امریکا کی نئی ٹیرف پالیسی

June 06, 2018

امریکہ میں یہ خیال بہت تیزی سے تقویت پا رہا ہے کہ امریکہ کی معاشی کارکردگی وہ نہیں رہی جو ہو سکتی تھی ۔ بیروزگاری میں اضافہ ایک ایسا معاملہ امریکہ میں بنتا جا رہا ہے جو امریکی قوم کو ایک انجانے خوف میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاملے پر کھل کر گفتگو کی تھی اور امریکہ میں بھی اس معاملے کو جگہ جگہ موضوع بحث بنا دیا گیاتھا۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران صاف طور پر اپنے معاشی نظریات کا اظہار کرتے ہوئےکہا تھا کہ امریکہ نے جو تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں ان کے سبب سے وہ اب خود معاشی دبائو میں آ گیا ہے، جس سے نکلنے کی غرض سے امریکہ کو یورپ سے بھی نیا معاشی طرز عمل اپنانا ہو گا۔ ان ہی اپنے نظریات پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے مارچ میں ایلومینیم اور سٹیل کی درآمدات پر نیا ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ،مگر مذاکرات کی غرض سے یورپ ، کینیڈا اور میکسکوکو اس سے عارضی طور پر مستثنیٰ کر دیا مگر اب انہوں نے یہ عارضی استثنیٰ ختم کر دیا ہے اور ان پر بھی ٹیرف نافذ کر دیا ہے،جو 25% سٹیل اور 10% ایلومینیم پر لگایا گیا ہے۔ اس اقدام پر یورپ ، کینیڈا اور میکسیکو میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ،کیونکہ یہ امریکہ کے اپنے آپ کو قریب ترین اتحادی گردانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے یہ ٹیرف کوئی ان ممالک پر علیحدہ سے عائد نہیں کیا ہے بلکہ امریکہ نے ان ممالک کی سٹیل اور ایلومینیم کی اشیاء پر ٹیکس میں چھوٹ دی ہوئی تھی، ورنہ باقی دنیا جس میں اس کا ایشیاء میں قریب ترین اتحادی جاپان بھی شامل ہے ۔ امریکہ نے یہی ٹیکس عائد کیا ہوا ہے۔ یورپ، کینیڈا اور میکسیکو پر تو اس کے اثرات مرتب ہوںہی، مگر اس کے غیر معمولی اثرات امریکہ پر بھی مرتب ہونگے۔ مثلاً امریکہ کی بیئر( Beer )مارکیٹ اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہو گی۔ اس لئے ہی بیئرکی نمائندہ تنظیم نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی سخت مخالفت کی ہے۔ ٹریڈ پارٹنرشپ ورلڈ وائیڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اقدام سے امریکہ میں ایک لاکھ 40 ہزار ملازمتیں ختم ہو جائیں، جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں یہ تعداد 4 لاکھ 70 ہزار ملازمتوں کے خاتمے تک کا باعث بن سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نےنئے ٹیکسوں کا قانون کانگریس سے پاس نہیں کروایا، بلکہ نیشنل سکیورٹی سے منسلک ایکٹ 1962؁ء میں سے یہ شق نکالی ہے کہ اس انداز میں غیر ملکی دھاتوں پر انحصار کرنا قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور اس سے امریکہ میں ایلومینیم اور سٹیل سے وابستہ مقامی صنعتوں کو سنبھلنے کا موقع فراہم ہو گا۔ یورپ اور کینیڈا نے اس پر بہت سخت رد عمل کا اظہارکیا گیاہے اور امریکہ کے اس اقدام کو تجارتی جنگ کے مشابہ قرار دیا ہے۔ یورپ کمیشن کے صدر نے کہا کہ، یہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا جنون ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی جرمنی کی چانسلر نے کہا تھا کہ، امریکہ اور برطانیہ یورپ کے قابل اعتماد اتحادی نہیں رہے۔ فرانس کے صدر میکرون نے اس حوالے سے نہایت دلچسپ بیان دیا ۔ انہوں نے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکتے ہوئے یاد دلایا کہ، یہ وہی رویہ ہے جو دوسری جنگ عظیم سے قبل 1930؁ء کی دہائی میں بڑی طاقتوں نے اپنایا تھا اور یہ اکنامک نیشنلزم ہی تھا جو معاملات کو جنگ تک لے گیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے ٹیرف کے بڑھانے کے عمل کو نا صرف غلطی بلکہ غیر قانونی بھی قرار دیا۔ واشنگٹن میں یورپ سفیر ڈیوڈ سیلون نے کہا کہ، ہم اس کا جواب ممکنہ طور پر جون کے آخر تک دیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن نے کہا کہ، یہ ٹیرف پالیسی ناقابل قبول ہے اور کینیڈا کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ امریکہ کو اگر دھاتیں بیچے گا تو اس سے امریکی قومی سلامتی کو خطرہ لا حق ہو گا ،قابل تسلیم نہیں، کیونکہ کینیڈا، امریکہ کو ایلومینیم اور سٹیل فراہم کرنے والا ایک قابل اعتماد ملک ہے۔ امریکہ کی دفاعی انڈسٹری میں اس کا بہت استعمال ہے۔ امریکی جہازوں اور ٹینکوں میں یہ استعمال ہو رہا ہے، بہرحال کینیڈا بھی سٹیل ، دہی اور ٹوائلٹ پیپر کے ٹیرف میں امریکہ کے لئے تبدیلی لانے کا پروگرام بنا رہا ہے ، جس سے 12.8 ارب ڈالر کا فرق پڑے گا۔ اسی طرح یورپ بھی نیلی جینز ، موٹر سائیکلوں اور وسکی پر ٹیرف بڑھا کر جواب دینے کا لائحہ عمل تیار کر رہا ہے۔ یورپ اس لئے پریشان ہے کہ اس کی ملازمتوں ، اشیاء کی قیمتوں اور سرمایہ کاری پر امریکہ کےاس اقدام سے زبردست منفی اثرات ہونے کا امکان ہے۔ دی یورپین اسٹیل ایسوسی ایشن نے اسی لئے کہا ہے کہ، یورپ تجارتی جنگ کا مرکزی دروازہ بن چکا ہے۔ خیال ہے کہ اس امریکی اقدام سے یورپ میں لاکھ ملازمتوں پر اثر پڑے گا، جبکہ بعض یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ فرق نہیں ہو گا، کیونکہ یورپ کی سٹیل اور ایلومینیم کی اشیاء 88فی صدامریکہ کے علاوہ دیگر ملکوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جرمنی میں 85000 ملازمتوں پر تنہا اثر پڑنے کا امکان ہے،جب کہ د یگر یورپی ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ ٹیرف کے معاملے کے علاوہ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ گاڑی اور ٹرکوں کی خریداری کا بھی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ جرمنی سے 17 ارب ڈالر اور برطانیہ سے 7 ارب ڈالر کی گاڑیاں خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ ، کینیڈا اور میکسیکو سے نارتھ امریکہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی بات کر رہا ہے اور وائیٹ ہائوس اس پر بہت سخت ہے۔ وہاں سے بیان جاری ہوا کہ وزیر اعظم کینیڈا کو بتا دیا گیا ہے کہ یا تو Fair Deal ہو گی یا ڈیل نہیں ہو گی۔ امریکہ اس وقت چین سے بھی ٹیرف کے مسئلے پر الجھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ آخر ٹیرف ٹیرف کیوں کھیل رہا ہے؟بات یہ ہے کہ موجودہ عالمی تجارتی نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے زمانے میں وقوع پذیر ہوا، جس میں کچھ رعائیتں دینا امریکہ کی ضرورت تھی۔ اب امریکہ سمجھتا ہے کہ سرد جنگ گزر گئی ،معیشت پر ایسا بوجھ رکھنا غیر ضروری ہو گیا ہے۔ جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو اس کے ساتھ بھی ٹیکسوں کی مد میں کوئی نیا معاہدہ ہو جائے اور یورپ کے ساتھ بھی کوئی نئی ڈیل ، تا کہ امریکہ اپنی معیشت کو مستحکم رکھ سکے۔