لاشوں والے صندوق

May 30, 2018

جب کبھی کوئی غیر متوقع بات یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو اسے اتفاق کا نام دے دیا جاتا ہے، پھر چاہے وہ خوشگوار ہو یا ناخوشگوار، ہوتا تو غیر ارادی طور پر ہی ہے۔ بعض اوقات کچھ سلسلے یا کچھ حالات و واقعات ایسے رونما ہو جاتے ہیں، جو بظاہر تو ایک دوسرے سے منسلک نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ محض اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ ایسی صورتحال میں اصل پریشانی کا سامنا تفتیش کاروں کو ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب کبھی کوئی پُراسرار حادثہ یا جرم ہوتا ہے، تو تفتیش کے لیے سب سے پہلے جائے وقوع سے ملنے والے شواہد کو اکھٹا کیا جاتا ہے، پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملنے والے شواہد کس حالت اور کن حالات میں وہاں سے تفتیش کاروں کو موصول ہوئے اور جرم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

بعدازاں انہی شواہد کو بنیاد بنا کر کسی بھی کیس کی تفتیش کی جاتی ہے۔ اب اگر ایسی صورتحال میں اتفاق سے اتفاقات ہونے لگیں تو غلط فہمی اور مسائل کا انبار لگ جاتا ہے، نیز مجرم کی پکڑ بھی ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ ایسے میں تفتیش کار کیس کی چھان بین میں بُری طرح الجھ کررہ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو ثبوت، جو شواہد پہلی نظر میں کسی کیس سے جُڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور جن کی بنیاد پر وہ مجرم تک بس پہجنے والے ہی ہوتے ہیں کہ اچانک ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عجیب و غریب اتفاق ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسا ہی کچھ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 1930ء کی دہائی میں پیش آیا، جب چند قتل کی وارداتیں رونما ہوئیں، جو بظاہر تو کسی سیریل کلر کی کارروائی معلوم ہوتی تھیں، مگر وہ حقیقت میں محض اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں تھیں، ان تمام کیسز میں جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کا جرم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا اور تمام وارداتوں میں قاتل الگ الگ تھے، جنہوں نے مقتول کو کسی ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ایک ہی طرح سے قتل کیا۔ لیکن ان کے باعث کیس میں دلچسپ موڑ یا عجیب کہانیاں پیدا ہوگئیں۔

لندن کے مختلف اسٹیشن سے خواتین کی کٹی ہوئی لاشیں بند صندوق سے ملنی شروع ہوئیں تو کہا جانے لگا کہ یہ کوئی سیریل کلِر ہے، جو پہلے خواتین کی بے دردی سے جان لیتا ہے اور پھر ان کے ٹکٹرے ٹکٹرے کرکے صندوق میں بند کرکے الگ الگ اسٹیشن پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی کٹی ہوئی لاش 10 مئی 1927 کو لندن میں واقع ’’چرنگ کراس اسٹیشن‘‘ سے اُس وقت برآمد ہوئی جب اس میں سے تعفن اُٹھنے لگا تھا۔ بُو نے اسٹیشن اسٹاف کو اپنی جانب متوجہ کیا، چھان بین سے معلوم ہوا کہ یہ مشتبہ صندوق تین دن سے لاوارث اسی جگہ پر پڑا ہوا ہے اور کسی کو خبر نہیں کہ یہ کس کا ہے، کون اسے یہاں یوں چھوڑ کر گیا ہے۔ اسٹیشن اسٹاف نے فوراً پولیس کو رپورٹ کی، جس کے بعد تفتیش کاروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر قانونی کارروائی شروع کر دی۔ انہوں نے جب صندوق کو کھولا تو اس میں پانچ کاغذ کے بیگز برآمد ہوئے جنہیں تار کی مدد سے پیک کیا ہوا تھا۔ جب ان بیگز کو کھولا گیا تو اس میں کسی شخص کے کٹے ہوئے اعضاء تھے۔ جسے بُری طرح کاٹ کر پیک کر دیا گیا تھا۔ تفتیشی اہل کاروں نے انہیں فورنزک لیب، سر برنارڈ سپیلسبری کے پاس پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ رپورٹ آنے کے بعد انکشاف ہوا کہ جو اعضاء صندوق سے برآمد ہوئے تھے وہ کسی خاتون کے تھے، جس کی عمر تیس برس تھی، تفتیش سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے والی خاتون کا نام ’’مینی ایلس بوناتی‘‘ ہے اور اس کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کی تشخیص سے پولیس ’’جان روبن سن‘‘ نامی شخص تک پہنچ گئی، ان کے مطابق یہ صندوق اس کا تھا۔ بعدازاں دوران تفتیش جان روبن سن نے اسکارٹ لینڈ یارڈ کے سامنے قبول کر لیا کہ خود کو بچاتے ہوئے اسی نے مینی ایلس بوناتی کا قتل کیا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ، ’’مینی ایلس نے مجھ پر اس وقت حملہ کیا جب میں نے اسے پیسے دینے سے انکار کیا اور خود کو بچاتے ہوئے اس کی جان چلی گئی‘‘، جس کے بعد وہ گھبرا گیا اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے صندوق میں بند کیے اور صندوق قریبی اسٹیشن لے کر گیا، جہاں ایک جگہ رکھ کر اس طرح چھوڑ آیا کہ کسی کو اس پر شک نہ ہوا۔ لیکن یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ پولیس اہل کاروں نے اسے گرفتار کر لیا۔ عدالت نے اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے سزائے موت سنائی، جس پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے 12 اگست 1927 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔

اس واقعے کو گزرے سات برس ہی ہوئے تھے کہ، صندوق سے لاشیں ملنے کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ اب کی بار لندن کے ’’برانٹن ریلوے اسٹیشن‘‘ سے ’’ولیم جوزف‘‘ نامی شخص کو ایک مشتبہ بکس ملا جس میں سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ اس نے پولیس کو خبر دی جس پر چیف انسپکٹر ’’رونلڈ ڈونلڈسن‘‘ نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر اس بکسے کو کھولا تو اس میں سے کسی خاتون کا دھڑ بُری حالت میں ٹکڑوں کی صورت میں تھا، اس کا سر، ہاتھ اور پیر نہیں تھے۔ اس لیے اس کی شناخت کرنا بے حد مشکل تھا۔ اس بکسے کو پولیس اہل کاروں نے تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ واقعے کے اگلے روز لندن کے ایک اور اسٹیشن سے ایک بریف کیس ملا جس میں کسی خاتون کی کٹی ہوئی ٹانگیں تھی، بعدازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ بریف کیس سے ملنے والی ٹانگیں اور ایک روز قبل ملنے والا دھڑ ایک ہی خاتون کے تھے، جو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، چوں کہ اس کا سر اور بازو نہیں ملا تھا، جس کی وجہ سے اس کی شناخت نہیں ہو سکی اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ اس کہ موت کن وجوہات کے باعث ہوئی، چوں کے اس خاتون کے پیر بہت خوبصورت تھے اس لیے یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ کوئی رقاصہ ہوسکتی ہے لیکن اس زاویے سے چھان بین کرنے کے باوجود بھی قاتل اور مقتولہ کی شناخت سے متعلق کوئی شواہد نہیں مل سکے۔

ابھی اس کیس کی تفتیش جاری تھی کہ پولیس اہل کاروں کو علاقے کی چھان بین کرتے ہوئے، ایک فلیٹ سے صندوق برآمد ہوا، جسے سینٹر ٹیبل کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، لیکن اس میں سے اُٹھنے والے تعفن نے پولیس اہل کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی، جب اس فلیٹ کے مالک نے دیکھا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ اہل کاروں کو شبہ ہوا کہ یہ ہی وہ شخص ہے جو اسٹیشنز پر کٹی ہوئی لاشیں چھوڑ کر جاتا ہے۔ اب انہوں نے اس کی چھان بین شروع کر دی کہ یہ کون ہے اور کب سے اس فلیٹ میں مقیم ہے۔ انہیں یہ جان کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ وہ یہاں کرائے دار ہے اور ماضی میں اس کا کرمینل ریکارڈ بھی تھا۔ اس کا اصل نام ’’کیسل لوئیس‘‘ تھا لیکن لوگ اسے ’’ٹونی مانسنی‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ چھبیس سالہ ٹونی کو سیریل کِلر مانتے ہوئے جگہ جگہ اس کی تلاش کی گئی، اس دوران تفتیش کاروں کو معلوم ہوا کہ اس فلیٹ میں شفٹ ہونے سے قبل وہ اپنے تین دوستوں کے ہمراہ برانٹن کے علاقے میں رہتا تھا۔ وہ چوری اور ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کیفے ٹیریا میں ویٹر کی حیثیت سے نوکری کرتا تھا، کچھ عرصے قبل اپنی گرل فرینڈ ’’وائلٹ کیے‘‘ کے ہمراہ اس فلیٹ میں شفٹ ہوا تھا۔ بعدازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ ٹونی کے گھر سے ملنے والی لاش اور کسی کی نہیں 42 سالہ وائلٹ کیے، کی ہے، جسے ممکنہ طور پر 10 مئی 1934ء کے آس پاس مارا گیا تھا، اس روز وائلٹ کو آخری بار اسی کیفے میں دیکھا گیا تھا، جہاں ٹونی ویٹر کا کام کرتا تھا۔ ان دونوں کے درمیاں ٹونی کے ساتھ کام کرنے والی ویٹرس کو لے کر کافی جھگڑا ہوا تھا، وائلٹ نشے کی حالت میں تھی۔ بعدازاں وائلٹ کی بھابھی کو ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ، اسے پیرس میں ایک اچھی نوکری مل گئی ہے، اس لیے وہ وہاں جارہی ہے۔ ٹونی نے انتہائی سفاکی سے وائلٹ کے کپڑے بھی اس کی دوست کے گھر یہ ہی کہہ کر بھیجوا دیئے کہ وائلٹ پیرس سے واپس آنے کے بعد کپڑے واپس منگوا لے گی۔ لیکن تفتیش کاروں پر حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مقتولہ کی بھابھی کو ملنے والا خط پیرس سے نہیں لندن سے ہی بھیجا گیا تھا اور وائلٹ کبھی پیرس پہنچی ہی نہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ اس کا قتل ٹونی نے ہی کیا ہے۔ اس وجہ سے پولیس اہلکاروں نے شبے کی بنیاد پر ٹونی کو گرفتار کر لیا تھا۔ ٹونی کو دفاع کرنے والی ٹیم کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ وائلٹ کو کسی اور نے قتل کر کے اس کی لاش کو ٹونی کے خالی گھر میں چھوڑ دیا تھا۔

ٹونی اپنے گھر میں وائلٹ کی لاش دیکھ کر پریشان ہوگیا اور گھبراہٹ میں اس کے ٹکڑے کرکے صندوق میں چھپا دئے، تاکہ کسی کو پتہ نہ چل سکے، چوں کہ ٹونی پر پہلے ہی چوری ڈکتی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا ریکارڈ موجود تھا، اس لیے اسے لگا کہ کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گا، نیز اس پر سیریل قاتل ہونے کا بھی الزام عائد ہو چکا تھا اس لیے وہ موقع واردات سے بھاگ گیا۔ اب آپ یقین کریں یا نہ کریں ٹونی کی، دفاعی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ بیان کی روشنی میں اس کو باعزت رہا کردیا گیا۔ لیکن چالیس سال بعد 1976ء میں حیرت انگیز طور پر ٹونی نے اپنے جرم کا عتراف کرلیا کہ اسی نے وائلٹ کو جان سے مارا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس نے دوبارہ کسی کی جان نہیں لی اور نہ ہی کسی جرم میں ملوث ہوا، البتہ خوبصورت پیروں والی لڑکی کی نہ تو کبھی شناخت ہو سکی اور نہ ہی اس کے قاتل کا پتا چل سکا۔