وینکوور میں پنجاب نہیں ہے

July 24, 2024

ہائے وہ بھی کیا زمانہ تھا جب نہ کوئی ’’ٹرپ ایڈوائزر‘‘ قسم کی ایپ ہوتی تھی اور نہ آن لائن ٹکٹ لینے کیلئے ’اسکائی اسکینر‘۔ تب سفر کرنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں تھا، لوگ میزبان کے گھر کا پتہ جیب میں ڈال کر جب منزل مقصود پر پہنچتے تھے تو یہ جان کر اُنکے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی تھی کہ ’مقصود‘ صاحب تو اب اُس منزل میں نہیں رہتے۔ اُس وقت تک نہ کوئی انٹرنیٹ ہوتا تھا اور نہ فون، سو انسان آپس میں بات چیت کرکے کام چلا لیتے تھے۔ اب انسان کچھ نہیں کرتے، سب کچھ سسٹم کے تابع ہوگیا ہے، ہوٹل کے کمرے، جہاز کی ٹکٹ اور تفریحی مقامات کی سیر، یہ سب باتیں گوگل پر دستیاب ہیں، لہذا کسی انسان سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے، سو آدھا ایڈونچر تو یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ کیلگری میں ہم نے ہوٹل میں کام کرنیوالی خاتون سے پوچھا، جو ریٹائرڈ بھارتی کرنل کی بیگم تھی اور بقول اُنکے شوقیہ ملازمت کرتی تھی، کہ وینکوور میں دیکھنے کی جگہیں کون سی ہیں تو کہنے لگی کہ ویسے تو ہم کئی مرتبہ وینکوور گئے ہیں مگر بہتر ہوگا کہ آپ گوگل کرلیں۔ اور ہم نے گوگل ہی کیا، مگر گوگل نہیں بتا سکا کہ کرنل کی بیوی کو odd job کرنے کی کیا ضرورت !اصولا ہمیں کیلگری سے وینکوور بذریعہ سڑک سفر کرنا چاہئے تھا مگر مسافت کچھ زیادہ تھی اسلئے ارادہ ترک کرکے فلائٹ لے لی۔ برٹش کولمبیا کے بارے میں بچپن سے سن رکھا تھا کہ کینیڈا کا بے حد خوبصورت علاقہ ہے سو وینکوور آنے کی وجہ اس مشہوری کو چیک کرنا تھا۔ کیلگری کے مقابلے میں وینکوور بڑا شہر ہے، اِس قسم کے بڑے شہر پر اچٹتی سی نظر ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ Hop on Hop off بس میں شہر کا چکر لگا لیں، اور ہم نے یہی کیا۔ لندن میں اگر بندہ اِس بس میں بیٹھے تو چکرا کر رہ جاتا ہے کہ وہاں چپے چپے پہ تاریخ بکھری ہے۔ وینکوور میں معاملہ اسکے برعکس تھا، ایک تو بس کی نشستیں بہت تنگ تھیں، دس منٹ بعد ہی ہم بیزار ہو گئے اور دوسرے وینکوور کے پاس بیچنے کو بھی کچھ نہیں۔ بیچاری گائیڈ نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وینکوور کو ایک تاریخی شہر ثابت کرے مگر بے سود۔ وہ کسی بھی عمارت کی اہمیت کے بارے میں بتاتی تو پتا چلتا کہ زیادہ سے زیادہ پندرہ سال پرانی ہے۔ راستے میں کوئی کافی شاپ، دکان اور ریستوران ایسا نہیں تھا جس کو اس نے وینکوور کی شان نہ قرار دیا ہو۔ اصل میں گائیڈ کا بھی کوئی قصور نہیں، کینیڈا کے شہر ایسے ہی ہیں، نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ثقافت، تمام حسن اطراف میں بکھرا ہوا ہے۔ وینکوور چونکہ سمندر کے کنارے آباد ہے تو یہاں کے ساحلوں پر کافی رونق ہوتی ہے، لوگ نزدیک کے جزیرے وکٹوریا پارک جانا بھی پسند کرتے ہیں جہاں فیری کے ذریعےپہنچا جا سکتا ہے۔ فیری کے سفر سے ہمارا دل بھر چکا تھا اس لئے ہم نے وینکوور کے مضافات دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں Sea to Sky Gondola کمال کی جگہ ہے جو وینکوور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ روزانہ درجنوں بسیں سیاحوں کو اس جگہ لے جاتی ہیں، اس سے ذرا آگے ایک قصبہ Whistler بھی ہے جو اسکینگ کے شوقین افراد کیلئے آئیڈیل ہے لیکن ہم صرف گنڈولا تک ہی جا سکے۔ یہ ایک قسم کی چیئر لفٹ ہے جو سمندر کے کنارے سے آپ کو پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتی ہے، اسے آپ انجینئرنگ کا شاہکار کہہ سکتے ہیں، گویا ’تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘ کے مصداق یہاں خدا نے پہاڑ بنایا تو انسان نے چیئر لفٹ بنا دی۔ چیئر لفٹ جب اونچائی پر پہنچتی ہے تو نیچے سمندر کے کنارے کھڑی گاڑیاں بالکل ’’ڈنکیاں‘‘ دکھائی دیتی ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک ریستوران اور سووینئیر شاپ تھی مگر اصل دلکشی وہاں سے سمندر کا نظارہ تھا۔ پہاڑ کیساتھ ہی ایک جھولتا ہوا پل بھی تھا جسے پار کرکے آپ پہاڑ کے دوسری جانب جا سکتے ہیں۔وینکوور کا ڈائون ٹاؤن کیکگری سے قدرے بہتر لگا، یہاں سمندر کے کنارے کھانے پینے کی بیشمار جگہیں ہیں جہاں بیٹھ کر آپ سورج ڈوبنے کا منظر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساحل کے کنارے ہم نے کھانا کھایا اور اپنے سامنے سورج غروب ہوتے دیکھا۔ یہ ایک ناقابل فراموش نظارہ تھا، پہلے سورج کی روشنی سمندر پر اپنی شعاؤں کو سمیٹتی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے سمندر کے بیچوں بیچ آگ لگی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ معدوم ہوتی چلی جاتی ہے اور چند ہی منٹوں میں سرخ لکیر بن جاتی ہے اور جیسے ہی سورج پہاڑیوں کے پیچھے چھپُتا ہے، سمندر پر بنی وہ سرخ لکیر یکدم غائب ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ ہر شہر کے کئی روپ ہوتے ہیں، وینکوورکا ایک روپ شہر کے نشئی لوگ ہیں۔ مشرقی ہیسٹنگز کے علاقے میں یہ لوگ سڑک کے کنارے پڑے رہتے ہیں، وہاں کے کاروبار اِن لوگوں کی وجہ سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ بعض تو بند ہی ہوگئے۔ اِنکا کوئی گھر بار نہیں، حکومت انہیں رہنے کیلئے پیسے دیتی ہے مگر یہ نشے میں اڑا دیتے ہیں۔ اگر کوئی سیاح وینکوور آئے اور مشرقی ہیسٹنگز دیکھ کر واپس چلا جائے تو اسے یہی لگے گا جیسے وینکوور میں فقط بے گھر نشئی ہی رہتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں میں بھی نشہ آور ادویات کا استعمال عروج پر ہے اور یہ کینیڈا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

کیلگری کی طرح وینکوور میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے ، ہم جس کو بھی بتاتے کہ لاہور سے تعلق ہے تو وہ جواب میں کہتا کہ پھر تو اپنے ہی ہوئے ، اسی وی پنجاب تو آں۔لاہور، امرتسر، ننکانہ صاحب، لدھیانہ ،قصور،چندی گڑھ… اور اب وینکوور۔ دیکھا جائے تو انسان کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔ ایک سردار نے بتایا کہ ہم پنجاب چھوڑ کر وینکوور آئے،یہاں کا موسم اچھا ہے، آب و ہوا صاف ہے، قانون کی عملداری ہے، دودھ خالص ملتا ، ٹریفک ٹھیک چلتی ہے، انصاف کا بول بالا ہے، وہ سب کچھ ہے جو ہم چاہتے تھے ، اگر کچھ نہیں ہے تو پنجاب نہیں ہے، ہمارے میلے ٹھیلے ،ویاہ شادیاں نہیں ہیں ، اپنی گلیاں، اپنے کوچے نہیں ہیں۔ انگریزی کا محاور ہ ہے You cannot have best of both the worlds، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم وینکوور آجائیں اور اپنا پنجاب بھی ساتھ لے آئیں۔ یہ تومن چلے کا سودا ہے، چاہے کھٹا لے چاہے مٹھا۔ ایسا بھی نہیں کہ باہر سیٹل ہونیوالا ہر شخص ہی واپس آنا چاہتا ہے ، بے شمار لوگ وہاں اپنی زندگیوں میں خوش اور مطمئن ہیں، خاص طور سے اپنے پاکستانی ،اور اِس کی وجہ ملک کی وہ خبریں ہیں جو وہ روزانہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم یہاں کینیڈا آگئے ۔یہ اور بات ہے کہ کینیڈا میں انہیں اک اور دریا کا سامنا ہے !