک میں ہونے والی اونٹ دوڑ میں بچّوں کے استعمال کا عام رواج تھا، جنھیں اونٹ کی پُشت سے باندھ دیا جاتا تھا۔ لوگ اُن کے چیخنے چلانے سے محظوظ ہوتے، تو خوف زدہ بچّوں کے رونے سے اونٹ بھی تیز دوڑتے۔

اِس غیر انسانی، شرم ناک فعل کے خلاف انصار برنی نے ایک طویل جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں بچّوں کا یہ سفّاکانہ استعمال بند ہوا۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات لگتی ہے، لیکن اِس کتاب میں درج تفصیلات کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ اُنھیں سفارتی، قانونی اور سماجی محاذ پر کس قدر پُرمشقت جدوجہد کرنی پڑی تھی۔اِسی طرح اُنھوں نے بِچھڑے خاندانوں کے ملاپ کے ضمن میں بھی اَن تھک کوششیں کیں۔ بالخصوص پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں بند بہت سے افراد کو اُن کے گھروں تک پہنچایا۔

کچھ عرصہ قبل صومالیہ کے بحری قزّاقوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کو یرغمال بنانے کے واقعات ہوئے، جن کی رہائی میں انصار برنی نے کلیدی کردار ادا کیا۔11 ابواب پر مشتمل زیرِ نظر کتاب میں، جو شاید انصار برنی کی پہلی باقاعدہ سوانح عُمری ہے، انسانیت کی خدمت کی ایک درخشاں تاریخ کو سمونے کی کام یاب کوشش کی گئی ہے۔

مرتّبین نے برنی صاحب کی یہ یادداشتیں پہلے انٹرویو کی شکل میں ریکارڈ کیں اور پھر اسے قارئین کے لیے کتابی صُورت میں پیش کیا گیا۔ انٹرویوز پر مبنی اِس طرح کی کتب میں عموماً خطیبانہ انداز نمایاں ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص قارئین کے سامنے بیٹھا تقریر کر رہا ہو، تاہم، یہ کتاب اِس خامی سے محفوظ ہے۔

سحر بانو رضوی اور تسنیم پریم جی چامڈیا نے ایسا دل نشیں اُسلوب اختیار کیا ہے، جو قاری کو کتاب کے مطالعے میں محو رکھتا ہے۔انصار برنی وزیر برائے انسانی حقوق بھی رہے، جب کہ اقوامِ متحدہ کے تحت بھی خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ اُنھیں حکومتِ پاکستان اور کئی قومی و بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ڈھائی سو سے زاید ایوارڈز دئیے گئے، مگر’’ انسانیت کے خادم‘‘ کے طور پر شناخت اُن کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ اور اعزاز ہے۔

اِس طرح کی کتابیں جہاں تاریخ کا قرض ادا کرنے کا ذریعہ ہیں، وہیں نئی نسل کو اُن کے حقیقی ہیروز سے بھی متعارف کرواتی ہیں تاکہ وہ اُن کی شان دار روایات کی پیروی کرسکیں۔