بنگلہ دیش میں تبدیلی

August 06, 2024

بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں تین سو افراد کی ہلاکت کے بعد سول نافرمانی کی تحریک کے پہلے ہی روز پیر کی دوپہر آرمی چیف نے وزیر اعظم حسینہ واجد سے استعفیٰ لے کر ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نےملک میں امن وامان کی بحالی کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت کے شہر اگرتلہ پہنچ گئی ہیں۔ اس سے قبل سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلباء کی جانب سے شروع ہونیوالے مظاہرے حکومت کی پرتشدد کارروائیوں کے ردعمل میں حسینہ واجد سے استعفے کے مطالبے کی عوامی تحریک میں بدل گئے تھے ۔ حسینہ واجد نے صورت حال کو بات چیت کے ذریعے سنبھالنے کے بجائے طلبہ کو دہشت گرد قرار دے کر اپنی جماعت کے کارکنوں کو مظاہرین سے دوبدو جنگ کی ہدایت کرکے حالات کو خرابی کی آخری حد تک پہنچادیا۔ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو شیخ حسینہ نے اگرچہ اپنے ملک کی ترقی کیلئے بڑی اہم خدمات انجام دیں لیکن جمہوری آزادیوں کے معاملے میں ان کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ۔حسینہ واجد دور میں کرپشن میں بھی بڑا اضافہ ہوا جس میں وزیر اعظم کے قریبی لوگ، حکومت میں شامل افراد اور ان کے لواحقین پیش پیش رہے۔ ان کے پورے دور حکومت میں اپوزیشن کو کچل کررکھا گیا جس کی وجہ سے متعدد اپوزیشن رہنما ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور پچھلے تین عام انتخابات میں سے کوئی بھی بین الاقوامی معیارات کے مطابق قابل اعتبار تسلیم نہیں کیا گیا ۔ایک سیاسی حکومت کے ان غیرجمہوری اور آمرانہ رویوں نے بالآخر اسے ایک ناقابل رشک انجام سے دوچار کردیا۔ تاہم فوجی قیادت کو ملک میں جلدازجلد غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کراکے جمہوریت بحال کردینی چاہیے کیونکہ اسی صورت میں بنگلہ دیش ایک ترقی پذیر جمہوری ملک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔