پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، تجزیہ کار

July 17, 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں میزبان علینہ فاروق کے سوال پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق حکومت کے متضاد بیانات کی وجہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ پی ٹی آئی پابندی سے مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو نقصان ہوگا، تحریک انصاف پر پابندی کیلئے حکومت کا کیس بہت کمزور ہے، کوئی بھی اپنے منہ پر اس کالک کو ملنا نہیں چاہتا ہے،اس وقت لڑائی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہیں ہوں،پروگرام میں تجزیہ کار سہیل وڑائچ ،ارشاد بھٹی ،فخر درانی اورسلیم صافی نے اظہار خیال کیا۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ بہت مشکل ہے، جمہوری ذہنوں کیلئے یہ فیصلہ قبول کرنا بہت مشکل ہوگا، ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا کوئی اثر نہیں ہوا، پی ٹی آئی پابندی سے مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو نقصان ہوگا، یہ پابندی بھاری نوالہ ہوگا جسے نگلنا ن لیگ اور اتحادیوں کیلئے مشکل ہوگا، سپریم کورٹ کے نو ججوں نے تحریک انصاف کو پارٹی تسلیم کیا جس پر حکومت پابندی لگارہی ہے۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی کیلئے حکومت کا کیس بہت کمزور ہے، کوئی بھی اپنے منہ پر اس کالک کو ملنا نہیں چاہتا ہے، اگلے الیکشن میں کوئی بھی اس بدنامی اور رسوائی کا بوجھ اکیلا نہیں اٹھانا چاہتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چار پانچ ججز ایڈہاک لے آتے ہیں اس کے باوجود گنتی پوری نہیں ہوپارہی، سب کو ڈر ہے اگر پابندی کا فیصلہ عدالت گیا تو عدالت اسے اڑا نہ دے۔فخر درانی کا کہنا تھا کہ اس وقت لڑائی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہیں ہوں، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے مگر ان کی سنوائی نہیں ہورہی، پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان بھی مایوسی کے عالم میں کیا گیا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کا مقصد اسے دباؤ میں لانا ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، حکمران اپنی کارکردگی اور سیاست کے ذریعہ ہی عمران خان کو کارنر کرسکتے ہیں، نواز شریف بہتر سیاست اور شہباز شریف، مریم نواز بہتر حکمرانی کریں، عمران خان کو مظلوم بنانے سے زیادہ بڑا احسان ان پر کوئی اور نہیں ہوگا۔ دوسرے سوال کیا ایڈہاک ججوں کی تعیناتی اچھا فیصلہ ہوگا؟ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججوں کی تعیناتی زیرالتواء ہزاروں کیسوں کا معاملہ نہیں ہے، یہ ان درجنوں کیسوں کا معاملہ ہے جو بہت اہم بننے والے ہیں، اگر کیسوں کا معاملہ ہوتا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انہیں ساتھ ساتھ نپٹاتے جاتے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایڈہاک ججوں کو چیف جسٹس اپنی صوابدید پر لاتے ہیں اس لیے ان سے مستقل ججوں کی طرح خودمختاری کی توقع نہیں کی جاتی، حکومت پہلے ہی اسکینڈلوں میں گھری ہوئی ہے اس وقت ایڈہاک ججوں کی تعیناتی نہ کرنا بہتر ہوگا۔