تربت میں انسان سوز واقعہ، اصل ذمے دار انسانی اسمگلرز ہیں؟

November 16, 2017

پاکستان میںانسانی اسمگلرز بھی ملک کے لئے مسلسل درد سر بنے ہوئے ہیں ۔ بیشتر بے روزگار افراد اسمگلرز کا آسان ہدف ہوتے ہیںکیوںکہ انہیںبیرون ملک جاکر کمانے، دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔

یہی سنہری خواب دراصل ان افراد کے لئے ایک جھانسہ ثابت ہوتے ہیں۔ بدھ کے روز تربت میںدہشت گردوںکے ہاتھوںمارے جانے والے 15افراد بھی بیرون ملک اور خاص کر ایران جاکر بہتر روزگار حاصل کرنے اور بہترین مستقبل بنانے کے خواہشمند مند تھے لیکن انہیںچلتی گاڑیوںسے اتار کر گولیوںکا نشانہ بنادیا گیا۔

مرنے والے افرادکا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان میںسیالکوٹ کے 4، منڈی بہاؤ الدین کے 3، گوجرانوالہ کے 2واہ کینٹ اورگجرات کا ایک ایک شہری شامل تھا جبکہ 4؍ کی شناخت فوری طور پر نہ ہوسکی۔

لیویز ذرائع کے مطابق تربت سے 30؍ کلو میٹر گروک کے پہاڑی علاقے سے انسانی اسمگلرمنگل کی شب پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15افراد کو تین گاڑیوں میں غیر قانونی طور پر ایران بارڈر لے جا رہے تھے کہ نامعلوم مسلح افراد نے گاڑیوں سے انہیں اتار کر فائرنگ کر کےہلاک کر دیا اور لاشیںچھوڑ کر فرار ہو گئے۔

مرنے والوںمیںسے کچھ کے نام شناخت محمد حسین ( واہ کینٹ)، ذوالفقار( ریلوے پھاٹک منڈی بہاؤ الدین)، خرم شہزاد(منڈی بہاؤ الدین)، غلام ربانی ( وزیر آباد گوجرانوالہ)، زعفران زاہد ( سیالکوٹ)، اظہر وقاص (منڈی بہاؤ الدین) ، سیف اللہ(گجرات)، محمد الیاس (ڈسکہ سیالکوٹ)، عبدالغفور( سیالکوٹ)، طیب (سیالکوٹ)، حسن رضا( گوجرانوالہ) بتائے جاتے ہیں۔

ایرانی سرحد خاص کر ایرانی شہر تفتان غیرقانونی طور داخلے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہاںسے اکثر و بیشتر ایرانی سیکورٹی فورسز، انسانی اسمگلرز میںپھنسے لوگوں کو نکال کر پاکستانی لیویز کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسے واقعات ہر روز پیش آتے ہیںاور اب تک انگنت افراد کو تفتان سے گرفتار کرکے لیویز کے حوالے کیا جاچکا ہے۔

غیرقانونی طورپرایران میں داخل ہونے کی اصل وجوہات یہ ہیںکہ انسانی اسمگلرز لوگوں کو ایران سے ترکی اور پھر یونان کے راستے یورپی ممالک بھیج دیتے ہیں اور اس کام کے لئے وہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔