سیاسی ڈائری:دہشتگردی کا عفریت ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے

February 17, 2017

اسلام آباد (محمد صالح ظافر،خصوصی تجزیہ نگار) پاکستان اپنے دشمنوں کے ارادوں کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے سفارتی سطح پر اپنے دوستوں کو بھی متحرک کرنا ہوگا،مختلف حوالوں سےسنگین اختلافات اور تضادات کے شکار معاشرے میں دہشت گردی کا عفریت جس طور پر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہاہے وہ دل دہلادینے کے لئے کافی ہے۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فرشتوں جیسے نونہالوں کے آن واحد میں بے دردی سے شہید کردینے کے دلخراش واقعہ پر عوام کے جذبات کو لحاظ خاطر میں رکھتے ہوئے پوری سیاسی قیادت اور سلامتی کے ادارے ایک چھت تلے جمع ہو کر دشمن کے مکروہ ارادوں کے خلاف یک مشت ہوگئےتھے اس کےنتیجےمیں دہشت گردی کو لگام دینے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ملک شاہراہ ترقی پر پیش قدمی کرتے بھی دکھائی دے رہاہے دو روز قبل تک کے واقعات سےنتیجہ اخذ کیا جاتا رہا کہ نئی کارروائیاں لاہور میں کرکٹ کی سپر لیگ کےفائنل مقابلے کے انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی کارروائی ہے جمعرات کو اندرون سندھ سخی شہباز قلندر کے مزار پر زائرین کو خودکش بم دھماکے سے ایک سو کے لگ بھگ معصوم شہریوں کو موت کی وادی میں اتار دینے اور اس سے کہیں زیادہ کوز خمی کردینے سے یہ امر واضح ہوگیاہے کہ دشمن کے ار ادے کہیں بڑھ کر ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس نام نہاد تنظیم نے افغانستان کی سرزمین پر بیٹھ کر اپنی مذموم سرگرمیوں کے لئے جو وجوہ اور ان کا حدود اربعہ بیان کیا تھا سخی شہباز قلندر کی آخری آرام گاہ پربم پھاڑ کر اس سے صریح انحراف کیا گیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ حکومتی اداروں کی سخت نگرانی اور دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کے بڑےپیمانے پر صفایا کے بعد وہ حساس اہداف تک رسائی کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اب آسان نشانوں کا تعاقب کررہے ہیں اور ان مقامات کا چنائو کررہے ہیں جہاں بھیڑ بھاڑ اور عام لوگوں کا اجتماع ہو بمبار وہاں اپنا کام دکھا جاتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر جانی اتلاف ہوتا ہے اور عام لوگوں میں سراسیمگی پھیلنے لگتی ہے شاید دہشت گردی کا مقصد بھی یہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہاہے کیا یہ کشمیر میں جاری آزادی کی اس تحریک کا جواب ہے جسے مجبور و مقہورخطے کے عوام خالصتاً اپنے وسائل سے چلارہے ہیں یا یہ پاکستان کی ان کوششوں میں رخنہ ڈالنے کے لئے اس راستے کواختیار کیا جارہا ہے جنہیں وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے خوشحالی اور استحکام کی ضمانت بننے والے منصوبوں پر تیزی سے عمل کرکے انجام دے رہا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ دنوں میں رونما ہوئی وارداتیں چند سر پھرے افراد کی کارستانی ہرگز نہیں ہے اس میں زرخیز ذہن کارفرما ہیں جنہیں منصوبہ سازوں کی خدمات حاصل ہیں اور اپنے قابل نفرین عزائم کو پورا کرنے کے لئے ان کے پاس وافر وسائل بھی موجود ہیں۔دشمن نے محض ایک ہفتے میں اس پورے ماحول اور کامیابیوں کے تاثر کو تاراج کردیا ہے جو سلامتی کے اداروں اور عام شہریوں نے سوا دو سال کی لازوال قربانیوں کے ذریعے استوار کیا تھا۔ سولہ دسمبر 2014ء کے دلخراش سانحہ کے بعد جس انداز میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کامل یکسوئی سے شروع کی جانے والی کارروائیوں کے فوری اعادے کی ضرورت ہے بہتر ہوگا کہ قومی قیادت اور سلامتی کے ادارے ایک لحظے کی تاخیر کے بغیر ایک مرتبہ پھر سرجوڑ کر بیٹھیں اور پہلے سے زیادہ کارگر اور موثر لائحہ عمل مرتب کرکے پاکستان اور اس کے عوام کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں کود جائیں اس ضمن میں کسی نوع کا تساہل تباہ کن ہوگا۔ خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام یقیناً مشکل تجویز ہے جمہوری معاشرے میں ایسی عدالتوں کا چلن گوارا نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے ایسے میں غیر معمولی نوعیت کے فیصلے مجبوری بن جاتے ہیں۔ ان عدالتوں کے سلسلےمیں معترضین کے تحفظات کو دور کرکے بلاتاخیر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ان علاقوں میں جہاں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے اور دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے دستیاب ہیں بے رحمانہ کارروائی کا ڈول فوری طور پر ڈال دینا چاہئے۔ نیکٹا کو بلاتاخیر موثر اور فعال بنایا جائے قومی ایکشن پلان کے بارے میں سیاسی بنیادوں پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے کنارہ کشی اختیار کرکے ناقدین اسے مزید موثر اور کارگر بنانے کے لئے اپنا دست تعاون دراز کریں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ پاکستان اپنے دشمنوں کے ارادوں کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے سفارتی سطح پر اپنے دوستوں کو بھی متحرک کرنا ہوگا یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہمارے ازلی دشمن کو بحیرہ اوقیانوس کے پار سے شہ ملنے کی امید پیدا ہوچکی ہے اور وہ پڑوسی جو طویل عرصے سے ہمارے نان و نفقہ پر گزر بسر کررہاتھا ہمارے روایتی دشمن کا آلہ کار بن کر ہمارے لئے باعث آزار بن رہاہے۔ وہ سیاسی لوگ جن کی گز گز بھر کی زبانیں بے لگام ہیں حالات کی اس سنگین نوعیت کا احساس کریں اور اپنے جذبات کو قابو میں لانے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ ملک کو سلامت اور شاداں رکھے سیاست کے لئے بہت وقت دستیاب ہوگا۔