آڈیٹر جنرل کی توجہ طلب رپورٹ

August 29, 2017

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ساٹھ میں سے چھتیس وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے مختص سرکاری فنڈز کے استعمال میں تین ٹریلین روپوں کی بے قاعدگیوں اور بدانتظامی کی نشان دہی بلاشبہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ۔ آئین کی دفعہ 171 کے تقاضے کے مطابق یہ رپورٹ صدر مملکت کو پیش کیے جانے کے علاوہ پارلیمنٹ کو بھی فراہم کی گئی ہے۔بتایا گیا ہے کہ یہ نتائج سو فی صد آڈٹ کے نہیں بلکہ محض ایک آزمائشی جائزے کے ہیں ۔ رپورٹ میں اخراجات یا ادائیگیوں کے123ایسے معاملات کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں قوانین و ضوابط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور جن کی مجموعی مالیت876ارب روپے بنتی ہے۔ رپورٹ میں کمزور مالیاتی مینجمنٹ کے 33 کیس بھی شامل ہیں جن کی مجموعی مالیت ایک اعشاریہ نو ٹریلین روپوں کے بقدر بتائی گئی ہے جبکہ ساڑھے نو ارب مالیت کے ایسے52 کیس بھی رپورٹ کا حصہ ہیں جنہیں اثاثوں کی ناقص مینجمنٹ قرار دیا گیا ہے ۔1.53ٹریلین روپے کے78ایسے کیسوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن میں کمزور بین الاقوامی مالیاتی کنٹرول کا مظاہرہ ہوا ہے جبکہ 730ارب روپے کی سرکاری رقوم زائد یا بے جا ادائیگیوں کے زمرے میں شامل کی گئی ہیں۔ ایک ٹریلین سے زائد رقوم کی سپلیمنٹری گرانٹس کے خرچ کی مکمل وضاحت نہ کیے جانے پر بھی رپورٹ میں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ صورت حال یقیناًفوری توجہ کی متقاضی ہے۔ حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں کا فرض ہے کہ قوم کا ایک ایک پیسہ درست طور پر خرچ کریں ۔ پاکستان کے کروڑوں غریب عوام کی امانت کا دانستہ غصب کیا جانا ہی جرم نہیں اسے غفلت اور لاپروائی سے ضائع کرنا بھی حب الوطنی کے منافی ہے۔امید ہے کہ صدر مملکت، پارلیمنٹ اور وزیر اعظم آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی روشنی میں غیرذمہ داری کے مرتکب عناصر کا محاسبہ بھی کریں گے اور ایسے انتظامات بھی کہ آئندہ سرکاری رقوم کے استعمال میں ہر قسم کی بے قاعدگی کا مکمل سدباب ہوسکے۔