مکمل پیمانے پر تجارتی جنگ قریب ہے

July 30, 2018

برلن: گے شازان، کترینہ مینسن

واشنگٹن : دیمتری سواستوپولو

لندن : مارک اوڈیل

اینگلا مرکل نے امریکی ٹیرف کے اقتصادی نقصانات کے انتباہ کے بعد جمعہ کو مکمل طور پر تجارتی جنگ کا امکان پیدا ہوا جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پانچ سو بلین ڈالر کی چینی مصنوعات کی درآمدات پر ڈیوٹی عائد کرنے کیلئے تیار ہیں۔

امریکی ڈالر کو تجارت پر نقصان پہنچانے کے لئے چین اور یورپی یونین کی کرنسیوں پر سازباز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے امریکی صدر نے سماجی رابطوں کی سائٹس اور ٹی وی پر حملوں کے سلسلے سے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ کشیدگی کو بڑھایا۔ تازہ ترین بوچھاڑ اس وقت سامنے آئی جب تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کے مقصد سے مذاکرات کیلئے یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جونکر آئندہ ہفتے واشنگٹن کا سفر کرنے کیلئے تیاری کررہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سی این بی سی کو بتایا کہ سالہا سال سے یورپی یونین کے ساتھ ہمیں 150 بلین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے اور وہ بآسانی پیسہ بنارہے ہیں۔ مزید کہا کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں اضافہ کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہمارے ملک کیلئے کرنے کا صحیح کام تھا۔

جمعہ کو برلن میں موسم گرما کی سالانہ پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں جرمن چانسلر اینگلا مرکل یورپی کاروں پر امریکی ٹیرف کی دھمکی کے ممکنہ ردعمل کا خاکہ پیش کیا لیکن کہا کہ وہ دنیا میں کئی لوگوں کی خوشحالی کیلئے ایک حقیقی خطرہ کو پیش کرتے ہیں۔

یورپی آٹو موبائلز پر امریکی کی جانب سے ٹیرف کا نفاذ عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین ممکنہ ٹیرف کے جوابی اقدامات پر کام کررہا تھا لیکن یہ کافی حد تک بدترین حل تھا ۔

اینگلا مرکل نے کہا کہ آئی ایم ایف اور دیگر ادارے عالمی تجارتی جنگ کے خدشات پر اقتصادی ترقی کی بتدریج کمی کی پیشن گوئی کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ اب جس طرح کررہی ہے اگر ممالک نے اسی طرح یکطرفہ طرزعمل اختیار کیا تو دنیا 2008 کے مالیاتی بحران پر قابو نہیں کرپائے گی ۔

حالیہ مہینوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور یورپی یونین پر امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس سے نمٹنے کیلئے نمایاں طور پر دباؤ میں اضافہ کیا،امریکی صدر متعدد یورپی اتحادیوں کی جانب سے اجتماعی تجارتی اور سلامتی کے مسائل کے لئے بھی فکرمند ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں امریکا نے چین کے 34 بلین ڈالر کی اشیائے صرف پر ٹیرف عائد کیا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی سے 500 بلین ڈالر کی مکمل چینی درآمدات کیلئے ڈیوٹیوں کے بڑھانے کے امکانات کو بڑھا دیا تھا۔

بیجنگ نے اب تک عائد کئے گئے اس طرح کے ٹیرف کا جواب دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے رواں ماہ آٹو پارٹس اور غزاٗی اجزاء سے لے کر تعمیراتی سامان تک مزید 200 بلین ڈالر مالیت کی چینی اشیائے صرف پر مجوزہ ٹیرف کی فہرست جاری کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات آنے کے بعد کارسازوں کی طرح شعبوں کیلئے تجارتی تنازع بڑھنے کے خطرے کا انکشاف ہونے سے یورپی اسٹاک نیچے چلا گیا۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ڈونلڈ ترمپ کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے، بیجنگ میں چند نے نتیجہ اخذ کیا کہ نومبر میں امریکا کے آنے والے وسط مدتی انتخابات تک کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہوگا۔

چینی حکام نے فنانشل تائمز کو بتایا کہ ہم امریکا سے مزید خریداری کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔ ہم امریکا میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہمیں مزید نہیں چاہتے، انہوں نے کہا کہ حالیہ مہنیوں میں تجارتی مذاکرات کے چوتھے دور میں چین اور امریکا نے پیشرفت کی تھی اور الجھن میں تھے کہ معاملات کی خرابی کو کس نے متحرک کیا تھا۔

چینی حکام نے کہا کہ بیجنگ غیر واضح ہے کہ کشیدگی میں اضافہ کی صدر کی دھمکیوں کو کتنا سنجیدہ لے،سوچ رہے ہیں ہیں کہ شاید نومبر کے انتخابات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کی شدت میں کمی آنا ممکن ہوسکتی ہے۔

ڈون؛ڈ ٹرمپ نے سی این بی سی کو بتایا کہ میں یہ سیاست کے لئے نہیں کررہا ہوں، میں یہ اس لئے کررہا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کے لئے درست ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم طویل عرصے سے چین کی جانب سے مالی استحصال کا شکار رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس گاڑیوں کی درآمدات میں قومی سلامتی تحقیقات کا انعقاد کررہا ہے،یورپ سے کاروں کی درآمد پر ممکنہ ٹیرف کی بشارت، جو بالخصوص جرمن کارسازوں کی لئے نقصان دہ ہوگا۔

گزشتہ ماہ مرسڈیز کی آبائی کمپنی ڈیملر نے امریکا کے خلاف چین کی انتقامی ٹیرف کی دھمکی سے ہوانے والے منافع کا انتباہ جاری کیا۔یہ کمپنی کو اس سال امریکا میں بننے والی چند اسپورٹس کے لئے مفید گاڑیوں کو چین میں بھیجنے پر مجبور کرے گا۔

اینگلا مرکل نے کہا کہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ عالمی اقتصادی سپلائی چینز کتنا مضبوطی سے ایک دوسے کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں، اس بات کی نشاندہی کی کہ جرمن کارساز سالانہ چار لاکھ کاریں امریکا میں تیار کرتے ہیں جو دنیا کے دیگر مختلف حصوں کو برآمد کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی ایم ڈبلیو کی سب سے بڑی فیکٹری جرمن میں نہیں ہے بلکہ جنوبی کیرولینا اسپارٹن برگ میں ہے۔