احمد خان بھچر سے فواد چوہدری تک

July 05, 2024

میں آج کل لاہور میں ہوں اورحیرت سے حکومت ِ پنجاب کے کارہائے نمایاں دیکھ رہا ہوں۔ پنجاب حکومت کے کئی محکمے بہت بہتر کام کر رہے ہیں، مثال کےطور پرمحکمہ صحت، ٹورازم ڈپارٹمنٹ، محکمہ اوقاف وغیرہ مگر دوسری طرف حکومت کی سیاسی کارکردگی دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ اب یہی پنجاب اسمبلی کا معاملہ دیکھ لیجئے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن لیڈر کے دفتر کو تالا لگوا دیا ہے، اس سے گاڑی چھین لی ہے، اس کے دفتر کے ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ملک احمد خان بھچر اپوزیشن لیڈر ہیں۔ وہ میرے شہر کے ایم پی اے ہیں، انتہائی شریف آدمی ہیں، رواداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مگراٹل ارادوں کے آدمی ہیں، جو طے کرلیتے ہیں پھر اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتے، چاہے جتنی بھی قیمت اداکرنی پڑجائے اور بے شک انہوں نے کچھ کم قیمت نہیں ادا کی۔ میانوالی کے بہت بڑے زمین دار ہیں، موسم آنے پر وہ اپنی زمین سے پانچ چھ ہزار گندم کی بوریاں اٹھایا کرتے ہیں، اس سال صرف چار سو بوریاں اٹھائیں کیونکہ انہیں فصل بونے ہی نہیں دے گئی تھی۔ ان پر بے شمار مقدمات ہیں، ان کی زندگی کا آدھا حصہ پنجاب اسمبلی میں گزر رہا ہے اور آدھا عدالتوں میں ،ایسے شخص سے اگر دفتر اور گاڑی واپس لے لی جائے تو ا سے کیافرق پڑے گا ،وہ وہی کچھ کرے گا جو اس نے کیا یعنی سڑک پر اسمبلی لگا لی ، اپنا سپیکر منتخب کیا اور اپنے ایک سو نوے اکانوے ایم پی ایز کے ساتھ روڈ پر اجلاس کرلیا جس کی بھرپور کوریج انٹرنیشنل میڈیانے کی۔ کیونکہ دنیا کے نزدیک یہ بہت ہی حیرت انگیز تھا ۔پوری دنیا میں حکومتیں اپوزیشن کا خیال کرتی ہیں، خاص طور پر اپوزیشن لیڈر سے بہتر سے بہتر تعلق رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت اپنے معاملات خوش اسلوبی سے چلا سکے۔ میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان پر بھی حیران ہوں وہ تو بالکل ایسے آدمی نہیں تھے، میں انہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بڑی صلح جو شخصیت ہیں، بڑے پیار، محبت کے ساتھ سب سے پیش آیا کرتے تھے۔ یہی ان کی پہچان تھی اور شاید پنجاب اسمبلی کا سپیکر بھی انہیں اسی وجہ سے بنایا گیا تھا کہ ان میں دوسروں کو اپنے ساتھ ملا کر آگے چلنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ وہ اس طرح کے کام کریں گے ،مجھے یقین نہیں آتا ۔ملک احمد خان بھچر اس وقت سینہ تان کر پی ٹی آئی میں کھڑے ہیں بلکہ الیکشن سے پہلے جب میانوالی کی تقریباً تمام لیڈر شپ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو گئی تھی ، کچھ باہر سے اور کچھ اندر سے ۔اس وقت بھی وہ مَردوں کی طرح کھڑے رہے۔ ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی ۔تھوڑی سی گفتگو فواد چوہدری کے حوالے سے بھی کرلی جائے،اس وقت پی ٹی آئی کی سنیئر قیادت نے ان سے نئی قیادت پر تنقید نہ کرنے کی درخواست کی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ فواد چوہدری کے حق میں بہت سی باتیں جاتی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ جب وہ جہانگیر ترین کی پارٹی کے اجلاس میں لائے گئے اور کیمرہ ان کی طرف گیاتو انہوں نے چہرےپر ہاتھ رکھ لیا ، پھر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ کیا کیا ہوا اور کس مجبوری کے عالم میں وہ اس جگہ پر پہنچے بلکہ کیسے پہنچائے گئے لیکن ان کے حق میں جو بات سب سے زیادہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کوچھوڑا ہوتا تو ایک طویل عرصہ جیل میں نہ گزارتے بلکہ اس وقت کسی اچھے عہدے پر براجمان ہوتے ۔ جہاں تک فواد چوہدری کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کےلئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گفت وشنید کرنا ہوگی تومیرے نزدیک بالکل درست بات ہے ۔آخر کسی نہ کسی نقطے پر سول اینڈ ملٹری ریلیشن شپ کو برقرار رکھنا ہو گا۔ کچھ حاصل کرنے کےلئے کچھ چیزیں چھوڑنا بھی پڑتی ہیں۔ جہاں تک فواد چوہدری کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ قیادت کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی ابھی تک جیل میں ہیں تویہ جملہ بڑا سخت ہے بے شک موجودہ قیادت میں کئی طرح کےلوگ ہیں مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ موجودہ قیادت نے احتجاج سے گریز کیا۔ کوشش کی ہے کہ عدالتوں کی وساطت سے معاملات حل کیے جائیں ۔اگرچہ ابھی تک عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکا مگر ان کی کوشش سے عدالتوں کی کھڑکیوں پر پڑے ہوئے دبیز پردےضرور ہٹ گئے۔ عوام نے دیکھا کہ اندر کیا ہو رہا ہے اور کون کیا ہے ۔جہاں تک احتجاج کا مسئلہ ہے تو ایسا کوئی لیڈر ابھی تک جیل سے باہر نہیں آنےدیا گیا جو احتجاجی تحریک شروع کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ۔ میرا مشورہ تمام احباب سے یہی ہے کہ مل بیٹھیں ۔تقسیم در تقسیم کے عمل سے نکلیں اور مستقبل کے متعلق کوئی سنجیدہ لائحہ عمل تیار کریں ۔ ملک احمد خان بھچر جیسی قیادت کو آگے لائیں تاکہ پرانے لوگوں کو یہ گلہ نہ رہے کہ نئے لوگوں نے پارٹی کو اغوا کر لیا ہے ۔اس موضوع پر خاص طور پر اپوزیشن لیڈر پنجاب اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو مل بیٹھ کر کوئی طریقہ کار وضع کرنا چاہئے۔