ٹرمپ نے اپنے تیسرے قومی سلامتی مشیر کو بھی ہٹادیا

March 24, 2018

واشنگٹن (جنگ نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےگزشتہ ایک برس کے دوران اپنے قومی سلامتی کے دوسرے مشیر کو بھی ہٹادیا ہے ، انہوں نے ایچ آر میک ماسٹر کی جگہ بش دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں جنرل میک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کا کہا کہ ’انھوں نے بہترین کام کیا اور وہ ہمیشہ میرے دوست رہیں گے۔‘ اطلاعات کے مطابق جنرل میک ماسٹر کو دوبارہ فوج میں بھیج دیا گیا ہے۔ جان بولٹن شمالی کوریا اور ایران پر حملہ کرنے کے حامی رہے ہیں ۔ انہیں اسرائیل کا دوست قرار دیا جاتا ہے ۔وہ اسرائیل فلسطین تنازع کے دور ریاستی حل کے بھی سخت مخالف ہیں۔ اسرائیل نے ان کی تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے انتہائی اہم اور سینئر عہدوں پر اسرائیل کے دوستوں کی تعیناتی کا سلسلہ جاری ہے، جان بولٹن انہی میں سے ایک ہیں ۔اسرائیلی وزیر انصاف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی اب تک کی سب سے قریبی اور دوستانہ انتظامیہ ثابت ہورہی ہے ۔ فلسطین نےبولٹن کی تعیناتی پر شدید تنقید کی ہے ۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سینئر عہدیدار حنان اشروی نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ بولٹن کی فلسطین کیساتھ دشمنی کی ایک تاریخ رہی ہے ، جب وہ اقوام متحدہ میں تھے تو اسرائیلی استثنیٰ کی حفاظت کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شدت پسند صیہونیوں ،بنیاد پرست عیسائیوں اور سفید فام نسل پرستوں سے ہاتھ ملا لیا ہے ۔ ادھر جان بولٹن نے فوکس نیوز کو بتایا کہ ’میرا کام اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ امریکی صدر کے پاس مکمل اختیارات کا مکمل انتخاب موجود ہو۔‘ خیال رہے کہ جنرل میک ماسٹر حالیہ دنوں کے دوران وائٹ ہاؤس سے جانے والے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے ایک ٹوئٹ کے ذریعے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے امریکا کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ مائیک پومپیو کو ان کی جگہ وزیر خارجہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ریکس ٹلرسن کو صدر ٹرمپ نے تقریباً ڈیرھ برس قبل امریکا کا وزیرِ خارجہ تعینات کیا تھا اور وائٹ ہاؤس کے ساتھ ان کے تعلقات کئی موقع پر کشیدہ رہے۔ جان بولٹن جن کی تعیناتی کے لیے امریکی سینیٹ کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ گذشتہ 14 مہینوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے تیسرے قومی سلامتی کے مشیر ہوں گے اور وہ نو اپریل کو اپنا کام شروع کریں گے۔ جان بولٹن کا اپنی تعیناتی کے حوالے سے کہنا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں ’تاکہ ہمارے ملک کو اندرونی طور پر محفوظ اور بیرون ملک مضبوط تر بنایا جا سکے۔‘ 69 سالہ جان بولٹن دہائیوں سے رپبلکن جماعت میں خارجہ امور پر جارحانہ پالیسی کے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے سابق امریکی صدور رونالڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش سینیئر اور جارج بش جونیئر کی انتظامیہ کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ جارج بش جونیئر نے جان بولٹن کو اقوام متحدہ میں امریکہ کا سفیر تعنیات کیا تھا۔ قدامت پسند جان بولٹن نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے خلاف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا مقدمہ قائم کرنے میں بھی مدد دی تھی جو غلط ثابت ہوا تھا۔ جان بولٹن عراق پر امریکی حملے کے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے اخبارات میں شمالی کوریا اور ایران پر فوج کشی کی بھی حمایت کی تھی۔ جمعرات کو ایک مختصر بیان میں جنرل میک ماسٹر نے اس تقریری کے لیے امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اس سال کے اختتام پر امریکی فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ 55 سالہ تین سٹار جنرل میک ماسٹر صرف ایک سال کے بعد امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اس بارے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور جنرل میک ماسٹر نے ’باہمی طور پر اتفاق‘ کیا تھا کہ میک ماسٹر اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔دریں اثناء سال 2016ء کے انتخابات میں روسی مداخلت کی تفتیش پر مامور اسپیشل قونصل کے سامنے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نمائندگی کرنے والے اہم قانون داں کے لیے بتایا گیا ہے کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں۔’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ اخبارات نے خبر دی ہے کہ بطور صدر کے ذاتی وکیل، جان ڈوڈ نے جمعرات کو استعفیٰ پیش کیا۔رپورٹ میں فیصلے سے مانوس افراد کا حوالہ دیا گیا ہے، جنھوں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے۔ڈوڈ ایسے وقت الگ ہو رہے ہیں جب صدر نے ایک سابق یو ایس اٹارنی جوزف ڈی جینووا کو اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ زیادہ جارحانہ قانونی حکمتِ عملی کو آگے بڑھائیں گے۔