مٹی سے بنی دنیا کی سب سے بڑی مسجد

February 03, 2019

یوں تو ہرمسجد خالقِکائنات کی کبریائی، اس کے جاہ و جلا ل اور تقدس کی علامت ہے، تاہم دنیا کی کچھ مساجد اپنے طرزِ تعمیر کے سبب منفردمقام رکھتی ہیں۔ افریقی ملک مالی کی’جامع مسجد جینے‘ (Grand Mosque of Djenne) کا شمار بھی ایسی ہی مساجد میں ہوتا ہے۔ جینے، مالی کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے، جو ٹمبکٹو کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ یہ شہر اپنے مٹی سے تعمیر شدہ آرکیٹیکچر کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے اور حیران کن طور پر تقریباً پورے کا پورا شہر یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل ہے۔ یہ شہر مالی کے دریائے نائجر کے ڈیلٹا (مُثلث نما زمین جو کسی دریا کے دہانے پر بن جاتی ہے) پر واقع ہے اور بارش کے موسم میں آپ کو اس شہر تک پہنچنے کے لیے کشتی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

سرزمینِ عرب سے جب اسلام پھیلنا شروع ہوا تو اس نے ابتدائی دور میں افریقا کا رُخ کیا۔ حبشہ (جو آج ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتا ہے) کے راستے مصر، تیونس، الجزائر، مراکش اور افریقا کے دیگر ممالک میں پہنچا۔ ان علاقوں میں اسلام اور مسلمانوں کے پہنچنے کے بعد مساجد کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ افریقا کے ملک مالی میں اسلام پہنچا تو اس علاقے میں تعلیم اور اسلامی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا۔800عیسوی میں مالی کے شہر جینے کو اسلامی علوم کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی، جینے افریقہ کے قدیم شہروں میں شامل ہے، جہاں جابجا اسلامی تہذیب و تمدن کے خوبصورت آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں، مگر جینے کے مرکز میں مارکیٹ چوک پر بنی قدیم مسجد کو ان تمام پر فوقیت حاصل ہے۔ سوڈانی ساحلی طرزِ تعمیر (Sudano Sahelian) کا یہ شاہکار13ویں صدی (1240) میں تعمیر کیا گیا تھا، مسجد کی دیواروں پرجا بجا لکڑی کے بلاکس نصب ہیں، مٹی سے بنے مینار اور محراب اس مسجد کی شان ہیں۔ تاہم مرمت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مینار گِرگئے تھے اور عمارت بوسیدہ اور ناقابلِاستعمال ہوگئی تھی، ہزاروں پرندوں نے اسے اپنا مسکن بنا لیا تھا۔1893ء میں جب فرانسیسیوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں موجود مسجد کو منہدم کر کے اسکول بنا دیا، بعدازاں 1907ء میں اسی جگہ مسجد کو اس کے قدیم شاہکار اور شاندار ڈیزائن کے مطابق ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ جامع مسجد جینے کی تعمیر میں دھوپ میں سکھائی گئی اینٹوں کا استعمال اور گارے کا لیپ کیا گیا ہے۔

دیواروں کی تعمیر میں16اور24انچ چوڑائی کے بلاکس استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر میں کھجور اور تاڑ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ تاڑ کے درخت کی موٹی اور مضبوط لکڑی کے شہتیر دیواروں اور چھتوں میں استعمال کیے گئے ہیں، تاکہ ٹوٹ پھوٹ کے امکانات کو کم سے کم کیا جاسکے اور ساتھ ہی موسم کی سختی سے بھی بچا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے مچان بھی بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی دیواروں اور چھتوں میں تاڑ کے درخت کے موٹے اور مضبوط شہتیروں یا ستونوں کو اس طرح لگایا گیا ہے کہ یہ دیواروں سے باہر کی طرف نکلے ہوئے ہیں۔ یہ شہتیر مسجد کی سالانہ مرمت کے موقع پر چبوترے کا کام بھی کرتے ہیں۔ چھت پر مٹی اور چینی کے پائپ بھی نصب ہیں۔ ان کے ذریعے بارش کا پانی باہر نکل جاتا ہے ورنہ یہی پانی مسجد کی دیواروں اور اس کے لیپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جامع مسجد جینے کا قبلہ مشرق کی طرف واقع ہے۔ قبلے کی دیوار انتہائی خوبصورت اور اتنی بلند ہے کہ اسے شہر کے کسی بھی حصے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ قبلے والے مقام پر صندوق نما تین بڑے میناروں کے اوپر کلس بنائے گئے ہیں، جن کی نوک پر شتر مرغ کے انڈے لگے ہیں۔ مشرقی دیوار3فٹ موٹی ہے۔

مسجد کو بارش اور سیلاب کے پانی سے بچانے کے لیے خاص اہتمام کرتے ہوئےاس کو زمین سے تین میٹر اُونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چبوترے پر جانے کے لیے سیڑھیوں کے چھ درجے ہیں، جس کو دل فریب کنگروں سے سجایا گیا ہے۔ جامع مسجد جینے مٹی سے بنی دنیا کی سب بڑی عمارت ہے، اس کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے1988ء میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا، ساتھ ہی جینے شہر کے دیگر قدیم حصوں کو بھی عالمی ورثہ قرار دیا گیا۔

مسجد کا ڈیزائن پرانی طرز کا ہے، مسجد کی تعمیر میں استعمال کی گئی کچی اینٹیں گرمی کی حدت کو روک کر ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہیں، جس سے نمازیوں کو سکون کا احساس ہوتا ہے۔

ہر سال جب بارشیں ہوتی ہیں تو یہاں کے مکین مسجد کی دوبارہ لپائی کرتے ہیں۔ اس سالانہ مرمت کے لیے ہر سال ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے۔ سالانہ تقریب کا وقت آتے ہی لوگ اس کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میںزمین میں بڑے بڑے گڑھے بنا کر ان مین مٹی اور گارا جمع کیا جاتا ہے، پھر اس میںپانی ڈال کر مسالا تیار ہوتا ہے۔ مسالا تیار کرنے کے لیے بنائے گئے گڑھوں میں بچے و جوان مٹی اور پانی کو ملانے کے لیے اسے پیروں سے لتاڑتے ہیں، جس سے گارا یکجان ہوجاتا ہے۔ پھر علاقے کے افراد مسجد کے بیرونی حصے پر تیار مسالے کی لپائی کرتے ہیں۔

دنیا کی منفرد ترین اس مسجد میں 2 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ اس قدیم مسجد اور اس کی خدمت کی منفرد روایت نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ سمیت ماہرین تعمیر اور تہذیب و ثقافت کی توجہ حاصل کررکھی ہے۔ اس قدیم مسجد کی اہمیت کے اعتراف میں اس کا ریپلیکا فرانس اور کوریا میں واقع افریقی آرٹ میوزیم میں بھی بنایا گیا ہے ۔