سول جج کے امتحان میں اول امیدوار کا جج بننے کا خواب بکھر گیا

April 22, 2018

اسلام آباد (عمر چیمہ ) یوسف سلیم کا خواب تھا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنے ،یوسف نے 2014 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی (آنرز )پروگرام میں گولڈ میڈل جیتا ۔تین سال بعد اس نے سول جج کیلئے امتحان دیا اور اس میں یوسف پہلے نمبر پر رہے لیکن صرف نابینا ہونے کی وجہ سے انٹرویو میں وہ فیل ہوگیا ۔یوسف ملازمت کے اشتہار کے مطابق امیدوار کی اہلیت پر پورا اترتا ہے ،جس میں ان کے پاس یونیورسٹی سے ڈگری ،وکیل ہونے کا دو سالہ تجربہ ،عمر کی حد 22 تا 35 سال تھی ۔اگر اس اشتہار سے رہنمائی لی جائے تو نابینا ہوتے ہوئے ان کی معذوری نااہلیت نہیں تھی تو اس کے علاوہ ان کیلئے تین فیصد کوٹہ مختص ہے ۔یہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایگزامنیشن کمیٹی پہلے ہی ان کی معذوری سے آگاہ تھی ،2007 سے سی ایس ایس امتحان کی طرح سے ان سے کمپیوٹر بیس امتحان کا بندوبست کیاگیا ،یوسف انٹر ویوپینل کے سامنے آنے تک یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تحریری ٹیسٹ میں سب سے نمایاں رہے ہیں ،پینل سربراہ نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امتحان میں 300 امیدوار تھے جن میں سے آپ پہلے نمبر پر ہیں ،دوسری طرف انٹرویو میں کچھ ایسا ہوا کہ وہ مایوس ہوگئے ،ان سے پوچھے گئے سوالوں میں سے زیادہ تر ان کی بینائی کی معذوری سے متعلق تھے جسے ایک جج ہونے میں ایک بڑی مشکل کے طور پر لیاگیا ۔ان سے ابتدا میں پوچھا گیا کہ ان کی لیگل پریکٹس کس طرف ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ سول کی طرف ہے او ر اب وہ پنجاب حکومت کے محکمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر (لیگل )کے طور پر کام کررہے ہیں لیکن زیادہ تر سوالات جرمیات کے تھے کہ کیسے وہ ایک جج کی طرح سے کیسے ڈیل کر پا ئینگے ۔مثال کے طور پر پینل نے پوچھا’’کیسے آپ گواہوں کی ناقابل فہم عبارت سمجھ پائینگے ؟‘‘’’گواہوں کی فہرست میں اسی شخص کو کیسے جانچیں گے ؟‘‘’’دستاویزات کا اندازہ کیسے کر ینگے ‘‘؟وغیرہ ۔یوسف نے پینل کو بتاتے ہوئے کہا کہ بینائی کی معذوری سے مشکل ہوئی تو وہ اپنے اسٹاف سے مدد لینگے اور یہ بھی ہے کہ کیسز کو صرف ایک جج ہی نہیں دیکھتا ،فیملی کورٹس ،بینکنگ کورٹس ،رینٹ کورٹس اور آلٹرنیٹ ریزولوشن فورم وغیر ہ بھی ہیں کہ جہاں وہ کام کرسکتے ہیں ، اگر کرمنل کیسوں میں ان کی بینائی سے مشکل ہوتی ہے ۔انٹرویو پینل نے ان کی بات کو میرٹ پر نہیں لیا ،یوسف نے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا لیکن 18 اپریل کو اس وقت ان کا خواب ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا کہ جب ویب سائٹ پر کامیاب امیدواروں کی فہرست لگائی گئی ۔اس لسٹ میں سب سے نمایاں رہنے والے اس امیدوار کا نام نہیں تھا ،انہوں نے اب تک امید نہیں چھوڑی کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس تفریق کا نوٹس لینگے ۔چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے بیٹے یوسف پیدائشی نابینا ہیں اور ان کی چار بہنیں ہیں او ر ان میں سے بھی دو نابینا ہیں ۔انہوں نے معذوری کو قسمت سے قبول نہیں کیا اور اپنی قابلیت سے خود کو ثابت کردیا ۔ان کی بہن صائمہ سلیم 2007 میں سی ایس ایس کرنیوالی پہلی نابینا خاتون تھیں ۔وہ کنارڈ کالج سے گولڈ میڈلسٹ ہیں ،صائمہ نے چھٹی پوزیشن حاصل کی اور فارن سروس میں چلی گئیں ۔ان کی تعیناتی جینیوا اور نیو یارک میں پاکستانی یو این مشنز پر ہوئی اور اب وہ وزیرا عظم سیکریٹریٹ میں نائب سیکریٹری کے طور پر کام کررہی ہیں ۔یوسف کی دوسری بہن لاہور کی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور اپنا پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں ۔یوسف ان سب سے چھوٹا ہے ۔اگر اس کیس میں نظر ثانی کرلی جائے تو یہ دنیا میں نہیں پاکستان میں پہلے نابینا جج ہوجائینگے ،دوسرے ممالک میں ایسے ججز یوسف کے خواب کو تحریک بخشتے ہیں ،جسٹس زکریا محمد یعقوب جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت کے 1998 سے 2013 میں جج تھے ،رچرڈ کونوے کازے امریکی ڈسٹرکٹ عدالت کیلئے نیو یارک کے جنوبیضلع کے جج تھے ،جان لیفرٹی سنیئرس بروک کرائون کورٹ کے جج تھے ،(سنیئر س بروک لندن میں ٹوئنٹئ کرائون کورٹس کے ساتھ سب سے بڑی عدالت ہے )رچرڈ ٹیٹل مین مسوری میں جج ہیں ،ڈیوڈ ٹیٹل واشنگٹن ڈی سی میں وفاقی اپیل کورٹ کے جج،رچرڈ برنسٹین مشی گن سپریم کورٹ کے جج ،ٹی چکرا ورتھے بھارت کے تامل ناڈو کے جج اور براہمناندا شرما دیگر کی طرح بھارت کے اجمیر ضلعے کے سول جج ہیں ۔اگرچہ یوسف نے ویژن کھودیا لیکن انہوں نے اپنا خواب دیکھا نہیں چھوڑا ۔مارٹن لوتھر کنگ کی طرح ان کا خواب ہے کہ جب وہ سپریم کورٹ کے اجلاس میں اٹھیں گے تو لوگ انہیں ان کی ذاتی نسبت یا کسی اعضا کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اہلیت سے پسند کرینگے۔