بھارت کی سیاسی قلابازیاں

September 26, 2018

پاکستان میں عام انتخابات کےبعد عمران خان نے وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد جو بیانات جاری کیے ان میں بھارت کو امن مذاکرات کی پیش کش بھی شامل تھی۔ انہوں نے بھارت کے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کی بات کی تھی۔ ان کے اس بیان کو دونوں طرف سراہاگیاتھا۔خصوصاً بھارت کے وہ حلقے جو دو نو ں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے خواہاںرہے ہیں، انہوںنے بھی اسے مثبت قدم قرار دیاتھا۔ بعدازاں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی مثبت جواب دیا گیا۔مگر پھر یہ خبرآئی کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کے علاوہ کشمیر میں تین سیکیورٹی اہل لکاروں کو اغوا کر کےماردیا گیا۔ اس کے فوری بعدبھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان سے مذاکرات کی دعوت منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ جولائی2016 میں کشمیری مجاہد برہان ربانی مقبوضہ کشمیر میںقابض بھارتی فوجیوں سے لڑتےہوئے شہید ہوگئے تھے۔پاکستان پوسٹل سروس نے ڈاک کے ٹکٹپران کی دوساتھیوں سمیت تصویر جاری کی تو بھارت میں اس پر واویلا مچا ۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان برہان ربانی کو ہیرو بناکر پیش کررہا ہے۔ اس لیے یہ احتجاج بھی مذاکرات کی دعوت منسوخ کرنے کی وجوہ میں شامل کرلیا گیا۔مگر ان تمام الزامات سے زیادہ سنگین الزام پاکستان کے وزیر اعظم پر لگایا گیا کہ ان کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور پاکستان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھارتی حکومت نے ایک اور مضحکہ خیز قدم اٹھایا ہے۔ بھارت کے یونیورسٹی گرانٹسکمیشن کے ذریعے ایک خط تمام سرکاری جامعات اور کالجزکو ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ29 ستمبر کو پورے جوش و خروش سے 2016 میں بھارتی فوج کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرجیکل اسٹرائیک کا دن منایا جائے۔خط کے مطابق 29 ستمبر کو بھارت نےپاکستان کی سرحدوںکےاندرسرجیکل اسٹرا ئیک کی تھی جسے گلوریفائی کیاجائے، تقریبات کا اہتمام کیا جائے، پوسٹرز شایع کیےجائیںاور بھارتی افواج کو ان کی قربانیوںپر خراج تحسین پیش کیا جائے۔ اس دن خاص طور پر بھارتی افواج کے ریٹائرڈ افسر اور سپاہی تقریبات میں شرکت کریں گے۔

تاہم بھارت کے بیش تر دانش وروں نے اس خط کی اور حکومت کی مذمت کی ہے۔ جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر اور کتاب ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے مصنف اے ایم مکرجی نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔انہوںنے کہا کہ قوم پرستی کے جذبے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا سراسر غلط ہے۔ اگر کسی نے اس مہم میںحصہ نہیںلیا تو کیا وہ قوم پرست نہیں ہے۔ دیگر حلقوں نے بھی 29 ستمبر کو نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک ڈے منانے کی مذمت کی ہے اور اسے بی جے پی کا بھونڈا سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ اکثریت اس سے متفق نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی تاریخ کا فی طویل ہے۔ اگر 1972 سے نظر ڈالیں تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میںبھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کرکے شملہ معاہدہ کیا تھا جس میںجنگی قیدیوںکی رہائی بھی شامل تھی۔1971 میںجو سفارتی تعلقات منقطع ہوئے تھے، وہ1976 میںبحال ہوئے۔پھر حالات کا اتار چڑھاو جاری رہا۔جون 1997 میں دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔مگر یہ سلسلہ ستمبر 1997 میںپھر منقطع ہوگیا۔ مگر ایک اچھی پیش رفت فروری 1999 میںہوئی جس میںبھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور وزیراعظم میاںنوازشریف نے ان کا مینار پاکستان پر استقبال کیا تھا۔ اس ملاقات اور مذاکرات میں دونوںممالک نے تین مختلف معاہدوںپر دست خط کیےتھے۔اس دوران پاکستان میں بھی دائیں بازو کی قدامت پسند جماعتوںنے اس عمل کی مخالفت کی تھی ۔ مگر یہ ملاقات مثبت پیش رفت تھی۔ اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ چند برس کے تعطل کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بھارت سے مذاکرات کی غرض سے آگرہ کاتین روزہ دورہ کیا جس میں14 تا 16 جولائی 2001 کو طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ۔ اس میں تین اہم معاملات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ معاہد ے پر اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف کے دست خط ہوناباقی تھے کہ اچانک چند نکات پر مذاکرات میں رکاوٹ آگئی۔بلکہ طے شدہ معاہدےپر بھی یکایک اعتراضاٹھادیا گیا۔ لہذا معاہدہ نہیںہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے بی جے پی کے طاقت ور راہ نما ایل کے ایڈوانی نے رکاوٹڈالی تھی۔

تاہم اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف بھارت کومزید مذاکرات کی پیشکش کرکے وطن واپس آگئے۔جون 2004 میںایک بار پھر مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھاجس میںیہ طے پایاکہ دونوں ایٹمی ممالک کے مابین ہاٹلائن قائم کی جائے اور مزید جوہری ہتھیاروں کے تجربات سے اجتناب برتا جائے۔2005 میںبھارت میں بگلیہار ڈیم کا مسئلہ اٹھا۔ اس کا منصوبہ 1992 میںتیار کیا گیا تھا ۔2004 میںاس کی تعمیر شروع ہوئی ۔ یہ ڈیم ایک ارب ڈالرز کی لاگت سے جموں وکشمیر کے ضلع ڈوڈادریائے چناب پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر پاکستان کے شدید تحفظات تھے۔ایسے میں پاکستان نے1999 میںڈیم کی تعمیر کو انڈس واٹر ٹریٹی کی صریحاًخلاف ورزی قرار دیااوراس کے ڈیزائن پر بھی شدید اعتراضاٹھایا۔

مذکورہ واقعات کے علاوہ بھات کو سب سے زیادہ تشویش 1989 میںکشمیر میںہونے والی عوامی شورش پر ہوئی جس کا ذمے دار وہ پاکستان کےمجاہدین کو تصور کرتا ہے ۔ اس سے بڑا واقعہ کارگل کا تھا جس میںآخرکار امریکا کو دونوںممالک میں صلحکرانے اور کشیدگی کم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑا تھا۔ بعدازاں2001 میں بھارتی پار لیما ن پر حملے کا واقعہ پیش آیا۔2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکا ہوااور 2008 میں ممبئی میں8 مقامات پر بم پھٹنے کے واقعات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخی اورسیاسی کشیدگی میںاضافہ کردیا۔ان تمام معاملات میںپاکستان کی حکومتوں نے پاکستان کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت اور میڈیا پاکستان پر مسلسل الزامات عاید کرتا رہاہے۔کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ بھارت کا پانی پاکستان میں نہیںجانےدیں گے۔ اس اشتعال انگیز بیان کے بعد دونوںممالک کے بیچ اس مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

بھارت کے بیش تر مبصرین کا دعویٰ ہے کہ دونوںپڑوسی ممالک کے بیچ پانی کے مسئلے پر جنگ کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔حالاں کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ دونو ں ممالک کے بیچ تقسیم ہند کے بعد سے چلا آرہا ہے۔ اس وقت تمام ہیڈ واٹر بھارت کے علاقے میںآگئے تھے۔ 1948 سے پاکستان اپنے حصے کے پانی کےلیے بھارت پر زور ڈالتا رہا ہے۔ تاہم 1960 میں عالمی بینک کے توسط سے سندھ طاس معاہدہ طےپایا جس کے تحت پاکستان اور بھارت کو ہمالیائی پہاڑوں سے آنے والےپانیوںسے مستفید ہونے کے مساوی مواقعے فراہم کیےگئے۔ مگر بھارت اپنے پانی کے علاوہ پاکستانی حصے کے پانی پر بھی حق جتارہا ہے۔ اس حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو، جس کے پاس صرف تین دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے،اپنی یہ صلاحیت ایک ہزار دن تک بڑ ھا نے کے منصوبے کی پیش کش کی ہے۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر چین بھی دونوںممالک کے درمیان اس مسئلے میں شامل ہوگیا تو پھر اس خطے میںامن قائم رکھنامشکل ہوسکتا ہے۔

قطع نظر اس تمام بحث کے، واقعہ یہ ہے کہ بھارت اس وقت ہمہ جہت اور پے چیدہ مسائل کا شکارہے جن میںمذہبی،لسانی علاقائی،سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں۔دوسری جانب بیرونی عناصر کی مسلح مداخلت ،انتہا پسند ہندو مذہبی گروہوں کی کارروائیاں، اقلیتوںمیں شدید بے چینی ہے۔پھر یہ بھی کہ تقسیم ہند کے زخم اب بھی ہرے ہیں۔ کرپشن، منہگائی اور بےروزگاری نے ہلچل مچارکھی ہے۔ پولیس اور طاقت ور سیاسی عناصر کا گٹھ جوڑ جرائم پیشہ گروہوں کو فروغدے رہا ہے۔جس سے عوام الناس میںحکومت کا اعتبار ختم ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے شمال مشرقی صوبوں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالہ، مینرورام، ناگالینڈ، تریپورہ اور سکم میں سیاسی شورشیں طویل عرصے سے جاری ہیں۔ ان میں سے بیش تر علاقوں پر چین کا دعویٰ ہے۔ بھارت میںاسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ بڑھتی جارہی ہے، وہ اس کا بھی پاکستان ہی کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔حالاں کہ اگر بھارت کی سرحدوںسے دہشت گرد اندر داخل ہوجاتے ہیں تو یہ اس کی سیکیورٹی کی کوتاہی ہے۔ اسی طرحبنگلا دیش سے غیرقانونی تارکین وطن اندر آجاتے ہیں تو یہ بھی بارڈر سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔

دراصل بھارت کا انتظامی ڈھانچا کرپشن اورلسانی تعصبات کی وجہ سے خاصا بوسیدہ ہوچکا ہے۔ غربت، تعلیم کا فقدان، توہم پرستی، بھانت بھانت کے بے شمار دیوی دیوتائوں میںگھرے عوام ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں ہے جس کو ان کا مہاویر چکر کہا جاسکتا ہے۔ البتہ بھارت کا تعلیم یافتہ، اعتدال پسند اور روشن خیال طبقہ ،جو محدود ہے، مگر اس کی آواز آج بھی توانا ہے، وہ برملا آواز اٹھاتا ہےکہ اگر بھارتی شہری پاکستان کے حق میںنعرے لگاتے ہیںتو یہ بھارت کے سیاسی نظام کی خرابی ہے۔