دھوکے باز و جعلساز ایجنٹوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے

March 25, 2018

پاکستان ہی نہیں، بلکہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی بڑی تعداد اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل بہتر کرنے کی خاطر ترقی یافتہ ممالک میں کا سفر کرنے کی کوششوں میںرہتے ہیں، جس میں بعض دفعہ کامیاب ہوجاتے ہیں، جبکہ بعض دفعہ ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے ،جس سے سہانے مستقبل کا خواب ایک تاریک اور خطرناک مستقبل کی صورت میں نکلتا ہے ۔

ان دنوں جاپان آنے کے خواہشمند افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے، خاص طورپر پنجاب کے دیہی علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں سادہ لوح پاکستانی لاکھوں روپے خرچ کرکے جاپان آنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جس کے سبب دھوکہ باز اور جعلساز ایجنٹوں کی چاندی ہوگئی ہے ،جو معصوم پاکستانیوں کو ان کے پاسپورٹ پر جعلی ویزے لگواکر پندرہ سے بیس لاکھ روپے تک وصول کررہے ہیں، جبکہ سادہ لوح پاکستانی بیرونی دنیا میںقدم رکھنے کے لیے اپنی زمین اور گھر بار بیچ کر یا پھر ادھار لے کربھاری رقوم ان ایجنٹوں کو دے بھی رہے ہیں، جس کے بعد اکثریت ہی یا توپاکستان یا پھر جاپان میں گرفتار ہوکر جیلوں میں قید ہوجاتی ہے جہاں ایک طویل سزا ان کا مقدربن جاتی ہے ۔

گزشتہ دنوں جاپان کے صوبے ایباراکی کین میں امیگریشن کے حراستی مرکز سے فون کال موصول ہوئی دوسری جانب ایک نوجوان جس نے پنا نام شہبا ز بتایا ،اس نے کسی طرح سے میرا نمبر حاصل کرکے مجھ سے رابطہ کیا تھا ، وہ مجھ سے ملنا چاہ رہا تھا اور امیگریشن سے باہر نکلنے کے لیے کسی قانونی مدد کی فراہمی کا خواہاں تھا ، میں نے تفصیلات حاصل کرکے اس سے ملاقات کا وعدہ کیا اور چند روز بعد اس سے ملاقات کے لیے حراستی مرکز پہنچ گیا ۔

اس نے بتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے مضافاتی شہر منڈی بہاوالدین سے ہے اور اس کے علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ یورپ اور جاپان جیسے ممالک میں مقیم ہیں ،جہاں سے انھوں نے کافی دولت پاکستان میں اپنے اہل خانہ کو بھیجی اور ان کے حالات بدل گئے ہیں لہذا میں نے بھی باہر نکلنے کوششیں شروع کردیں اور کسی واقف کے ذریعے ایک ایجنٹ سے ملاقات ہوئی جس نے جاپان بھجوانے کے پندرہ لاکھ روپے طلب کیے ۔اتنی بڑی رقم تو میرے پاس نہیں تھی لیکن باہر جانے کے شوق نے کسی بھی طرح اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنے کی کوششیں شروع کردیں ، بیگم کے زیورات بیچے جبکہ والد کی زمین بیچنے کی کوششیں شروع کیں تو والدہ اور بھائیوں نے شدید مخالفت شروع کردی، والد کا انتقال ہوچکا تھا، سب سے بڑا میں ہی تھا لہذا سب کو زبردستی یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ جاپان جاکر جلد ہی اس سے زیادہ زمین خرید لیں گے، لہذا سب مان گئے اور میں نے وہ زمین بھی اونے پونے داموں میں فروخت کی اور وہ رقم ایجنٹ کے ہاتھوں میں تھما دی ، جس کے بعد ایجنٹ نے میرا پاسپورٹ بنوایا اور اس پاسپورٹ پر پہلے دبئی کا ویزہ لگوایا اور اس کے ساتھ ہی جاپان کا ویزہ بھی لگوایا ، اس ایجنٹ نے یہ بھی بتادیا تھا کہ جاپان کا ویزہ جعلی ہے لہذا پہلے تمہیں دبئی بھجوایا جائے گا، جہاں تم تین سے چار دن رکو گے وہاں سے تمہیں جاپان کا ٹکٹ دلوا کر روانہ کردیا جائے گا ۔جاپان پہنچ کر امیگریشن پر تمہیں روک لیا جائے گا کیونکہ ویزہ جعلی ہوگا، تو پریشان نہیں ہونا اور کسی بھی طرح واپس پاکستان جانے کے لیے تیار نہیں ہونا ، جس کے بعد جاپانی امیگریشن ایک سے دو دن تک تمہیں ائرپورٹ پر ہی رکھے گی، جس کے بعد تمہیں حراستی مرکز روانہ کردیا جائے گا، جہاں پانچ سے چھ مہینے بعدتمہیں چھوڑ دیا جائے گا ۔ میں نے اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا تمہیں اگر سب کچھ پہلے سے معلوم تھا تو تم نے ایجنٹ کو پندرہ لاکھ روپے کیوں دیے؟میرے سوال کے جواب میں شہباز نے بتایا کہ میں بس کسی بھی طرح جاپان پہنچنا چاہتا تھا اس لیے ہر بات اور ہر شرط قبول کرلی ۔ میں پھر اس سے پوچھا تو اب کیا پوزیشن ہے ؟ شہباز نے بتایا کہ اس کے پاس اخراجات کے لیے رقم ختم ہوگئی ہے جبکہ گھر والے پاکستان میں بہت پریشان ہیں خدارا مجھے کسی بھی طرح یہاں سے باہر نکلوادیں ۔ میں نے شہباز سے کہا کہ آپ امیگرشن والوں کو سب سچ سچ بتائو کہ تم پاکستان جانا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جلد پاکستان بھجوادیں گے۔

میرے سوال پر اس نے کہا کہ میں پاکستان تو کسی صورت نہیں جاسکتا ، وہاں نہ اب زمین بچی ہے اور نہ ہی کوئی ذریعہ آمدنی ، گھر والوں کے حالات بہت ہی خراب ہیں ، مجھے آپ کسی طرح یہاں سے باہر نکلوا کر رہائش اور ملازمت کا بندوبست کرادیں تاکہ جو پیسہ خرچ کرکے آیا ہوں وہ کسی طرح کما کر واپس بھجوا سکوں تاکہ بیگم کا زیور ، لوگوں کا ادھار اور اپنی زمین تو واپس خرید سکوں ورنہ تو میں جیتے جی ہی مرجائوں گا ۔ مجھے شہباز کی حالت پر رحم بھی آرہاتھا اور غصہ بھی کہ ایک انجانے ملک میں سب کچھ بیچ کر آجانا اور جیل میں بند ہوجانا کتنا خطرناک کام ہے لیکن اب وہ آچکا تھا ، لہذا وکیل سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی سیاسی پناہ اپلائی کردے تو اسے جاپان میں رہائش کے ساتھ چھ مہینے کے بعد کام کرنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے ، میں کئی ایسے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو خدمت خلق کے جزبے سے ایسے پاکستانیوں کے جرمانے بھی بھر دیتے ہیں اور ان کو رہائش اور ملازمت کی فراہمی کے لیے مدد کرتے ہیں لہذا دو تین لوگوں کا فون نمبر شہباز کو دیا کہ آپ ان سے رابطہ کرکے باہر آنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا کہ صاحب ثروت پاکستانی نے شہباز کو جیل سے نکلوانے کے لیے اس کا جرمانہ اور ضمانت کے کاغزات بھی جمع کرائے اور اسے رہائش بھی فراہم کی اور چند ماہ بعد شہباز جاپان میں روزگار حاصل کر چکا تھا ۔

ایک روز شہباز کا فون مجھے موصول ہوا ، وہ بڑا خوش تھا کہ اسے نوکری مل چکی تھی ، کام کرنے کا اجازت نامہ اور رہائش بھی مل چکی تھی ، گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس نے کافی رقم پاکستان بھی بھجوادی تھی ، لیکن وہ افسردہ تھا ، اسے معلوم تھا کہ عنقریب اس کی سیاسی پناہ کی درخواست رد کردی جائے گی اور اسے پاکستان ڈی پورٹ کردیا جائے گا، وہ اب بھی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں موجود لوگوں کو بتائیں کہ باہر نوٹ درختوں پر نہیں لگتے،بہت مشکلات ہوتی ہیں یہاں پیسہ کمانے کے لیے کوئی بھی اپنا گھر ،زمین بیچ کر بیرون ملک جانے سے گریز کرے کیونکہ یہاں کئی سال محنت کرکے صرف قرض ہی اتارسکوں گا یا اپنی زمین واپس لے سکوں گا جس کے بعد مجھے یہاں سے نکال دیا جائے گا تو پھر میں ایک بار پھر صفر پر ہی کھڑا ہوں گا ، لہذا سب بھائیوں سے درخواست ہے کہ اچھی تعلیم حاصل کریں اور پاکستان میں روزگار حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ دو ر کے ڈھول سہانے ہی نظر آتے ہیں ۔