پاناما لیکس کے فیصلے سے دونوں فریق خوش دکھائی دیتے ہیں

April 23, 2017

پاناما لیکس کے فیصلے سے دونوں فریق خوش دکھائی دیتے ہیںپاناما لیکس کا فیصلہ آگیا ہے جس پر دونوں فریق بظاہر خوش اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں اور عام تاثر یہ ہے کہ فیصلے کی وجہ سے پاناما لیکس تو ختم نہیں ہوا مگر پاناما لیکس حصہ دوئم شروع ہوگیا ہے جو اگلے مہینوں تک جائے گا۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ قائم ہے مگر اگلے دو ماہ کے دوران قائم رہتی دکھائی بھی نہیں دے رہی ہے۔ عمران خان کا خیال اور تجزیہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دو سینئر جج صاحبان نے جو کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بن سکتے ہیں وزیر اعظم کو عہدے سے فارغ کردینے کا فیصلہ دیا تھا مگر تین جج صاحبان نے وزیر اعظم کے عہدے کو مزید ہونے والی سماعت پاناما لیکس کے فیصلے کی پہلی چار سطروں میں اطالوی مصنف ماریوپوزوکےناول ’’گاڈفادر‘‘ میں استعمال کی گئی مصنف فلسفی یا ترک کی یہ عالمی سچائی ہے کہ خوش بختی میں صرف بختوں کا استعمال ہی نہیں ہوتا، خوش بختی یا اچھے نصیبوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی اپنا کام دکھارہا ہوتا ہے۔ اشارہ پایا جاتا ہے کہ فارچون میں بددیانتی ،چوری اور جرم کی موجودگی کچھ ایسی خوبی ہوشیاری اور چالاکی کی جاتی ہے کہ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چل سکتا مگر آخری تجزیے میں اس جرم کو چھپانا مشکل ہوسکتا ہے۔پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد اگلے عام انتخابات کی باتیں ہونے لگی ہیں میاں محمد نواز شریف کی پارٹی کے لیڈروں کا کہنا یا دعویٰ ہے کہ اگلی یعنی وزارت عظمیٰ کی چوتھی معیاد بھی میاں صاحب کی ہوگی اور وہ اس کے بعد کے سات سالوں میں بھی حکمران رہیں گے، یعنی میاں نوازشریف کے خاندان یا گھرانے کی حکومت رہے گی۔ہمارے بیشتر ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی سے سیاسی ہمدردی رکھنے و الے سیاسی عناصر کی اکثریت پائی جاتی ہے مگر پارٹی لیڈر شپ کا ان عناصر سے کوئی نظریاتی یا جماعتی رابطہ نہیں ہے اور پارٹی کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے اور ووٹ ڈلوانے کا بھی کوئی یقینی پروگرام نہیں ہے،چنانچہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سب سے مقابلہ ہوگا اور اس مقابلے میں دونوں ایک دوسری جماعت کو نقصان پہنچائیں گے اور ممکن ہے کہ اس مقابلے کا اصل قاعدہ پنجاب میں چودھری ظہور الٰہی کی اولاد کی (ق) لیگ کو پہنچ جائے مگر سندھ کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کا خون ا پنا اثر ضرور دکھاتا رہے گا یہ توقع بھی پائی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران سوچےگئے چین پاکستان اقتصادی کاریڈور کے منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کی سیاست میں کچھ مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں اور جمہوریت کے اصولوں پر عملدرآمد ملک کو جہالت اور پسماندگی ،دہشت گردی اور انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات سے نجات مل سکتی ہے مگر اس ضمن میں یہ اندیشہ بھی پایا جاتا ہے کہ جہالت کے اندھیروں کے سفر میں ہم پاکستانی جو سفر اختیار کرچکے ہیں اس سے واپسی کیسے ممکن ہوگی جہالت کے سفر سے واپس آنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا تو اقتصادی راہداری کے فوائد سے سب سے زیادہ فائدہ چین ہی اٹھا سکے گا پاکستان کے حصے میں بہت محدود فائدے ہوں گے۔



.