دوا کی طلب اور برانڈز کی چمک دمک

May 26, 2024

کچھ دوستوں سے پاکستان میں صحت کے مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اس مُلک میں نہ صرف غریب بلکہ متوسّط طبقے کے لیے بھی اپنا مناسب علاج کروانا کس قدر مشکل ہو چُکا ہے۔ اس دوران اچانک ہمارے ذہن میں کئی برس قبل رُونما ہونے والا ایک ہول ناک واقعہ تازہ ہو گیا، جسے مَیں نے اپنے دوستوں سے بھی شیئر کیا۔ یاد رہے کہ سرکاری اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرز کو اکثر ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اُن دنوں ہم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال، سرگودھا کے کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات تھے۔ ایک 25 سالہ لڑکی، جس کا ایک کم سِن بیٹا بھی تھا، علاج کی غرض سے باقاعدگی سے اوپی ڈی آتی تھی۔ اسے دل کے والو کا عارضہ ’’مائٹرل ا سٹینوسس‘‘ لاحق تھا۔ خوش قسمتی سے مرض کی شدّت زیادہ نہیں تھی اور وہ سرجری کے لیے بھی آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا ادویہ سے اس کا علاج معالجہ جاری تھا، جو زیادہ منہگی بھی نہیں تھیں۔ ایک مرتبہ وہ طویل وقفے کے بعد چیک اپ کے لیے آئی، تو اُس کی طبیعت ناساز تھی۔ ہسٹری لینے پر پتا چلا کہ اُسے دوا چھوڑے دو ہفتے گزر چُکے ہیں۔

ہمیں یہ بات ناگوار گزری اور ہم نے سرزنش کے انداز میں اُس سے پوچھا کہ ’’یہ اتنی منہگی دوا تو نہیں ہے اور تمہیں پتا بھی ہے کہ یہ تمہارے لیے کتنی ضروری ہے، تو تم نے کیوں چھوڑی؟‘‘ اُس مریضہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جو جواب دیا، اُس نے ہمیں لرزا کر رکھ دیا۔ کہنے لگی، ’’ڈاکٹر صاب! تُسی دوائی دی گَل کر دے او ۔ مَیں تے دو دن توں روٹی وی نہیں کھادی۔‘‘ لڑکی کی یہ بات سُن کر ہمیں خود بھی ندامت محسوس ہوئی اور ہم یہ سوچنے لگے کہ آخر اس صورتِ حال کا ذمّے دار کون ہے۔ ہم، جو اس کا علاج کر رہے تھے، اسپتال کا ایم ایس، محکمۂ صحت کا سربراہ، وزیرِ صحت، حکومت یا پھر معاشرہ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کیوں ذمّے دار ہے۔ سورۃالنساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتے داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہم سائے سے اور اجنبی ہم سائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے، جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، ( غلام، کنیز ) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبّر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا ۔‘‘

پھر نبیٔ کریم حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کے فرامینِ مبارکہ میں ہم سائے کے حقوق پر اتنا زور دیا گیا کہ وراثت میں شرکت کا خیال پیدا ہونے لگا ۔لہٰذا، اگر قرآن وحدیث کی تعلیمات پیشِ نظر رکھتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے، تو ہماری اُس مریضہ جیسے اَن گنت افراد کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کا ذمّے دار ہمارا خود غرضی میں ڈوبا معاشرہ بھی ہے۔

دوسری جانب عالم یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہمیں شاپنگ مال جانا ہوا، تو اندر داخل ہوتے ہی ایک معروف برانڈ کے آئوٹ لیٹ پر نظر پڑی۔ دُکان میں داخل ہوئے اور ایک عام سی ٹی شرٹ کی، جو بازار سے تقریباً ہزار سے بارہ سو روپے تک میں مل جاتی ہے، قیمت پوچھی۔ سیلز مین نے اُس کی قیمت 22ہزار روپے بتائی، جسے سُن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے اور ہم جلدی سے باہر کھسک آئے۔ مبادا، سیلزمین ہمارے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے۔

گھر آکر جب باتوں باتوں میں اس واقعے کا تذکرہ اہلِ خانہ سے کیا، تو ہمارا بیٹا ہماری سادگی پر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ’’ آپ صرف 22ہزار روپے کی ٹی شرٹ کا سُن کر حیران و پریشان ہو گئے، جب کہ مَیں نے تو کئی شاپنگ مالز میں پانچ سے چھے چھ لاکھ روپے کی بہ ظاہر عام سے نظر آنے والے ٹراؤزرز بھی دیکھے ہیں۔‘‘ اب ظاہر ہے، شاپنگ مالز میں یہ بیش قیمت ملبوسات محض نمائش کے لیے تو نہیں رکھے گئے بلکہ ہمارے معاشرے میں یقیناً ایک ایسا طبقہ موجود ہے کہ جو یہ سب اشیا بلا دِقّت خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔

معمولی سی دوا کی خریداری سے عاجز فاقہ کشی کی شکار مریضہ اور برانڈز کے پیچھے بھاگتے چمکتے دمکتے چہرے ہمارے ہی معاشرے کا حصّہ ہیں۔ افسوس اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس سنگین تضاد پہ ہمارے دل پسیجتے کیوں نہیں۔ لاکھوں روپے کے ٹراؤزرز خریدتے وقت ہمارے ذہن میں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اس وقت کسی اسپتال میں کسی کے جگر کا ٹکڑا چند ہزار روپے کی دوا نہ ملنے کے باعث دَم توڑ رہا ہو گا۔ کروڑوں روپے کی گاڑی میں بیٹھ کر عوام کے لیے اپنا دن رات ایک کرنے اور جان قربان کرنے کا دعویٰ کرنے والے یہ کیوں نہیں جان پاتے کہ غریب آدمی کو اُن کی جان نہیں بلکہ اُن کی لشکارے مارتی گاڑیوں پر خرچ ہونے والے سرمائے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگی کی گاڑی کا پہیا بھی چلتا رہے۔

اس ضمن میں جہاں دیگر بہت سی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں، وہاں یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ دین سے دُوری نے ہمیں آج اس نہج تک پہنچا دیا ہے۔ اوپر بیان کی گئی قرآن پاک کی آیت اگر ہمہ وقت ہمارے ذہنوں میں تازہ رہے، تو یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان اس کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب و روز کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ تاہم، اپنے خیالات و افکار کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔