داخلی انتشار اور پیرس اجلاس کے فیصلے

March 07, 2018

کیسا منظر ہے؟ پاک امریکہ مذاکرات کیلئے امریکی عہدیدار یکے بعد دیگرے اسلام آباد آجارہے ہیں لیزا کرٹس بھی ابھی اسلام آباد لوٹی ہیں مزید مذاکرات کی توقع ہے۔ ان ملاقاتوں اور مذاکرات میں کن امور اورحقائق کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ا س بارے میں عوام کو قطعاً کوئی علم نہیں صرف وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان ہی واحد ذریعہ اطلاع ہے۔ فنانشل ٹاسک فورس (FATF) کے اجلاس اور مذاکرات سے قبل تو امریکی دبائو کی شدت تھی اور ہماری جانب سے بھی جاندار بیان تھا کہ اب ہم سے ’’ڈومور‘‘ کی توقع نہ رکھی جائے۔ ہمارے وزیر خارجہ ماسکو جاکر انتہائی تجربہ کار روسی وزیر خارجہ لاروو سے ملے اور یہ تاثر قائم کیا کہ روس پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل نہیں ہونے دے گا۔ لیکن جب حقائق سامنے آئے تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کی ’’نروس‘‘ کیفیات اور بند کمروں میں خوشامدانہ مذاکرات کی تفصیلات شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ اور اب لشکر طیبہ اور دیگر معاملات بارے اپنی طے شدہ پالیسی کے برعکس جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ پیرس کے مذاکرات میں ہمارے خوف زدہ نمائندوں نے کن کن امور پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اب عملی اقدامات کے ذریعے غیروں کو مطمئن کرنے کیلئے کام شروع کردیا ہے ۔ اب امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جوزف ووٹل نے بھی پاک۔ امریکہ تعلقات میں جاری کشیدگی کے برعکس پاکستان کی جانب سے ’’مثبت اشاروں‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے اور ا سے امریکی کانگریس کی کمیٹی کو بھی آگاہ کیا ہے۔ پاک۔ امریکہ تعلقات میں مثبت پیش رفت یا کشیدگی میں کمی ایک اچھی خبر ہے لیکن ڈپلومیسی کی دنیا میں کیس پر بھی ’’فری لنچ‘‘ کا کوئی رواج نہیں ۔ کچھ پانے کیلئے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ البتہ اس لین دین کے بارے میں ملک کے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے کیونکہ پاکستان حکمراں طبقہ کی میراث نہیں ہے کہ اس کی سرزمین پر غیرملکی فضائی اڈوں کی تعمیر و استعمال سے لیکر ہر طرح کی سرگرمیاں عوام سے ہی خفیہ رکھی جائیں۔ عوام کے سامنے بیانات میں تو سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ دعوے کئے گئے کہ اب پاکستان امریکہ کے دبائو میں مزید نہیں آئے گا اور مزید کوئی امریکی مطالبات نہیں مان سکتا مگر زمینی حقائق یہ واضح کررہے ہیں کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے بارے میں بالآخر امریکی اور بھارتی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے مطابق عمل کو مکمل کیا جارہا ہے۔ کیا ماضی میں ہمارا موقف غلط تھا یا اب کوئی نئی حقیقت کا سامنا ہے؟ اس اجلاس میں فیصلہ اتفاق رائے سے ہونا ضروری تھا۔ ہم نے تو روس، چین اور ترکی میں سے بھی کسی کو اپنے حق میں استوار نہیں کیا کہ وہ ہماری حمایت کرکے اتفاق رائے سے کانفرنس کو فیصلہ کرنے سے روک سکیں۔ ہم نے تو FATF کے اجلاس سے قبل نہ تو اپنے دوستوں سے مشورہ کیا نہ ہی اپنی ترجیحات بتائیں اور نہ ہی بھارت ۔ امریکہ اشتراک کے ’’ٹرمپ‘‘ سے بچنے کی کوئی حکمت عملی تیار کی۔ محض گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں گئے اور اپنی داخلی سیاست کے شور میں غیرملکی دبائو کے مطابق یقین دہانیاں کراکے لوٹ آئے کہ اب تین ماہ کے عرصہ میں کئے گئے۔اقدامات کی روشنی میں پاکستان کو فہرست میں شامل کرنا یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ اول تو یہ فورم سلامتی کونسل کی قراردادوں کے موضوع پر بحث اور فیصلوں کا فورم نہیں بلکہ دہشت گردی اور ایٹمی عدم پھیلائو جیسے موضوعات پر سنجیدہ گفتگو اور منی لانڈرنگ بارے اقدامات کا فورم ہے لیکن داخلی سیاست کے انتشار میں گھری ہوئی حکومت اور قائدین نے ناتجربہ کار اور ڈپلومیسی سے نابلد افراد کو ملک کی نمائندگی کیلئے بھیج دیا ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ خود پاکستانی حلقوں نے یہ ’’بڑھک‘‘ بھی ماری کہ پاکستان اب امریکی کیمپ کو خیرباد کہہ چکا ہےاور امریکی مطالبات نہیں مانے گا۔ روس پاکستان کا ساتھ دیگا۔ اس خبر کے ردعمل میں پاکستان بارے معتدل رویہ سخت موقف میں تبدیل ہوگیا اور بھارتیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ پاکستانی نمائندے بالآخر امریکی مطالبات اور موقف تسلیم کرکے لوٹے اور بھارتی مقاصد کو بھی پورا کرڈالا۔ پاکستان کے مشیر فنانس ابھی تک یہ واضح نہیں کرسکے کہ کیا آئندہ جون میں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرلیا جائے گا یا کرنے کےبارے میں غور اور فیصلہ ہوگا؟ کیا چین اور روس نے اس کانفرنس میں ہماری حمایت کرنے سے انکار کیا ہےیا پھر کوئی اور معاملہ ہے؟ یورپی اور دیگر رکن ممالک کانفرنس سے قبل پاکستان کی جانب سے کئے گئے بعض اقدامات نے پاکستان کیلئے ایک بہتر صورتحال پیدا کی تھی اور ماحول اتنا پریشان کن اور پاکستان کیلئے ناموافق نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی کسی سازش کے تحت پاکستان کیلئے ایک شدید دبائو کی صورتحال پیدا کی گئی۔ پیرس اجلاس کے بعد امریکی عہدیدار لیزا کرٹس کے دورہ پاکستان کے بعد جاری ہونے والے بیان میں 27؍فروری کو پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرے۔ اس بیان میں ایک بار پھر پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ منی لانڈرنگ کے خاتمہ کرنے میں (DEFICIENCY) کمی کو پورا کرکے دہشت گردی ختم کرنے کے مالی نظام کے نفاذ میں مدد کرے۔ اس بیان کے بعد یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ امریکہ اور بھارت کے مطالبات کس قدر یکساں ہیں اور ہمارے سخت انکاری موقف کی حقیقت کیا ہے؟ ہمارے مشیر خزانہ کا 14؍ فروری کا یہ بیان کتنا حقیقی تھا کہ اگر امریکہ نے پاکستان کا نام’’ گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی تب بھی ہم اسے ناکام بنادیں گے۔ اس بیان کا نتیجہ اور حقیقت بھی ہمارے سامنے آگئی۔ عالمی سفارت کاری اور مالیاتی تناظر کو سمجھنے کیلئے صرف اپنے ذاتی کاروبار میں منافع اور کامیابی کمالینا قطعاً کافی نہیں۔ عالمی مالیاتی سفارت کاری ایک مشکل کام ہے جس کیلئے محض کاروباری تجربہ اور حکومتی منصب ہونا کافی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مجھے انتہائی تجربہ کار سابق سفیر منیر اکرم کی اس رائے سے بالکل اتفاق ہے کہ اب پاکستان سے امریکی و بھارتی مطالبات میں مزید اضافہ ہوجائےگا اور بات صرف منی لانڈرنگ تک نہیں رہے گی بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر یکطرفہ ’’احتیاطی اقدامات ‘‘ (RESTRAINTS) تک جائے گی اور یوں پاکستان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ان مطالبات کو مانتا ہوا ’’ٹریپ‘‘ میں جاسکتا ہے۔ یہ خدشہ ایک ایسے تجربہ کار ڈپلومیٹ کا ہے جو اقوام متحدہ کےمحاذ پر سالہا سال تک پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف عالمی برادری سے کروا چکا ہے ۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ لشکرطیبہ کے خلاف پاکستانی قانون کے تحت نہ تو کوئی الز ام یا مقدمہ درج ہے اور نہ ہی وہ دہشت گردی کرتے ہیں البتہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حامی ضرور ہیں۔ اب ا س بارے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 1267کا اطلاق کرنے کے بعد پاکستان نے نہ صرف اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے بلکہ اب کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت جاری رکھنے کیلئے کوئی نیا طریقہ ، کوئی نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ کیا ہم نے کشمیر کے بارے میں کوئی نئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ افغانستان اور طالبان کے معاملے پر بھی امریکی ۔ بھارتی مطالبات کے جواب میں پاکستان کا موقف یہ رہاہے کہ ہماری سرزمین پر دہشت گردو ں کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب محفوظ پناہ گاہیں پاکستان سرزمین پر نہیں ہیں بلکہ افغان سرزمین پر امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود طالبان نہ صرف موجود اور سرگرم ہیں بلکہ بہت بڑے افغان علاقوں پر طالبان کا کنٹرول بھی ہے۔ سلامتی کونسل کی اقوام متحدہ کے منشور کے چیپڑ سات کے تحت منظور شدہ قرارداد نمبر 1267کے اطلاق کے نام پر پاکستان نے غیرملکی دبائو کے تحت جو اقدامات شروع کئے ہیں ان سے نہ صرف ہم نے اپنے سالہا سال کے موقف اور حکمت عملی کو تبدیل کرلیا ہے بلکہ اپنے لئے ایک نیا پنڈورا بکس بھی کھول لیا ہے۔ اگر موجودہ کمزور حکومت کے نمائندے دبائو ، گھبراہٹ اور ناتجربہ کاری کے ہاتھوں پیرس کانفرنس سے یہ لیکر لوٹے ہیں تو پھر آنے والی عبوری حکومت عام انتخابات منعقد کرانے کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا میں پاکستان کے مفادات کی حفاظت کا نازک اور اہم کام کیسے سرانجام دے گی؟ دیکھئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اگلے اجلاس میں ہم سے مزید کیا مطالبات کئے جاتے ہیں؟