نیب واضح کرے، کس کا احتساب کب اور کیسے؟

October 21, 2018

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں قوم کو کرپشن فری، کڑے احتساب و انصاف اور پروپیپل حکمرانی کے حامل پاکستان کو نیا پاکستان قرار دیتے ہوئے جو خواب دکھایا اور بتایا تھا، وہ نیا ہو یا پرانا، لیکن قائد و اقبال کی جہد اور خواب کے مطابق یہی پاکستان اصلی ہوگا۔ اس کے حکمران صاحبانِ ایمان و خیر ہوں گے، حکمرانی شفاف اور مکمل عوام دوست اور ریاست کرپشن فری اور کڑے احتساب و انصاف کی حامل، سب سے بڑھ کر آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں اطلاق ہوگا۔ اس اصل پاکستان میں ملک کے شہرہ آفاق دریائی نظام کو جامد کرکے بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے حکمرانوں کو امیر ترین اور غرباء کو غریب تر کرنے والے کوٹ ادو اور کے الیکٹرک جیسے عوام دشمن سودے ہوں گے نہ نندی پور پاور پروجیکٹ کا بار بار افتتاح ہونے کے بعد وہ ٹھپ ہوگا اور نہ اس کا ریکارڈ جلے گا۔ نہ ہی ہر نئی حکومت قومی وسائل سے بجلی کی پیداوارپر توجہ دینے کے بجائے، آئی پی پیز کے اربوںکے گردشی قرض اتارنے میں الجھی رہےگی اور جب عوام ہی کا پیٹ کاٹ کر انہیں بمشکل اتارے گی تو ادائیگی کی آڈٹ رپورٹ میں سنجیدہ بےقاعدگیوں اور اربوں کی غلط ادائیگی کی نشاندہی ہوگی، ہوگی تو حکومت چپ نہ سادھ سکے گی۔ سادھے گی تو احتساب کی زد میں آکر نیب زدہ ہوجائے گی۔

نیب سے یاد آیا، جب قائد و اقبال کی نتیجہ خیز جدوجہد اور خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے والے اصلی پاکستان کے قیام کی مکمل درست راہ اختیار کی گئی تو اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے اور کتنے ہی سرکاری محکموں میں بدترین حکمرانی کی عکاس تباہ کن اوور اسٹافنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، لیکن اگر گزری کرپٹ حکومتیں پیچھے یہ تباہی چھوڑ گئیں(جیسا کہ عمران خان کے و زیر اعظم بننے سے کئی سال پہلے ہی یہ ہوچکا) تو نیب کا سیاسی بھرتیوں اور نوکریاں بیچنے کے سرکاری دھندے کے ذمہ داران کے احتساب کا آغاز حصہ بقدر جثہ کے اصول پر سابق وائس چانسلروں اور پروفیسر صاحبان کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنا احتساب کی ترجیح کے اعتبار سے کتنا درست ہے؟یہ تو اصل پاکستان کی طرف ہی سفر ہے کہ بغیر چارج شیٹ جاری کئے، ریفرنس بنائے اور اس کے مطابق ابتدائی تفتیش کے بغیر گرفتار کرکے نیب اچھا بھلا کام کرتا اپنا اعتبار بڑھاتا اور احتساب کے حوالے سے حکمرانوں پر ہاتھ ڈالنے کی ان ہونی کو ہونی کرتا ہوا، سابق وائس چانسلر اور پروفیسر صاحبان کی ا س انداز میں گرفتاری اور عدالت میں پیش کرنے کا مرتکب ہوتا، جس طرح کے دانش کی پکڑ کے متذکرہ کیس میں ہوا، اس کا مداوہ ایک حد تک تو جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس سے ہوا لیکن بزرگ وائس چانسلرز اور اساتذہ کی بدستور نیب حوالات میں اسیری سے یہ قومی خصوصاً ملک بھر کی یونیورسٹیوں پر مشتمل پروفیسر برادری کا سوال اپنی جگہ ہے کہ نیب اووراسٹافنگ سے پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے جیسے قومی اداروں کی کارکردگی اور معیار پر حملہ آور ہونے والے ذمہ دار سابق حکمرانوں کو اپنا مہمان کب بنارہی ہے اور انہیں کب احتسابی زیور پہنانے جارہی ہے یا جو نیب کی زد میں آچکے، کیا انہیں عدالت میں ایسے ہی پیش کیا گیا، ابھی تو حکومتوں کے متوازی خلاف آئین ’’کمپنیوں کی حکومت‘‘ بنانے، قبضہ مافیا بن کر فراڈ ہائوسنگ اسکیمیں قائم کرنے کے مرتکب سرکاری کارندوں کے یونیورسٹیوں کو اوور اسٹافنگ کرنے سے کہیں زیادہ سنگین کیسز بغیر پکڑ دھکڑ کے نیب کے زیر تفتیش ہیں۔

امر واقع یہ ہے کہ پاکستان سابق حکمرانوں کے ہاتھوں بری طرح لٹا تو ہے اور تباہ کن حد تک اس کی قومی معیشت، نظام مالیات، وصولی ٹیکس اور منی لانڈرنگ سے متعلق آئینی پابندیوں اور قوانین کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ برا تو اسٹیٹس کو کی سابقہ حکومتوں سے نکلی پارلیمانی متحدہ اپوزیشن کو بہت لگتا ہے لیکن عشرہ جمہوریت (2008-18) جس میں پہلی بار دو منتخب حکومتوں نے بدترین گورننس کے باوجود اقتدار کی آئینی باری پوری کی، ہماری حکومتی و سیاسی تاریخ میں سرکاری خزانے کی کھلم کھلا لوٹ مار، قومی اداروں پر نااہل پیکران وفا کو مسلط کرنے اور شدید اقتصادی بحران میں بے تحاشا سرکاری بدعنوانیوں کے ایسے سیاہ دور سے تعبیر کیا جائے گا، اسی اندھیرے میں کرپشن کے خلاف عمران خان کی برسوں کی جہد مسلسل اور پاناما لیکس کی قدرتی مدد سے نجات کی راہ نظر آئی۔ آئی تو بلاشبہ ٹاپ ،ڈائون احتساب کا حقیقی، آزادانہ اور جرأت مندانہ عمل شروع ہوا، جس میں ن لیگی حکومت میں ہی اسٹیٹس کو کی روایتی سیاست کی سب سے طاقتور شخصیت سابق وزیر اعظم نواز شریف، عدالت عظمیٰ کے کٹہرے تک پہنچ گئے اور نیب کی عدالت میں بھی اور اب دوسری، برابر کی یا میاں صاحب سے بھی بڑھ کر’’مرد حر‘‘ اک بار پھر نیب کے زیر عتاب ہے۔ یوں پاکستانی عدالتی نظام اور احتسابی ادارہ اتنی آئینی طاقت تو پکڑ گیا کہ لٹے پاکستان کو اصل پاکستان بنانے کا ایک حساس اور ناگزیر تقاضا تو پورا ہوگیا، جس سے ہر دو ادارے نئے(یااصل) پاکستان کے سفر میں بےپناہ اہمیت اختیار کرگئے، کرگئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے نئے پاکستان(یا اصل پاکستان) کا جو خواب دیکھا اور قوم کو دکھایا وہ کوئی جلد حاصل ہوا چاہتا ہے یا برسوں میں تیار ہوئی، ہزاروں کو امیر ترین بنا کر ملک و قوم کو فقیر بنانے والی طرز کہن کی حامل سیاسی طاقتیں کوئی اقتدار کھونے سے کمزور ہوگئیں ؟ایسا نہیں، مزاحمت بھی بہت بڑی ہے اور ہے بھی مسلسل، احتساب مخالف تمام اقتدار سے باہر کی پارلیمانی قوتیں، نیب کے زیر عتاب آکر بھی کوئی اتنی کمزور نہیں ہوئیں کہ وہ کوئی ہتھیار ڈال دیں۔ وہ متحد بھی ہوگئیں، حقیقت تو یہ ہے کہ شدید اقتصادی بحران اور مالی و انتظامی دھما چوکڑیوں میں ملوث سابق حکمرانوں کے مختلف النوع مزاحمتی حربے بھی کوئی کم نہیں تھے لیکن اب بھی وہ نیب کے اعتبار کو مشکوک بنانے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہے ہیں۔

نیب کے ذمہ داران اس پر غور کریں گے؟ کہ احتساب کی ترجیح میں بہت بعد میں آنے والے اہل دانش کے جو گریباں سرعام چاک کئے گئے ہیں اس میں خود نیب کے تفتیشی ا فسر آخر کیوں زیر عتاب آگئے؟ یا انہیں اس کی کوئی پروا نہیں یا پھر احتساب کی واضح ہوئی قومی ضرورت کے تناظر میں قومی سیاسی ابلاغ اور میڈیا میں بار بار برسوں سے دہرائے جانے والے اس سوال کا عمل سے جواب ملنے والا ہے؟ کہ منتخب حکمرانوں، نمائندگان، منتخب ایوان، ہر طرف سیاسی بدعنوانوں، بیوروکریسی، ججز، میڈیا اور جرنیلوں کے احتساب کا بھی وقت آن پہنچا اور وہ بھی بمطابق کٹہرے میں آنے والے ہیں۔نہیں تو پروفیسروں کو جس طرح رسوا کیا گیا اور وہ اسیری میں بدستور ہورہے ہیں کیا یہ سزا کافی نہیں؟ یا قوم منتظر رہے کہ نیب ریاست کے لئے تباہ کن وائٹ کالر کرائمز کی بھرمار کے ملزمان کو جلد کٹہرے میں لانے والی ہے اور مستحقین کو سزا دلوا کر اصل پاکستان کے قیام میں اپنا آئینی کردار ادا کرے گی۔یہ پس منظر اور سوالات تقاضا کرتے ہیں کہ نیب واضح کرے کہ احتساب کے لئے مطلوب ملزمان کی ترجیح کیا ہے اور کس کا احتساب کیسے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)