تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ماہی راجپوت
ملبوسات: Ladies wears (عکس) AKS
آرائش: Sleek By Annie
عکّاسی: ایم۔ کاشف
کوارڈی نیشن: محمّد کامران
لے آؤٹ: نوید رشید
ایک معروف تُرک کہاوت ہے’’اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ مَیں تمہارا بھائی ہوں، یہ بھی بتا دیا کرو، ہابیل یا قابیل؟‘‘ جب یہ کہاوت پہلی بار پڑھی، تو ٹھک کرکے سیدھی دل میں جا لگی اور پہلا خیال یہی آیا کہ واقعی یہ ضرب الامثال، کہاوتیں، محاورے، مقولے یوں ہی نہیں بن جاتے، بلاشبہ اِن کی بُنت و ساخت میں صدیوں کے مشاہدات و تجربات کا نچوڑ شامل ہوتا ہے۔
اِسی طرح خواتین سے متعلق بھی مختلف ممالک کی کچھ کہاوتیں، محاورے عام مستعمل ہیں، جو بہت حد تک درست ہی معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ’’عورت زبان سے زیادہ آنکھوں سے بولتی ہے۔‘‘ جب کہ ایک فرانسیسی کہاوت ہے، ’’مَردوں کو سمجھو، عورتوں کو پڑھو۔‘‘
پھر ایک امریکی کہاوت ہے کہ ’’عورت کی محبّت جتنی نرم و ملائم ہے، نفرت اُتنی ہی سخت ہوتی ہے۔‘‘ ایک معروف یونانی کہاوت ہے کہ ’’عورتیں اِس لیے حسین ہوتی ہیں کہ مرد اُنہیں پسند کریں اور بے وقوف اِس لیے کہ وہ مَردوں کو پسند کرسکیں۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’حسین عورتیں عموماً بے وقوف ہوتی ہیں، اِسی لیے مرد ہمیشہ خُوب صُورت عورت سے شادی کا خواہاں رہتا ہے۔‘‘
اِسی طرح کہیں پڑھا تھا کہ ’’عورتوں کو واقعات اور حادثات مِن حیث المجموع یاد رہتے ہیں، جب کہ مَردوں کو اُن کی تفصیلات کہ عورت Creator (خالق) ہے اور مرد Craftsman (کاری گر)۔‘‘ جب کہ یہ جملہ بھی کہیں نظر سے گزرا کہ ’’کپاس ہمیشہ عورتیں ہی چُنتی ہیں۔ یہاں بھی، ولایت میں بھی کہ کپاس کا پھول، مرد کا ہاتھ پسند ہی نہیں کرتا۔‘‘
نیز، ’’عورت کا دل، اُس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے۔‘‘، ’’عورت کو کبھی امتحان میں نہ ڈالو، سخت مایوس بھی ہوسکتے ہو۔‘‘، ’’عورت گھر کی زینت ہی نہیں، رُوح بھی ہے۔‘‘ ’’عورت کو کبھی انتقام پر نہ اُکسائو، ورنہ ناگن کی طرح ڈس لے گی۔‘‘، ’’عورت ایسا پھول ہے، جو صرف سائے میں خُوشبو دیتا ہے۔‘‘، ’’ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘ اور ’’عورتیں جدّت اور مرد قدامت کے ساتھ خُوش رہتے ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسے کئی مقولے بحیثیت عورت تو ہمہ وقت دل و دماغ میں بسے ہی رہتے ہیں، لیکن خصوصیت کے ساتھ جب خواتین سے متعلق کچھ لکھنے کا قصد کیا جائے، تو پھر تو گویا ایسے تصوّرات و خیالات کی بھرمار و یلغار ہی ہوجاتی ہے۔
ان دِنوں گرمی نے چودہ طبق روشن کر رکھے ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ ’’عورت کے مُوڈ اور کراچی کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں، کب تبدیل ہوجائے۔‘‘ مگر اب تو گلوبل وارمنگ نے دنیا بھر کا موسم ہی بالکل بےاعتبار کردیا ہے، اور خصوصاً کراچی کی جون، جولائی کی گرمی بلکہ اب تو مئی نے بھی جیسے چہار سُو آگ سی دہکا رکھی ہے، پھر بجلی کے بھاری بھرکم بلز، لوگ پنکھے چلانے سے خوف زدہ ہیں، ایئرکنڈیشنرز کا تو تصوّر ہی محال ہے۔ خواتینِ خانہ کے لیے باورچی خانے، تندور بنے ہوئے ہیں۔
سو، لے دے کے یہ ٹھنڈے میٹھے بولوں کی پھوار ہی رہ جاتی ہے کہ جن سے کچھ شگفتگی و تروتازگی کا احساس ہو۔ یا پھر پہناوے ایسے اُجلے، خوش رنگ اور آرام دہ ہوں کہ تن و مَن کو کچھ راحت ملے۔ تو بس، اِسی خیال سے ہم نے اپنی آج کی بزم کچھ ہلکے پُھلکے سوتی پہناووں سے آراستہ و پیراستہ کی ہے۔
ذرا دیکھیے، کاٹن کا ملٹی شیڈڈ تھری پیس سُوٹ قلب و نظر کو کیسے طراوت بخش رہا ہے، تو سیاہ و سفید کے سدا بہار کامبی نیشن میں اسٹرائپڈ ٹرائوزر، پیپلم بھی موسم کی مناسبت سے ایک عُمدہ انتخاب ہے۔ ڈھیلے ڈھالے سفید پیپلم کے ساتھ سیاہ اسکرٹ کو شام کی کسی بھی تقریب کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے، تو مٹیالے سے رنگ کے میچنگ سیپریٹس کے ساتھ کٹ ورک سے مزیّن سفید دوپٹّے کے توکیا ہی کہنے اور عناّبی رنگ اسٹریٹ ٹرائوزر کے ساتھ لان کے دوپٹّے، پیپلم کا انداز بھی خاصا بھلا معلوم ہو رہا ہے۔
عظمیٰ جون کی غزل ہے ؎ ’’کلی کوئی گلاب کی مہک رہی ہے چارسُو..... جبھی ہوا بہار کی بہک رہی ہے چارسُو..... کسی نظر کی تتلیاں سی اُڑ رہی ہیں جا بجا..... کسی بدن کی مُشک بُو مہک رہی ہے چارسُو..... مِرے لیے تو یہ زمیں بھی کم نہیں ہے چاند سے..... کسی نظر کی چاندنی چٹک رہی ہے چارسُو..... مہ و نجوم و کہکشاں، بنے ہیں کسی کی گردِ پا..... کہ اب فلک کی رہ گزر چمک رہی ہےچارسُو..... پلک پلک پہ جگنوؤں کے قافلے ہیں خیمہ زن..... دِلوں میں درد کی کلی چٹک رہی ہے چارسُو..... نظر نظر میں خواب کے گلاب ہیں کِھلے ہوئے..... مگر کسی کی یاد بھی سِسک رہی ہے چارسُو۔‘‘
تو آج کل، بےشک اِک آگ سی دہک رہی ہے چارسُو، لیکن کسی نہ کسی طور اِس سے نبرد آزما تو ہونا ہی ہے، تو ہمارے رنگ و انداز ہی سے مستفید ہو دیکھیں اورِاس یقین کے ساتھ کہ ہم آپ کے لیے سو فی صد ’’ہابیل‘‘ ہی کے مِثل ہیں۔