قانون کا ادھورا اطلاق اورنامزدگیاں

June 21, 2018

گزشتہ ہفتے سیاسی و غیر سیاسی خبرو ں کی بھرمار رہی! عمرہ کی غرض سے کپتان کا سفر اور سرزمینِ عرب پر جرابوں میں چہل قدمی، کلثوم نواز کی صحت سے متعلق چہ مگوئیاں، ممتاز سیاست دانوں کے کاغذات نامزدگی کامسترد ہوجانا، فضل اللہ کی ہلاکت، بس ہوسٹس کا قتل، افغان دہشت گردوں کا پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ، ایم کیو ایم پی آئی بی اور بہادر آباد کا پھر قریب ہوجانااور شوال کے چاند پر تنازعات نیوز اور سوشل میڈیا پر مستقل زیر بحث رہے۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ جنرل پرویز مشرف قانونی رعایات ملنے کے باوجود پاکستان نہیں پہنچ سکے کسی نے کہا کہ اِن کا پاسپورٹ بلاک تھا اور کسی نے وقت پر ٹکٹ نہ ملنے کو وجہ قرار دیا!
پاکستان میں قانون کا نفاذ یا اِس کی بالادستی ایک غیر یقینی معاملہ ہے۔ قوانین اگرچہ کتاب میں موجود ہیں لیکن اِن کی حیثیت محض اُس بندوق جیسی ہے جو صرف خاص طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے تحفظ کے لئے ہی چل سکتی ہے۔ سابق صدرجنرل پرویز مشرف کو عدالت عظمی نے زیر التوا مقدمات میں پیش ہونے اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے یقیناً قانونی رعایت دی تھی لیکن وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جنرل صاحب کو گرفتار نہ کرنے کے حکم کی اہمیت کوئی حیدر عباس رضوی سے پوچھے جن کے بارے میں کہا جارہاہے کہ وہ گرفتاری کے خوف سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے بغیر ہی اپنی پاکستان آمد کے چند گھنٹوں بعد واپس چلے گئے ۔اِن کا پاسپورٹ بلاک تھا نہ ہی انہیں ٹکٹ کا مسئلہ درپیش تھا، بس اُس وقت قانون اِن کے ساتھ نہیں تھا! دُوسری جانب جنرل پرویز مشرف غالباً عالم ناامیدی میں وطن آنے کے لئے درکار دیگر تیاریاں مکمل نہیں کرسکے تھے ! یہی وہ فرق ہے جہاں عدل اور شفافیت کے بنیادی نظام کو صحیح طور پر کھا جا سکتا ہے۔
عدالتی احکامات کے تحت جنرل پرویز مشرف کو دی گئی قانونی رعایت غلط نہیں ہوسکتی لیکن ایک ہی شہر، ایک ہی جنس، ایک ہی مادری زبان اور ایک ہی مقصد ہونے کے باجود دونوں شخصیات کے درمیان اِس فرق سے کچھ اَن کہی داستانوں کاسراغ ملتاہے۔ لیکن اب عدل، ضمیر، جمہوریت اور خوشحالی کی طرح ’قصہ گوئی‘ کی روایات بھی معدوم ہورہی ہیں۔ شعبہ صحافت میں سیلف سنسرشپ (self censorship) اِس صورتحال کا ایک سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف زیر التوا مقدمات سے متعلق واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے عموماً ً غیر معمولی ہوا کرتے ہیں:خاص طور پر ماضی میں سماعت کے دوران مشرف کی غیر حاضریاں! سال 2013کے انتخابات سے قبل وہ پاکستان آئے لیکن کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے سبب الیکشن نہ لڑ سکے۔ پھر گرفتاری کے بعد زیر سماعت مقدمات میں اِن کی پیشیوں کا معاملہ پوری قوم کے لئے معمہ سا بن گیا: عین سماعت کے دن اچھی صحت کے باجود وہ علیل ہوجایا کرتے تھے۔ سیاست دان خاص دنوں میں ہونے والی اِس بیماری کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن جنرل صاحب، ابتدائی سماعتوں کے بعد، عدالت میں پیش ہوئے بغیر ہی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ عدالت سے باہر ہر قانون اِن کے ساتھ کھڑا رہااورای سی ایل میں نام ہونے یا نہ ہونے پر بحث بھی اِن کا راستہ نہ روک سکی۔
ملتے جلتے واقعات کا مختلف ادوار میں بار بار رونما ہوتے رہنا پاکستان کا خاصا ہے۔ ایم کیو ایم کے خلاف سال 1992میں ملٹری آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بڑے پارٹی رہ نما عظیم احمد طارق کو مہینوں تلاش کرتے رہے۔ لیکن حیرت یہ کہ جب عظیم احمد طارق روپوشی ختم کرکے منظر عام پر آئے تو اِن کی گرفتاری کے لئے ایک چھاپہ بھی نہیں مارا گیا!
دلچسپ بات یہ کہ جب وہ اپنے حق میں سیاسی رائے عامہ استوار کرنے کیلئے خان عبدالولی خان سمیت مختلف سیاست دانوں سے ملاقاتیں کررہے تھے، کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت اِن کے خلاف اوپر تلے گرفتاری کے وارنٹ جاری کررہی تھی۔ ایک بار اِس بابت میں نے اُن سے سوال کیا تو کہنے لگے کہ اِس وارنٹ کی خبر اِن کی نظر سے نہیں گزری سو لگتا تھا جیسے اُن دنوں کا ’قانون‘ اُنکے ساتھ تھا۔ لہٰذا ایک بار اِسی موضوع پر خوف و ہراسکی حالت میں لکھا ہوا میرا اک مضمون انگریزی روزنامے دی نیوز میں شائع ہوا۔ چند ہی دنوں بعد بالآخر اُنہیں عدالت میں پیش ہونے کا خیال آیا ہی گیا۔
اِس ساری داستان کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے دوران عظیم احمد طارق نے جن شخصیات سے ملاقات کی اُن میں اس وقت کے وزیراعلی سندھ اور ایک کور کمانڈر بھی شامل تھے۔ دوسری خاص بات یہ کہ ایم کیو ایم کے اُن مفرورین کو کھل عام سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تھی جو عظیم احمد طارق کے دھڑے میں شمولیت اختیار کرلیتے تھے۔ دھڑے میں شمولیت سے قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے اِن مطلوب افراد کی ’اسکریننگ‘ کیا کرتے تھے۔ جس کی اسکریننگ ہوگئی وہ عظیم بھائی کا حامی اور جس کی نہیں ہوپاتی وہ روپوشی کی حالت میں صرف بھائی کا حامی رہتا! گویا مذکورہ مضمون کے خوف کی حالت میں لکھنے کے اسباب بہت واضح ہیں۔
کم و بیش اسی د ور میں ایم کیو ایم حقیقی کے رہ نما آفاق احمد کو بھی ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا! جن دنوں آفاق احمد لانڈھی میں واقع مرکز بیت الحمزہ المعروف وہائٹ ہائو س میں بیٹھ کرشہر بھر میں اپنے پارٹی ورکرز کنٹرول کیا کرتے تھے، حیدرآباد کی ایک عدالت اِن کے خلاف پے درپے گرفتاری کے وارنٹ جاری کررہی تھی۔ لیکن میری یادداشت کے مطابق آفاق احمد کو اس مقدمے میں کبھی بھی کہیں پیش نہیں ہونا پڑا تھا۔ یعنی ایک فرق یہاں بھی تھا جو آج محسوس کیا گیا ہے۔
عدالت میں پیش ہونے کے معاملے میں کپتان بھی زیادہ چست واقع نہیں ہوئے۔ گزشتہ چند سالوں میں مختلف مقدمات کے سلسلے میں انہیں متعدد بار مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کے احکامات جاری کئے گئے لیکن کپتان مختلف نوعیت کی مجبوریوں کے سبب عموماً پیش ہونے سے قاصر رہے۔ یہ سلسلہ اگرچہ نون لیگ کی حکومت کے خاتمے تک جاری رہا، اب ایک نئی صورتحال میں کپتان کی ترجیحات سے متعلق تفصیلات کافی الحال انتظار ہے۔
فی الحال چند حلقوں میں عمران خان، ڈاکٹر فاروق ستار، جنرل پرویز مشرف اور شاہد خاقان عباسی سمیت کئی ممتاز شخصیات کے کاغذات نامزدگی مسترد کردئیے گئے ہیں۔ اِس کے برعکس ایسی چند شخصیات کو اپنے کاغذات نامزدگی منظور کرانے میں کوئی دقعت پیش نہیں آئی جو ملک میں لسانی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے مرتکب رہے ہیں۔ چند کے خلاف توسنگین دفعات کے تحت مقدمات بھی درج ہیں لیکن اُنہیں نامزدگی کے عمل میں کسی لمحے مشکلات پیش نہیں آئیں۔ گزشتہ روز اگرچہ مسترد کردہ کاغذات پر اپیلوں کی سماعت شروع ہوچکی ہے لیکن تاریخی تناظر میں انتخابات سے متعلق سیاسی منظرنامے کا شفافیت اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے مکمل طور پر تسلی بخش ہونا کم و بیش بعید از قیاس ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk