کبھی سرمئی، کبھی آتشی، کبھی نقرئی، کبھی کاسنی...

June 02, 2024

تحریر: نرجس ملک

ماڈل : نگہت جمیل

ملبوسات: عکس لیڈیز ویئر بائے ضرار طاہر

آرائش: Sleek By Annie

عکّاسی: ایم ۔کاشف

کوارڈی نیٹر: محمّد کا مران

لے آؤٹ : نوید رشید

کیا یہ سچ نہیںکہ ہمیںزندگی بھر کے تعلیمی و تدریسی بلکہ تربیتی وعملی مدارج اور مراحل میںکہیںبھی یہ نہیںسکھایا جاتا کہ ’’ہمیںخُود سے پیار کیسے کرنا ہے؟‘‘ ساری حیاتی تعلیم و تربیت کے نام پر بس درس وتدریس، روایات و اخلاقیات، تہذیب وتمدّن، رہن سہن، طوراطوار اور رکھ رکھاؤ ہی پر سارا فوکس رہتا ہے۔

دوسروںسے حُسنِ سلوک، اِخلاص ومحبّت، ربط ضبط، میل ملاپ، دوستی و خیرخواہی کے تو اَن گنت اسباق رٹائے جاتے ہیں، لیکن نہیں پڑھایا جاتا، توخُود سے محبّت کا کوئی سبق، کوئی ’’پٹّی‘‘ نہیںپڑھائی جاتی، حالاںکہ یہ پٹّی تو لازماً پڑھائی جانی چاہیے کہ جب تک کوئی شخص خُود سے محبّت نہیںکرتا، اپنی ذات کے ساتھ حددرجہ مخلص نہیںہوتا، اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں، تمنّاؤں کا خیال نہیںرکھتا، اپنے دُکھوں، غموں، پریشانیوں، مسائل کا اظہار نہیںکرتا، جی ہی جی میںکڑھتا رہتا ہے، اپنی کام یابیاں، خوشیاں، مسرتیںسلیبریٹ نہیںکرتا، صرف اپنی ذات کے لیے ہنسنے بولنے، گانے گنگنانے، چہکنے مہکنے، کھانے پینے، گھومنے پِھرنے اور سجنے سنورنے کو گناہ سمجھتاہے، تو وہ بھلا دوسروںکے لیے یہی سب کچھ بہت خُوش دلی و خُوش اسلوبی، کشادہ رُوئی و خندہ پیشانی سے کیوںکر کرے گا۔

مستنصرحسین تارڑ نے کہیںلکھا تھا کہ ’’محبّت میںخواری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انسان، خُود سے زیادہ محبوب سے مخلص ہوجاتا ہے۔‘‘ جب کہ ہمارے خیال میںتو زندگی بھر کی خواری کی اصل وجہ یہی ہے کہ انسان عُمر بھر خُود سے زیادہ دوسروںسے مخلص ہونےکی کوشش کرتا ہے۔ اور ’’دوسرے‘‘ بھی کون، جنہیںہمیشہ خوش رکھنا یا خوش دیکھنے کی خواہش ہی رکھنا گویا ناممکنات میںسے ہے۔

مانا کہ محض اپنی ذات کے لیے جینا، کوئی جینا نہیں، لیکن اپنی ہستی کو سراسر فراموش کرکے جینا بھی تو ہرگز کوئی جینا نہیں، کیوں کہ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ لوگوںکی اکثریت آپ سے نہیں، اپنی ضروریات، خواہشات، فوائد سے مخلص ہوتی ہے اور جب وہ پوری ہوجائیں یاحاصل کرلیے جائیں، تو اُن کادکھاوے کا سارا اِخلاص بھی بس ہوا ہوجاتا ہے۔ پتا نہیںکیوں، ہمیںلگتا ہے کہ دوسروںکی زندگیوںمیںہمارا کردار بہت اہم ، ناگزیر، کسی ’’ہیرو‘‘ کے مثل ہے، لیکن ایسا ہوتا بالکل نہیں ہے۔

حقیقتاً ہم صرف اپنی ہی زندگی کے ہیرو یا ہیروئن ہوتے ہیں، لیکن اپنے لیے ہم زیادہ تر کسی ولن یا ویمپ ہی کا رُوپ دھارے رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر دوسروںکو خوش، مطمئن کرنے کے لیے اپنے سب ارمان، خواہشیں، تمنّائیں، آرزوئیں، خواب، خوشیاں اپنے ہی پیروں تلے کچلتے، روندتے چلےجاتے ہیں۔

یہ جو سال ہا سال سے ’’کھاؤ مَن بھاتا، پہنو جگ بھاتا‘‘ اور’’پیٹ میںگیا کس نے دیکھا، تن پہ سجا سب دیکھتے ہیں‘‘جیسی کہاوتیں زبانِزدِ عام ہیں، تو اب اِنہیںبھی رَد، قلم زد کرنےکی ضرورت ہے۔ کھانا بھی وہ چاہیے، جومَن کو اچھا لگے، ذہنی و جسمانی صحّت کے لیے مفید ہو اور پہننا بھی وہی چاہیے، جو اپنی آنکھوں، قلب وذہن کو بھلا لگے، تَن پہ خُوب سجے، جسم وجاں کو آرام و سکون، راحت وطراوت کااحساس دے۔ وہ ایک برطانوی اداکار نے کہا تھا ناںکہ ’’جب آپ واقعتاً اس بات سے بے فکر، لاپروا ہوجائیںکہ لوگ میرے بارے میںکیا سو چیں گے، کیا کہیں گے، تو یقین کریں، آپ نے گویا شخصی آزادی کی انتہا کو چُھولیا ہے۔‘‘

ہمیںاپنی انتہائی قیمتی، اَن مول زندگی کو دوسروںپر وارنے، ہارنے یا اُن سے مقابلے بازی کی جنگ میںہرگز نہیںجھونکنا چاہیے۔ ہمارا مقابلہ اگر کسی سے ہوسکتا ہے، تو اپنے ماضی سے، جس سے ہمارا حال لازماً بہتر، حسین تر اور مستقبل بہترین، حسین ترین ہونا چاہیے۔ اور اِس سارے پراسس میںہمیشہ ہماری اولّین ترجیح ہماری دلی خوشی، ذہنی و روحانی سکون و اطمینان ہی ٹھہریں۔ کچھ روز قبل ہی ایک پوسٹ پڑھی کہ ’’ہم میںسے نہ جانے کتنے لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے خُود کُشی کر رکھی ہے۔

کوئی اچھے کپڑے پہننا، مَن پسند کھانا کھانا چھوڑ چُکا ہے۔ کسی نے خواہشیں، آرزوئیںرکھنا، خواب دیکھنا ترک کردیا۔ کوئی ہمہ وقت اداس، غم گین، بُجھا بُجھا رہتا ہے۔ کسی کو اپنی وضع قطع، شخصیت کے نکھار وسنوار سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا۔ کسی نے اپنی پسندیدہ ترین موسیقی، شعر و ادب کی محافل سے لُطف اندوز ہونا چھوڑدیا۔ کسی کو اپنی تصاویر لینا بھول گیا، دوستوںسے میل ملاقاتیں، گھومنا پِھرنا، گپ شپ، دکھ سُکھ بانٹنا سب ختم ہوکےرہ گیا ہے۔

مطلب، جنہیںباضابطہ طور پر 60، 70 برس کی عُمر میںدفنایا جائے گا، وہ بظاہر 30،40 سال کی عُمرہی میںفوت ہو چُکے ہیں۔‘‘ اور زندہ لاشوں کوبھلا کون کاندھا دیتا ہے۔ زندگی ہے، تو جینے کا سامان تو بہرحال انسان کو خُود ہی کرنا چاہیے۔ جیسے ہم ہر ہفتے آپ کے بناؤ سنگھار، حُسن کے نکھار و سنوار کا اِس قدر شاندار اہتمام کیے چلےآتے ہیں۔

ذرا دیکھیے، ڈارک پِیچ رنگ میںسیکوینس ورک سے آراستہ کاٹن لان کا خُوب صُورت تِھری پیس لباس ہے، تو اسٹائلش لیس ورک سے مزیّن میچنگ سیپریٹس کا انداز بھی جداگانہ ہے ۔آف وائٹ لانگ شرٹ حسین وہ دل نشین مشین ایمبرائڈری اور چکن کاری کا جلوہ لیے ہوئے ہے، توسیاہ بیس پر دل آویز ملٹی شیڈڈ پرنٹ سے آراستہ فیشن میںبے حد اِن میچنگ سیپریٹس کا بھی ایک اور دل رُبا ساانداز ہے، اور سیاہ رنگ اسٹریٹ ٹراؤزر کے ساتھ چیتا پرنٹ شارٹ پیپلم اور نیٹ دوپٹے کے حُسن و جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے کہ ساتھ عین لباس سے ہم آہنگ شولڈر بیگ کی جدّت وندرت بھی ہے۔

ہماری مانیں، کبھی کبھی صرف اور صرف اپنے دل کی سُنا، مانا کریں کہ آپ کی زندگی پر پہلا اور بنیادی حق خُود آپ ہی کا ہے۔ پہلے خُود کو خُوش رکھیں، پھر دوسروں کو خُوش رکھنے کی دوڑ میںشامل ہوں۔ وہ صابر ظفر کے کلام کے کچھ اشعار ہیں ناں ؎ ’’وہ صدائیں دیتا رہا ہو، مَیں نے سُنا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو… مجھے لگ رہا ہو جدا، مگر وہ جدا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو…وہ شمارِ ماہ و نجوم ہو کہ خمارِ ترکِ رسوم ہو… کوئی بار سوچ بچار ہی کا پڑا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو…وہ اساسِ عزم سے آشنا، وہ لباسِ نظم سے رُونما… کسی قافیے یا ردیف سے وہ کُھلا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو…کسی عید پر یا بسنت پر، وہ ملے گا عُمر کے انت پر… مَیں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بھی کوئی بہانہ ہو، کہیں یوں نہ ہو…مَیں دیے جلاؤں منڈیر پر کہ ضرور آئے گا وہ اِدھر… اُسی شام وہ کسی اور سمت روانہ ہو، کہیں یوں نہ ہو… کبھی سُرمئی، کبھی آتشی، کبھی نقرئی، کبھی کاسنی… کسی ایک رنگ میں رہ کے جی ہی لگانا ہو، کہیں یوں نہ ہو…وہ قرونِ اصل کی ساعتیں، وہ جنونِ وصل کی راحتیں… مِرے واسطے ہوں، مجھے پتا ہی چلا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو… جو ہے میرے دل کا معاملہ، جو ہے نظمِ دہر سے ماورا… کہیں اُس کے واسطے حرف کُن ہی کہا نہ ہو، کہیں یوں نہ ہو۔‘‘ تو ذرا آج اپنا اندر بھی ٹٹول کے دیکھیں کہ کبھی کبھی ’’مَن مرضی‘‘ کی خُوشی کا اچھوتا احساس زمانے بَھر کی خُوشیوں، مسرتوں پرسبقت لے جاتا ہے۔