بے موسم بارشیں اور طوفان بلاوجہ تو نہیں

June 19, 2018

کئی حوالوں سے 2018 کو غیر معمولی سال قرار د یا جارہا ہے ۔ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ما ہرین ارضیات متنبہ کرچکے ہیں کہ اس برس ز لز لے زیادہ تعداد میں اورزیادہ شدت سے آئیں گے تو دوسری جانب ماہرینِ موسمیات نے 1978-1979کےبعد 2018 کو سرد ترین سال قرار دیا ہے ۔ پچھلے برس موسم ِ گر ما میںجہاں کئی امریکی ریاستیں یکے بعددیگرے متعدد سمندری طوفانوںکےباعث بری طرح متاثرہو ئیںو ہیںچندہفتے قبل برطانیہ کو شدیدبرفانی طوفان کاسا منارہا ، جس کی وجہ سے وہاںکے میٹرولوجیکل آفس کی جانب سےپہلے 'ایمبروارننگ اور بعد میںریڈ الرٹ جاری کیا گیا ۔اس طوفان کا باعث بننے والا موسمیاتی سسٹم بحر ا لکا ہل پر ہوا کے نہایت کم دباؤ کے باعث پیدا ہوااورپر تگا ل اورا سپین سے ہوکر شمال مغربی فرانس کے راستے بر طا نیہ تک پہنچا۔اس کے بعد وہاں اگلے کئی روزتک شد ید بر فا نی بارش ریکارڈ کی گئی اور ایک ہفتے بعد بھی وہاں نظام ِ ز ند گی مفلوج رہا۔

لیکن برطانیہ میں آنے والی ابتدائی بہارکے اس بر فا نی طوفان کی تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بے وقت اوربے موسم آنے والے یہ طوفان کس طر ح وجود میں آتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ان کی شدت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ؟

زمین پر موجود پانی کے تمام ذخائر، جیسے سمندر، دریا ، جھیلیں اور تالاب وغیرہ سے آبی بخارات بننے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔یہ بخارات بلندی پرجاکرہوا کے زیادہ دباؤ سے بادل بناتےہیںجن سے پانی کبھی با ر ش کے قطروں کی صورت میں تو کبھی برف کے گالوں ، اولوں ،یا سلیٹ ( بارش اور برف کا امتزاج)کی طرح بر ستاہے ۔ بعض اوقات مختلف موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں ، مثلاََ ا نتہائی کم درجۂ حرارت کی وجہ سے کئی طرح کے 'پری سپٹیشن ایک ساتھ پیدا ہوجاتی ہیں۔ چوں کہ اس دوران زمین کی اوپری سطح کا درجۂ حرارت بھی کم ہوتا ہےلہذا وہ بار ش اور برف کویک جا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اسے موسمیاتی اصطلاح میںکو سنو یا فریزنگ رین ' کہا جاتا ہے ۔یورپ، بر طا نیہ اور امریکی ریاستوں میں ایسے طوفان صرف موسم ِ سرماہی میں نہیں آتےبلکہ اکثر اوقات خزاں کے اختتام اوربہارکے موسم کی ابتدا میں بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ البتہ موسمِ گرمامیںایساطوفان محض ایک دفعہ 1816 میں آیا تھا،جب امریکا کی شمال مشرقی ریاستوں میں موسم کے بر خلا ف درجۂ حرارت انتہائی کم رہاتھا اور ریکارڈ برف باری مشاہدے میں آئی تھی۔

جس طرح گرمیوں میں آنے والے طوفان کبھی سائیکلون،کبھی ٹورناڈو ( جھکڑ، گرد و غبار کا طوفان )،یا ہر ی کین( سمندری طوفان) کی صورت میں تباہی پھیلاتے ہیں اسی طرح برفانی طوفانوں کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ ایسے علاقے جہاں موسم مجموعی طور پر گرم و خشک ہوتا ہے ، وہاں عموما َ ہوا کے کم دباؤ کے باعث طوفانی آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔یہ گرد و غباراس علاقے کی قدرے گرم اور مر طوب ہوا کو اوپر اٹھاتا ہے اور یہ ٹھنڈی ہوا پر غالب آجاتی ہے۔ اس دوران اگر زمین کے بالکل اوپر ہوا کی تہہ کسی حد تک موٹی اور ٹھنڈی نہ ہو تو دو طرح کی پری سپٹیشن کے ملاپ کی وجہ سے اس علاقے میں برف کی بارش ہو تی ہے۔ چوں کہ ان کم ہوائی دباؤ والے علاقوں کے ارد گرد کی جگہوں پر ہوا کا دباؤ بڑھ جاتا ہے لہٰذا یہ دباؤ جتنا زیادہ ہوگا ، طوفان کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ اگر یہ دباؤ آخری حد کو پہنچ جائے تو صورت حال خراب ہو جاتی ہے جسے موسمیاتی اصطلاح میں ' بلیزارڈ یاشدید طوفان ِ برف باد کہا جاتاہے ۔ لیکن طو فا ن کے دوران گرنے والی بر ف ہمیشہ یک ساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار درج ذیل تین عوامل پر ہوتا ہے:

1۔ متاثرہ علاقے میں گرم ہوا جتنی تیزی سے ٹھنڈی ہوا کے اوپر چڑھے گی ، طوفان کی شدت اور برف باد کی رفتار اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

2۔ہوا کا دباؤ کم ہونے سے پہلے اس علاقےکی ہوا میں اگر نمی زیادہ تھی تو لازما َ انتہائی بلندی پر موجود سارا پانی بوچھاڑ کی صورت میں نیچے آئے گا جو زمین تک پہنچ کر برف کے گالوں کی صورت اختیارکرلےگا ۔

3۔ برف باری کا انحصار طوفان کی رفتار پر بھی ہوتا ہے۔اگر طوفان کی رفتار تیز ہے تو وہ مخصوص علاقےسے تیز ی سے گزر جائے گا۔ لیکن رفتار کم ہونے کی صورت میں دورانیہ بڑھ جائے گا اور خطرناک حد تک برف بار ی ہوگی ۔

دست یاب ریکارڈ کے مطابق 1888سے 1947تک کئی امریکی ریاستیں اس طرح کے طوفان ِ برف باد سے شدید متاثر ہوتی رہیں جن میں 1947کی صو رت حال سب سے خراب تھی جب تقریبا ً دو فیٹ یا 61 سینٹی میٹر برف باری ریکارڈ کی گئی تھی اور کئی ماہ تک درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کافی نیچے رہنے کی وجہ سے تمام علاقے منجمد رہے ۔ سڑکوں اور گھروں سے برف ہٹائی گئی تو بارہ فیٹ یا تین اعشاریہ سات سینٹی میٹر بلند ڈھیر لگ گئے تھے۔ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ محض6 انچ برف پڑے تو ذرائع آمدرفت شدید متاثر ہوتے ہیں، بارہ انچ تک برف باری ہونے کی صورت میں بجلی اور گیس کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے اوربرف کے ڈھیرسے گھر ، عمارتوں اور جنگلات کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔اس وقت محکمۂ موسمیات کی طرف سے 'ایمبروار ننگ جاری کی جاتی ہے، مگر مزید خراب صورت حال میں ریڈالرٹ کیا جاتاہے، جس میںبڑے پیمانےپرمالی اور جا نی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔

برفانی طوفان کی ایک قسم 'جھیل کے اثرات والی بر ف باری یا لیک افیکٹ اسنو اسٹارم بھی ہے۔ جب ر قبے کے لحاظ سے کسی بڑی جھیل کے اوپرسے بہت ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ گزرتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ جھیل کی سطح سے بخا ر ا ت بھی لے جاتے ہیں ، جن سے بادل بنتے اور پھر جھیل سے کم از کم دس میل اور زیادہ سے زیادہ سو میل کے علا قےمیںبرف بادیا برف کی صورت میں بارش ہوتی ہے ۔

بلاشبہ دنیا بھر میں تیزی سے رونما ہونے والی مو سمیا تی تبدیلیوں میں ایک اہم کردار’’ ایل نینو‘‘ کے اثرات نے بھی ادا کیا ہے۔یہ نام بحرالکاہل کے پانیوںمیں غیر معمولی درجۂ حرارت کے اضافے کو دیا گیا ہے ۔ یہ عمل سال میں ایک یا دو دفعہ ہوتا ہے،جب بحرالکاہل کا پا نی آخری حد تک گرم ہوکرماحول میں بہت زیادہ توانائی خا رج کر کےدنیا بھر میں موسمیاتی بگاڑ لاتاہے۔یہ ہواؤں کا رخ الٹ کر،بادل اور طوفانِ بادو باراںکے سسٹم مشر ق کی طرف منتقل کر دیتا ہے، جس سے وہاں طوفانوں کی شر ح بڑھ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سمندری اور بر فانی طوفان ماضی کی نسبت اب زیادہ آنے لگے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر کے مہینےمیں ماہرین ِ موسمیات کی جانب سے سال کے باقی مہینوں اور 2018 میں آنے والے سمندری طوفانوں اور سرما کے برفانی طوفانوں کی فہرست جاری کی گئی تھی۔ چوں کہ بحر ِ اوقیانوس کاپانی اس حد تک گرم نہیں ہوسکا تھاکہ ا س میں ایل نینو کا کرنٹ پیدا ہوسکے۔ لہٰذا ماہرین کی جانب سے ایل نینو کے اثرات میں غیر متوقع تا خیر کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بحر ِ ا و قیانوس شمال اور جنوب سے امریکی ریاستوں اور مشرق میں یورپ اور افریقاتک پھیلا ہوا ہے اور جنو ب میں یہ آبنائے ڈریک کے ذریعے بحرالکاہل سے بھی ملا ہوا ہے۔لہٰذا اس کے پانیوں میں پیدا ہونے والی کوئی بھی غیر معمولی تحریک یا اثرات بہ راہ ِ راست بحرالکاہل پر بھی اثرات مر تب کرتے ہیں ۔ ایل نینو میں تاخیر کے باعث گزشتہ برس ستمبر میں 'برائن ' نامی ایک طوفان سے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا وہ 2018 میں بھی جاری رہے گا اور گزشتہ دنوںبرطانیہ میںجو برفانی طوفان تباہی مچائے ہوئے تھا، وہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ اس طوفان برف باد کو ابتدا میں ’’فائی یون‘‘ ' کا نام دیا گیا تھا۔ا سکاٹ لینڈ اور لندن کو جس نئے طوفان کا سامنا کرنا پڑا اسے ’’اما‘‘کا ' نام دیاگیا۔ اس کے بعد ' جارجیا '، 'اوکٹاویا اور 'وینی فریڈ نامی طوفان متوقع ہیں جو چند ماہ میں یورپ اوربرطانیہ میں نظا م ِ زندگی مفلوج کرنے کا سبب بنیں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں صرف ان ہی طوفانوں کو باقاعدہ نام دیے جا تےہیں جن کے لیے میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایمبریا ریڈ وارننگ جاری کی جاتی ہے اور یہ ایک ، دویا کئی روز تک وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں ۔

’’اما‘‘ کو برطانیہ میں پچاس برسوں کا خطرناک ترین بر فانی طوفان قرار دیا گیا ۔اس دوران ایک موقعےپر اندازاََ دوفیٹ یا پچاس سینٹی میٹرزتک برف باری کے سا تھ درجۂ حرارت منفی 22 ڈگری سینٹی گریڈتک ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پھر صورت حال بہتر ہونا شروع ہوئی تو ماہرین کی جانب سے برف پگھلنے کے ساتھ شدید سیلاب آنےکے خطرے کے پیشِ نظر انتباہ جاری کیا گیا تھا۔