میڈیا کمیشن کی اہم سفارشات

October 20, 2016

سپریم کورٹ کے مقررکردہ میڈیا کمیشن کی گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی سفارشات میںآزادی اظہار پر کوئی قدغن لگائے بغیر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی شائستگی، توازن، معقولیت، خودداری اور غیرجانبداری کے کم سے کم معیار کو ملحوظ رکھنے کا ذمہ دار قرار دیے جانے پر زور دے کر ایک اہم سماجی ضرورت کی تکمیل کی گئی ہے ۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اخبارات پڑھنے والوں کے مقابلے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد کم و بیش تین گنا یعنی تین کروڑ کے قریب ہے ۔ان میں سے بہت سے لوگ انٹرنیٹ کی ویب سائٹوںہی پر اخبارات پڑھتے، ٹی وی دیکھتے ،ریڈیو سنتے اور سوشل میڈیا کے مختلف چینلوں پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پرسیاسی، مذہبی اور مسلکی موضوعات پر اظہار خیال میں بہت سے لوگ شائستگی کے کم سے کم معیار کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے جس کی بناء پر اختلافات اصولی حدود سے نکل کر معاشرے میں تشدد،نفرت اور انتہاپسندی کا زہر گھولنے کا سبب بنتے ہیں۔ میڈیا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان امور کا پوری تفصیل سے جائزہ لیا ہے ، صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے نہایت معقول سفارشات پیش کی ہیںاورتمام ذرائع ابلاغ کے لیے متعصب رپورٹنگ ، غیرمصدقہ مواد کی اشاعت نیز تبصروں اور آراء کو حقیقت بناکر شائع کرنے سے اجتناب کو یقینی بنانا ضروری قرار دیا ہے ۔کمیشن کی جانب سے اس سلسلے میں پیش رفت کی ذمہ داری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت اورپاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پر عائد کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والی ریگولیٹری اتھارٹی کو انتظامی طور پر کسی وزارت یا کیبنٹ ڈویژن کے بجائے پارلیمنٹ کو جوابدہ بنائے جانے کی سفارش کی گئی ہے جو اس بناء پر نہایت ضروری ہے کہ اس طرح اس ادارے کو کسی ناجائز دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا موقع ملے گا۔امید ہے کہ وفاقی حکومت ان سفارشات پر پوری سنجیدگی سے غور کرے گی اور ان پر عملدرآمد کیلئے جلد ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

.