سیاسی منظر نامہ، ٹیکنو کریٹ حکومت، ایوانوں میں پر اسرار سرگوشیاں

October 20, 2017

اسلام آباد (طاہر خلیل) سیاسیات میں فوجی حکومت کو اس لئے قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ اختیارات کسی ایک فرد یا ادارے تک محدود کردئیے جاتے ہیں، مبصرین کا ماننا ہے کہ یہی فارمولا جب سویلین اقتدار میں آزمایا جائے گا تو فرد مطلق العنان حکمران بن جائے گا۔ حالیہ دنوں میں ریاست کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے اداروں کے مابین آئینی دائرہ کار کے تحت امور سر انجام دینے کی کیفیت پر زور دیا جارہا ہے اور ملک کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ ریاستی اداروں کے مابین ٹکرائو اور تصادم کے ماحول سے بچاجائے۔تمام یقین دہانیوں کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں پر اسرار سرگوشیاں سنی جارہی ہیں پارلیمانی جمہوریت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ ریاستی ادارے مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ سب آئین کے معین کردہ اصولوں کے مطابق اپنے دائرہ کار میں فرائض منصبی سرانجام دیں۔ لائق ستائش امرہے کہ ریاست کے محولہ تینوں ادارے ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو جاری وساری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں، اس کے باوجود وطن عزیز میں جمہوریت کے مستقبل پر بعض حلقوں کی جانب سے مسلسل خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ٹیکنو کریٹ اور قومی حکومت کے آنے کی باتیں ہورہی ہیں، حکمران مسلم لیگ (ن) اور سرکاری حلقے ایسے تمام خدشات کو مسترد کرتے ہیں جبکہ مخالفین کا یہ استد لال کافی مضبوط ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کاکردار بھی سنبھال رکھا ہے اور سب سے زیادہ عدلیہ ان کے نشانے پر ہے، ایسے میں حکومت خود اپنی رٹ کمزور کررہی ہے۔ وزیراعظم شاہد عباسی نے ایک ہفتے میں3 مرتبہ بات دہرائی کہ ٹیکنو کریٹ حکومت مسائل کا حل نہیں، سپیکر سردار ایاز صادق نے جمعرات کو آئینی حوالوں سے ثابت کیا کہ آئین تین سال کیلئے حکومت بنانے کی اجاز ت نہیں دیتا۔ فوج کےترجمان بھی واضح کرچکے ہیں کہ ملک میں ٹیکنو کریٹ حکومت کے آنے کی باتیں درست نہیں، ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں پر اسرار سرگوشیاں سنی جارہی ہیں۔ جس میں اگر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے عدلیہ پر اعتراضات ہورہے ہیں تو عمران خان الیکشن کمیشن کے آئینی ادارے کی تحقیر کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے۔