کچھ عام آدمی کے بارے میں

September 25, 2016

میرے پچھلے کالم ’’فٹے منہ‘‘ کے ری ایکشن میں بے شمار دوستوں نے مجھے ایسی چیزیں بھجوائی ہیں کہ خود میں شرم سے پانی پانی ہو گیا ہوں۔ نہیں جانتا کہ اس سب کو ’’فٹے منہ‘‘ کے زمرے میں رکھوں یا اسے کوئی اور نام دوں۔ ان واقعات کی رپورٹس میں خرابیوں کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے لیکن ہمارے ارباب ِ اختیار یقیناً اصل ذمہ دار ہیں۔
عاطف حسین لکھتے ہیں ’’بہاولنگر کے علاقے عزیز آباد کا رہائشی دس سالہ یاسر عادی چور نہیں تھا۔ بس بھوک اسے زمیندار ہاشم او ر رمضان کے اس گودام تک لے گئی جس کی رکھوالی خونخوار کتے کر رہے تھے۔ مگر شاید یاسر کی بھوک نے اسے نڈر بنا دیا کہ وہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں کود گیا اور پھرکتوں نےوہی کیا جو ان کو سکھایا گیاتھا۔‘‘
’’تھانہ ڈونگہ بونگہ کے ایس ایچ او سے بات ہوئی تھی میری..... کہنے لگے صاحب بچہ ناسمجھی میں جان سے چلا گیا۔ ہاشم اوررمضان تو غائب ہیں لیکن پولیس نے کتوں کو گولی مار دی ہے تاکہ دوسرے بچے محفوظ رہیں۔‘‘
’’میرا بیٹا بار بار کہہ رہا ہے کہ ابا کھانا کھالو۔ لیکن بچے کی اُدھڑی ہوئی لاش دیکھنے کے بعد میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
حکمرانوں کو چھوڑیئے بڑے بڑے نیٹ ورکس اور چینلز کہاں ہیں۔ انہیں اپنی کامیاب فلموں کے اداکاروں کے افیئرز چلانے سے فرصت ملے تو شاید و ہ اس طرف بھی توجہ دے سکیں۔ ان کی بھوک تو شاید ریٹنگ سے ہی بجھتی ہے۔
اسی ریٹنگ کے چکر میں ہمارے بعض لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بھوک و افلاس کی باتیں کرنے کے بعدان کی اصل توجہ اس ملک میں بڑھتی ہوئی ناہمواری کی طرف بھی ہو۔ ایک طرف دولت کے انبار ہیں اور دوسری طرف گلیوں میں رینگتی، سسکتی انسانیت، گندے نالوں کے قریب بسی بدبودار بستیوں کے باسیوں کی باتیں شاید کوئی نہیں سننا چاہتا۔ شاید سب کو ہمارے ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے گلیمر سے زیادہ دلچسپی ہے کسی اور چیز میں نہیں۔
ایک زمانہ تھالوگ کہتے تھے کہ انسان کی بقا اور تربیت کے لئے ضروری ہے کہ میڈیاسوشل ایشوز کو ایک مشن کی طرح اٹھائے۔ کیمپین کی صورت میں ان پیغامات کو تسلسل سے نشر کرے۔ حکومتوں کو مجبور کردے کہ وہ اپنی توجہ ان مسائل کی طرف کریں جو اصل مسائل ہیں۔ اس حوالے سے میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی ایک تحریر کےکچھ حصے یہاں نقل کرتا ہوں۔
’’میں نےلندن کے اخباروں میں پڑھا کہ برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب اور بیروزگار آدمی کا بچہ لاپتہ ہو گیا ہے۔ دو دن تک اس قصبے کے تمام چھوٹے بڑے ساراکام چھوڑ کر صبح سے شام تک بچے کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ مقامی پولیس کے علاوہ دوسرے ضلعوں کی پولیس بھی سینکڑوں کی تعداد میں تفتیش اور تلاش میں شریک ہوگئی۔دو دن تک قومی اخبارات میں ریڈیو اورٹی وی پر ایک غریب آدمی کے بچے کی گمشدگی کو پرائم ٹائم میں مفصل کوریج دی گئی۔ اسی طرح پچھلے دنوں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں نرسوں کی کمی کے باعث ایک عام شہری کی تین چار ماہ کی بچی کے دل کاآپریشن کئی ہفتوں تک ملتوی ہوتارہا۔ اس پر اخبارات اوربی بی سی جو حکومت کا اپنا ادارہ ہے، نے اس مسئلہ کو خوب اجاگر کیا۔ عدالت میں مقدمہ درج کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔ پبلک دبائو اتنا بڑھا کہ دو دن بعد بچی کا آپریشن کرنا پڑا۔ مذکورہ بالا دونوں سانحوں میں پوری قوم غریب آدمی کے دکھ دردمیں شریک اور مضطرب رہی۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ بچہ انگلش بولتا ہے یا اسکاٹش، رومن کیتھولک ہے یا پروٹیسٹنٹ۔ لیبرپارٹی سےہے یا نہیں۔ کہیں آئرش تو نہیں۔ایک لمحے کے لئے بھی اس کی سماجی یا معاشی حیثیت اس کے بنیادی استحقاق میں حارج نہیں ہوئی۔ اب اس کاموازنہ ایک ہی لمحے میں وطن عزیز کے حالات سے کیجئے۔ یہاں ہم روزانہ لسانی، گروہی اورصوبائی چپقلش اور تصادم کی خبریں، حادثات، واقعات اور قابل علاج بیماریوں میں انسانی جانوں کے اتلاف کی رپورٹیں پڑھتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنے روز کے مشغولات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس سب کو اگر دیکھیں تو ہمارا معاشرہ بھی بے حس ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جس میڈیا کی ذمہ داری پبلک کو جگانے کی ہونی چاہئے وہ اس سے بھی زیادہ بے حس ہے۔ اس کی ایک وجہ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا بعض لوگ ہیں جنہیں صرف اورصرف ریٹنگ اور کمائی کی فکر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام بھی اتنے ہی ذمہ دارہیں۔ ان عوام کے ساتھ وہ عوامی نمائندے جو میڈیا میں اس وقت نامعلوم کس طرح کی جگالی کر رہے ہیں۔ان کی اکثریت اب ایسے اداروں سےآتی ہے جہاں وہ تعلیم کے نام پر جہالت سیکھ کر آرہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایک یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق ہے جس کے مطابق وہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے داخلے اس بنیادپر منسوخ کئے گئے کہ ان میں داخلے کے لئے آنے والے تمام طالب علم فیل ہوگئے تھے۔ان شعبوں میں سے خاص طور پر شعبہ ابلاغیات کا نام آتا ہے جہاں بے ایمانی کے ذریعے پی ایچ ڈی کے تمام امیدواروں کو فیل ہونے پراضافی نمبر دیئے گئے۔ اس کااعتراف ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں بھی کیاگیا ہے۔ اسی طرح سے ایم فل کے داخلوں میں بھی امیدواران فیل ہوگئےاور انہیں داخلے کے لئےاضافی نمبر دیئے گئے۔ جب میڈیاپر نمائندگی کرنے والے اس طرح کے اداروں سے نکلیں گے تو آپ خود ہی سوچ لیں کہ پھرحال کیا ہوگا اور حال ایساہی ہے۔ ہماری میڈیا پر نمائندگی کرنےوالے حضرات و خواتین خود بھی اصل انسانی المیوں سے بے خبر ہیں۔ انہیں بھی صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کی فکر ہے۔

.