انقلابیوں کی غٹرغوں

August 18, 2018

روزآشنائی … تنویرزمان خان، لندن
میرے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر یہ بات چھوڑی ہے کہ بیرون ممالک میںبیٹھے کامریڈوں کی مثال ان کبوتروں کی طرحہے جو کبوتر بازی چھوڑ چکے ہیں لیکن آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کی کبوتر بازی کی طرحانقلاب کی غٹرغوں جاری ہے۔ میںنے اس پوری بات میںسے یہ مختصر ٹکڑا لیا ہے جس میں میرے دوست نے بیرون ممالک بیٹھے انقلاب کی باتیںکرنے والوںپر خوب چوٹ کی ہے لیکن یہ نہیںبتایا کہ ان کا ایسا کرنا درست بھی ہے یا نہیں البتہ یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ ان کی غٹر غوں ہے بے اثر و بے معنی یعنی وہ صرف دل پشوری کرنے کے لئے غٹر غوں کرتے ہیں۔ گویا انقلاب انقلاب کھیلتے ہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیںہے۔ چلیںآج اس پر ذرا غو رکرتے ہیں کہ کہیں یہ کھیل بھی ان کے لئے کہیںمذہب کی طرح جینے کی ایک امید ہی تو نہیںبنا ہوا۔ اس کے لئے کامریڈوںکو کئی پہلوئوںسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں وہ کامریڈ شامل نہیں جو برطانیہ یا جہاںرہتے ہیں وہیںانقلاب لانے کی باتیںکرتے ہیں۔ بلکہ یہ غٹرغوں صرف ان کی ہے جو ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ملک چھوڑکے آئے، کچھ وہ جو پہلے سے ہی پاکستان میں انقلابی غٹر غوں کیا کرتے تھے۔ دوسرے وہ جنہوںنے دوسرے ممالک میں پہنچ کر پاکستانی سیاست کی غٹرغوں شروع کی۔ایک جھرمٹ ایسے لوگوںکا بھی ہے جو پاکستان سے یا تو نہایت کم عمری میںآئے یا خالصتاً معاشی وجوہات سے آئے لیکن وہ بھی اب پاکستان کی فکر میںسیاسی غٹرغوں کرنے لگے ہیں۔ اس تمام تر شور و غوغے کا پاکستانی کی سیاست اور انقلاب پر تو کوئی اثرنہیں البتہ باہر رہتے ہوئے چائے کی پیالی یا گلاس میںانقلاب ضرور برپا رہتا ہے اور ایک اچھی سوشلائزیشن بھی ہوجاتی ہے۔ میرے دوست اس سوشلائزیشن کو کیوںچھیننا چاہتے ہیں مجھ سمیت اس غٹرغوں کرنے والے غول نے باہر رہتے ہوئے کئی اچھے کام بھی کئے اور کئی موثر کام بھی۔آمروں کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے بھی کئے ان میںسب سے بڑی لاٹ تو جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف کام کرنے کی پاداش میں ملنے والی قید، کوڑوں اورمقدمات جیسی اذیتوں سے بچ کر یا بھگت کر جلاوطنی اختیار کرنے والوںکی ہے۔گو یا انہیں اب30 سے 40 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے ان کی تعداد تو بہت کم رہ گئی ہے لیکن یہ نسل آج تک خود کو پاکستان کے لئے غٹرغوں کرنا بند نہیںکرسکی، یہ سب لکھتے ہوئے میرے ذہن میںاس ہجوم میںسے جو نام گردش کررہے ہیں ان میں پروفیسر امین مغل، سردار مظہر علی، ارشد بٹ، منیب انور، ہمراز احسن، جاوید حکیم قریشی، مشتاق لاشاری، محسن باری، امتیاز خان، ڈاکٹر اظہر ملک، اکرم قائمخانی، اسلام مرزا، آغاز ندیم، صباحت حمید نمایاں طور پر ذہن میںہیں کچھ وہ بھی ہیں جو پاکستان واپس چلے گئے کچھ وہ بھی جو صفدر ہمدانی جسے دنیا چھوڑ گئے یہاں میںاپنے دوست سیدنوید حسین کا ذکر نہ کرنے کی غلطی نہیںکرسکتا۔ باہر بیٹھ کر پاکستان کی سیاست کے بارے میںسوچنا، فکر کرنا، باتیں کرنا، وہاں کی پارٹی کی برانچ بنانا، تنظیمیں بنانا سب غٹرغوں کرنے کے لئے ہی تو ہے۔ جب یہ لوگ پاکستان میںکام کرنے والے کامریڈوں کی مالی معاونت کرتے ہیں تو وہاں لوگ کافی خوش ہوتے ہیں۔ ان کامریڈوں یا سیاسی ذہن رکھنے والوں کے علاوہ عام لوگ باہر بیٹھے ان کبوتر بازوں کو خبتی ہی سمجھتے ہیں اب تو خیرباہر بیٹھے کامریڈ ہوں یا عام تارکین وطن، پاکستان کی سپریم کورٹ نے انہیںپاکستان میں ووٹکا حق دے کر بیرون ممالک میں بھی موچی دروازے اور مینار پاکستان کی برانچیں کھول دی ہیں۔ جس کا خمیازہ باہر بیٹھے لوگ تو بھگتیں گے سو بھگتیں گے، پاکستان میںلگتا ہے لوگوںکو مظاہرے کرکے اس قانون کو واپس کروانا پڑے گا کیونکہ اس قانون سے کچھ طاقتوںکے ہاتھ میں دھاندلی کا جو جھرلو آگیا ہے اسے لوگ سوغات سمجھ کر ہمیشہ یاد کیا کریںگے۔ اس طرح اب یہ غٹرغوں صرف کامریڈوں تک نہیں رہ گئی بلکہ پاکستان کی سیاست ہی انٹرنیشنل ہوگئی ہے۔ انقلاب تو دور دور تک نہیںہے البتہ انتخاب ضرور بیرون ممالک میں دربار کرلے گا اور ہم ان مہذب جمہوریتوں میں اپنی شرع چلانے کی کوشش کریںگے اور باہر بیٹھے لوگوںکے ووٹ کسی کو عرش سے فرش پر گرائیں گے اور کسی کو فرش سے عرش پر اٹھائیں گے۔ خیر یہ سب جب ہوگا تب دیکھا جائے گا کیونکہ ہمارے ہاںپیش بندیوں کا رواج نہیں ہے، ہم تو سیلابوں کو جانتے ہوئے کہ آنا ہے اور تباہی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی کسی پیش بندی کو درست نہیںسمجھتے۔ وہاںکا کامریڈوںکا پاکستان کی طرف منہ کرکے غٹرغوں کرنا تو کوئی بڑی بات نہیںاور پھر پاکستان میں انقلاب انقلاب کھیلنے والے جاندار پیش رفت کرنے لگیں گے تو میرے دوست کو بیرون ممالک کی پاکستانیوں کی یہ غٹرغوں بہت کارآمد محسوس ہونے لگے گی، اس لئے یہ غٹرغوں جاری رہنی چاہئے۔