شکریہ مودی جی

February 27, 2019

مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے اور اُس کے بارے میںحتمی بات نہیںکی جا سکتی۔ بعض اوقات کوئی ایک واقعہ اور حادثہ بھی بڑے سانحات کو جنم دے دیتا ہے۔ یوںبھی ہوتا ہے کہ پہلے قیادت خود جذباتی فضا بنا لیتی ہے اور اس کا ارادہ معاملے کو ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کا نہیںہوتا لیکن پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ خود اس جذباتی فضا اور رائے عامہ کی یرغمال بن جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ارادے کے برخلاف قدم اٹھانا پڑتے ہیں۔ یوں اب بھییہ خطرہ موجود ہے کہ کوئی مرحلہ ایسا آجائے کہ سیاسی مقاصد کے لئے ڈرامہ بازی کرنے والی بھارتی قیادت اپنی پیدا کردہ رائے عامہ کی یرغمال بن کر مجبوراً جنگ کی طرف چلی جائے۔ یوںپاکستان کے محافظین کو اس حالت کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے لیکن جہاںتک بھارتی قیادت کی اس روش کا تعلق ہے تو یہ ڈرامہ بازی ہم اس سے پہلے کئی مرتبہ دیکھچکے ہیں۔ جنونی ضرور ہے لیکن بھارتی قیادت اتنی بے وقوف نہیںکہ ایٹمی پاکستان سے جنگ کی حماقت کر بیٹھے۔ حالیہ جنگی بخار سے بڑھکر بخار انڈین پارلیمنٹپر حملے کے بعد پیدا کیا گیا تھا۔ بھارت نے اس سے بڑی ڈرامے بازی ممبئی حملوںکے بعد کی تھی۔ اسی طرح کی دھمکیاں پٹھان کوٹ اور اوڑی حملوںکے بعد بھی دی گئی تھیں۔ مقصد اور ہدف انتخابات کے تناظر میںجذباتی فضا پیدا کرنا اور پاکستان کو سفارتی محاذ پر دباو میں لانے کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی قیادت شاطر ہے، ذہین ہے، مکار بھی ہے اور تجربہ کار بھی۔ اسے اندازہ ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور ایٹمی پاکستان سے جنگ کی اسے کیا قیمت چکانا پڑے گی۔لہٰذااس جنگی بخار کے باوجود میری آج بھی وہی رائے ہے جو سابق آرمی چیفس جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کی تھی۔ یعنی پاکستان کو باہر سے نہیں، اندر سے خطرہ ہے اور بھارتی قیادت، پاکستانی خطرے کو بڑھا چڑھا کر جو کچھکر رہی ہے اس سے اس کو پاکستان سے نہیںبلکہ اندر موجود خطرہ بڑھے گا۔ بلکہ غور سے دیکھاجائے تو بھارتی قیادت جو کچھکررہی ہے اس کا پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ یوںکہ پاکستانی قوم جس واحد بنیاد پر متحد ہوتی ہے وہ بھارت ہے اور جب بھی بھارت جنگی فضا بنالیتا ہے تو بدترین سیاسی، ادارہ جاتی اور علاقائی تقسیم کی شکار پاکستانی قوم ایک ہونے لگتی ہے۔

نریندر مودی جس راستے پر حالات کو لے جارہے ہیںاس کا ان شاء اللہ پاکستان کو تو کوئی نقصان نہیںہو گا لیکن وہ بھارت کو ماضی کا پاکستان بنا دے گا۔ غور سے دیکھا جائے تو وہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے بھارت کو اس راستے پر لے جارہا ہے جس سے پاکستان تائب ہو رہا ہے۔ مثلاً ماضی میںپاکستان میںبھارت دشمنی کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس کی بنیاد پر قوم کو جذباتیت کا شکار بنایا گیا۔ پاکستان میںافغانستان اور بھارت کے تناظر میں انتہاپسند تنظیموںکو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا ۔ لیکن حتمی نتیجے کے طور پر ان لوگوںنے بھارت یا کسی اور پاکستان دشمن ملک کا تو کچھ نہیںبگاڑا البتہ آخر میںاپنی ریاست اور اپنی قوم کے لئے مصیبت بن گئے۔ جو کانٹے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میںحب الوطنی کے نام پر بوئے گئے تھے، انہیںجنرل پرویز مشرف کے دور سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور تک پلکوںسےچننا پڑا۔ اس انتہا پسندی کو قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر فروغ دیا گیا تھا لیکن پوری قوم اور پاکستانی فوج کو بے تحاشا قربانیاںدے کر اور خون کی ندیاںبہا کر آج ان سے نمٹنا پڑ رہا ہے ۔

پاکستان کے ابتر حالات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاںپر ہم نے آزادانہ سوچ اور مکالمے کو فروغ نہیںدیا۔ جن لوگوں نے بھی افغانستان اور بھارت سے متعلق روایتی سوچ سے ہٹ کر بات کرنے کے جرات کی، ہماری ریاست نے انہیںغدار، بھارتی ایجنٹ، افغانی ایجنٹ اور اسی طرح کے دیگر القاب سے نوازا۔ ماضی میں تو زیادہ تر بلوچ، سندھی اور مہاجر، قومیتوں کے لیڈروںاور دانشوروںکو غدار قرار دلوایا گیا لیکن پھر نوبت یہاںتک آگئی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والے میاںنواز شریف جیسے لوگوںتک یہ سلسلہ دراز ہوا۔ اس رجحان کی وجہ سے جہاںپاکستان میںجمہوریت کو شدید نقصان پہنچا، وہاںمکالمہ بند ہوا۔ ہم لکیر کے فقیر بن گئے اور جب تک کسی پالیسی کے بھیانک نتائج نے ہماری آنکھیںنہیںکھولیں، ہم اسی غلط ڈگر پر گامزن رہے۔ دوسری طرف بھارت میںجمہوریت کا تسلسل قائم رہا- تخلیقی اور تنقیدی سوچ پروان چڑھتی رہی۔ جس کا فائدہ بھارت کو یہ ہوا کہ وہ سفارتی اور اقتصادی میدانوں میںآگے نکلتا رہا۔ وہاںمیڈیا پھل پھول گیا۔ سوچ کی اس آزادی کی وجہ سے ان کی فلمی صنعت دنیا کی دوسری بڑی صنعت بن گئی اور انہی ہتھیاروں کے ساتھوہ پاکستان کو شکست دیتا رہا لیکن آج اس معاملے میںبھی بھارتی قیادت نے اپنے ملک کو ماضی کے پاکستان کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آج بھارت میںغداری کے فتووںکا رجحان فروغپارہا ہے۔ اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرنے والوںکو غداری کے الزامات سے نوازا جاتا ہے۔ سوچ پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں۔ جاوید اختر جیسے تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوںکو بھی پاکستان کے خلاف سرکاری سوچ اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آزادی کادعویدار بھارتی میڈیا پاکستان کے آمروںکے دور کے میڈیا کا منظر پیش کررہا ہے۔ اب وہاںکوئی ایسی فلم نہیںبن سکے گی جس میںپاکستان سے متعلق روایتی سوچ سے انحراف کیا گیا ہو لیکن یہ سلسلہ یہاںنہیںرکے گا۔ اب وہاںدیگر موضوعات سے متعلق بھی ماضی کی طرح آزاد خیالی کا مظاہرہ نہیںکیا جا سکے گا کیونکہ ہم پاکستانیوںسے بڑھکر کوئی نہیںجانتا کہ اس طرح کا جذباتی ماحول تخلیقی عمل کے لئے کس طرح زہر قاتل ہوتا ہے۔ یوںہم کہہ سکتے ہیںکہ مودی سرکار اور بی جے پی نے بھارت میںان اداروںکی تباہی کی بنیاد رکھ دی ہے جن پر وہ اتراتا پھرتا تھا۔

اقتصادی اور سفارتی میدانوں میںاگر ماضی میں بھارت پاکستان سے آگے نکل گیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کی سوچ بھارت کی گرد گھومتی رہی لیکن بھارت نے ہر ملک اور ہر معاملے کو اپنے مفادات کے آئینے میںدیکھا۔ مثلاً ہم افغانستان کی حکومتوںاور گروہوںکےبارے میںیہ رائے رکھتے رہے کہ وہ اگر بھارت کے دوست ہیں تو ہمارے خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتے لیکن بھارت نے افغان حکومتوںاور گروہوںکو اس آئینے میںنہیں دیکھا کہ ان کا پاکستان کے ساتھماضی یا حال میںکیا تعلق رہا ہے بلکہ وہ اگر ان کے کام آسکتا تھا تو وہ ہر گروہ اور حکومت کو گلے لگاتا رہا۔ اس سوچ کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اب پاکستان اپنی سوچ بدل رہا ہے۔ وہ یہ دیکھرہا ہے کہ ایران انڈیا کے بہت قریب ہے لیکن پاکستان اس کے باوجود ایران کو قریب کرنا چاہتا ہے۔ اب پاکستانیوں نے اس پر اعتراض نہیںکیا کہ سعودی ولی عہد اگر پاکستان کے بعد بھارت بھی جارہے ہیں اور وہاں پاکستان سے زیادہ سرمایہ کاری کرر ہے ہیں تو ان کی پاکستان میںاتنی زیادہ آو بھگت کیوںہو رہی ہے لیکن بھارت میںیہ آوازیں اٹھتی رہیں کہ پاکستان کے دوست سعودی ولی عہد کی یہاں آوبھگت کیوںہورہی ہے۔ درحقیقت یہ تنگ نظری تجارت اور ترقی کی دشمن ہے اور بھارتی حکومت خود پاکستان دشمنی میںاندھی ہوکراپنی ریاست کو ایک تنگ نظر ریاست بنانے چلی ہے جس کا خود اسے ہی نقصان ہو گا۔ مذکورہ تناظر میںدیکھاجائے تو اس حقیقت کو سمجھنے میںدقت نہیںہونی چاہئے کہ بھارت کو اصلا ً پاکستان سے نہیںبلکہ اپنے اندر سے اور بالخصوص مودی کی سوچ سے خطرہ ہے اور پاکستان کو آج بھی اصلاً بھارت سے نہیںبلکہ اندر سے خطرہ ہے۔ پاکستانی انتہاپسندوں بڑھک بازوں نے اگر بھارت کا کچھبگاڑا ہو تو پھر بھارتی انتہاپسند بھی خاکم بدہن پاکستان کا بگاڑ دیںگے لیکن اگر پاکستانی انتہاپسندوں اور بڑھک بازوں نے بھارت کا نقصان کرنے کے بجائے صرف اپنے ملک کا ہی نقصان کیا ہے تو پھر بھارتی انتہاپسند اور بڑھک باز بھی اپنے ہی ملک پر گریں گے۔ اس لئے ہم پاکستانیوںکو کسی صورت فکر مند یا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیںبلکہ سب کو یک آواز ہوکر کہنا چاہئے کہ شکریہ مودی جی۔